ارادے کی گٹھڑی کو باندھو
____________________________
وہاں ریشمی اطلسی اور حریری لباسوں میں
سونے کے، چاندی کے، مونگے کے، موتی کے محلوں کی
بہتات میں
باصرہ، سامعہ اور شامہ کی تسکین کو
ہے بہت کچھ
ابد زار کے طائروں اور جھکتے پھلوں کی قسم ہے
فقط ایک خواہش ہی کا فاصلہ ہے، دہن سے
اکارت نہیں جائیں گی نیکیاں اور
بکارت کا پردہ سلامت ملے گا
اسی کے لیے تو
فنا گاہ عالم بنائی گئی ہے
خدائی ارادے کے ریموٹ سے چلتے جاو
ارادے کی گٹھڑی کو باندھو
حس ذائقہ اور حس لامسہ کو ابد ہے!
٭٭٭
تم نہیں جانتے!
____________________________
در دریچے
شرارت بھری آنکھ سے
دیکھتے ہی رہے
اور لپٹی ہوئی بیل
دیوار سے
راز کہتی رہی
کتنی سرگوشیاں تھیں
فضا میں دھڑکنے لگیں
چھت کے فانوس
مدھم سی لو میں
ہمیں
جھانکتے یوں ہنسے
جیسے ہم راز ہوں!
گفتگو کی کھنک
اور ہنسی کی لپک
سب کے ہونٹوں سے
ایسے جھلکنے لگی
چار اطراف
رنگوں بھری
عکس بندی ہمکنے لگی
دھوپ کا روپ
چہروں پہ اترا
چمکنے لگا!
جانتے بوجھتے
تم جو انجان تھے
درد چھلکا
تو کیوں
مہرباں یوں ہوئے؟
جانتے ہی نہیں
اجنبیت کے
اپنے ہی آداب ہیں!
٭٭٭
نظم مجھ سے ملتی ہے
____________________________
ٹھہرتی ہے
وہ میری آنکھ میں مستور
ان دیکھے جزیروں میں
ہتھیلی کی لکیروں میں چھپے
سب راز کہتی ہے
وہ بہتی ہے مری آواز کی لہروں میں
اور آمیز ہوتی ہے سماعت سے
نہ جانے کتنے لوگوں کے
وہ دل آباد کرتی ہے
مجھے جب یاد کرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں
سرمئی شاموں کے کہرے میں
دوپہروں میں کبھی
اور رات کی تاریکیوں میں تو
مری نیندیں اڑاتی ہے
تمھارے نرم بوسے
اس کی پیشانی پہ کھلتے ہیں
یہاں ہم،
جب بھی۔۔ ۔ ملتے ہیں
وہ مجھ سے ملتی ہے
بانہوں میں بانہیں ڈال کر
یوں رقص کرتی ہے
زمیں
اک ایک تال اور سم پہ مرتی ہے
تمھارے لمس کی صورت
اترتی ہے بدن پر
روح کی گہرائیوں میں
تیرتی ہے
اور اڑتی ہے
فضاؤں میں
افق پر آسماں میں
چاند تارے اور سورج
نت نئے تشکیل کرتی ہے
بہت دھیمے سے یہ ترتیل کرتی ہے
دلوں کے ورق پر لکھی ہوئی
سب آیتوں کی
اور ان لکھی عبارت پڑھتی ہے
پھر مسکراتی ہے
ورق پر لکھتی جاتی ہے۔۔ ۔
وہ مجھ سے ملنے آتی ہے!
٭٭٭
نظم مکمل ہو جائے گی!
____________________________
دھوپ جلی دوپہر
بے سایہ شجر
اور خاموش ہوائیں
جذب ہو جائیں گے
شام کی خنکی میں
اور ابھر آئے گی
ایک نرم چاندنی رات
اپریل کی کوکھ سے
دائیں بائیں
مڑتی ہوئی گلیوں کی
ہتھیلی پر دھرے
بھنچے ہونٹ
ناراض آنکھیں
اور تشنہ پوریں
لکھتے رہے ادھوری نظم
مگر
یہ ڈھل جائیں گے
ایک مکمل نظم میں
کس
اگلی ملاقات میں!
٭٭٭