نظمیں ۔۔۔ عارفہ شہزاد

 

ارادے کی گٹھڑی کو باندھو

­____________________________

 

 

وہاں ریشمی اطلسی اور حریری لباسوں میں

سونے کے، چاندی کے، مونگے کے، موتی کے محلوں کی

بہتات میں

باصرہ، سامعہ اور شامہ کی تسکین کو

ہے بہت کچھ

ابد زار کے طائروں اور جھکتے پھلوں کی قسم ہے

فقط ایک خواہش ہی کا فاصلہ ہے، دہن سے

اکارت نہیں جائیں گی نیکیاں اور

بکارت کا پردہ سلامت ملے گا

اسی کے لیے تو

فنا گاہ عالم بنائی گئی ہے

خدائی ارادے کے ریموٹ سے چلتے جاو

ارادے کی گٹھڑی کو باندھو

حس ذائقہ اور حس لامسہ کو ابد ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

تم نہیں جانتے!

­____________________________

 

در دریچے

شرارت بھری آنکھ سے

دیکھتے ہی رہے

اور لپٹی ہوئی بیل

دیوار سے

راز کہتی رہی

کتنی سرگوشیاں تھیں

فضا میں دھڑکنے لگیں

چھت کے فانوس

مدھم سی لو میں

ہمیں

جھانکتے یوں ہنسے

جیسے ہم راز ہوں!

 

گفتگو کی کھنک

اور ہنسی کی لپک

سب کے ہونٹوں سے

ایسے جھلکنے لگی

چار اطراف

رنگوں بھری

عکس بندی ہمکنے لگی

دھوپ کا روپ

چہروں پہ اترا

چمکنے لگا!

 

جانتے بوجھتے

تم جو انجان تھے

درد چھلکا

تو کیوں

مہرباں یوں ہوئے؟

جانتے ہی نہیں

اجنبیت کے

اپنے ہی آداب ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

 

نظم مجھ سے ملتی ہے

­____________________________

 

ٹھہرتی ہے

وہ میری آنکھ میں مستور

ان دیکھے جزیروں میں

ہتھیلی کی لکیروں میں چھپے

سب راز کہتی ہے

وہ بہتی ہے مری آواز کی لہروں میں

اور آمیز ہوتی ہے سماعت سے

نہ جانے کتنے لوگوں کے

وہ دل آباد کرتی ہے

 

مجھے جب یاد کرتی ہے

سحر کے جھٹپٹے میں

سرمئی شاموں کے کہرے میں

دوپہروں میں کبھی

اور رات کی تاریکیوں میں تو

مری نیندیں اڑاتی ہے

 

تمھارے نرم بوسے

اس کی پیشانی پہ کھلتے ہیں

یہاں ہم،

جب بھی۔۔ ۔ ملتے ہیں

وہ مجھ سے ملتی ہے

بانہوں میں بانہیں ڈال کر

یوں رقص کرتی ہے

زمیں

اک ایک تال اور سم پہ مرتی ہے

 

تمھارے لمس کی صورت

اترتی ہے بدن پر

روح کی گہرائیوں میں

تیرتی ہے

اور اڑتی ہے

فضاؤں میں

افق پر آسماں میں

چاند تارے اور سورج

نت نئے تشکیل کرتی ہے

 

بہت دھیمے سے یہ ترتیل کرتی ہے

دلوں کے ورق پر لکھی ہوئی

سب آیتوں کی

اور ان لکھی عبارت پڑھتی ہے

پھر مسکراتی ہے

ورق پر لکھتی جاتی ہے۔۔ ۔

وہ مجھ سے ملنے آتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

نظم مکمل ہو جائے گی!

­____________________________

 

 

دھوپ جلی دوپہر

بے سایہ شجر

اور خاموش ہوائیں

جذب ہو جائیں گے

شام کی خنکی میں

اور ابھر آئے گی

ایک نرم چاندنی رات

اپریل کی کوکھ سے

 

دائیں بائیں

مڑتی ہوئی گلیوں کی

ہتھیلی پر دھرے

بھنچے ہونٹ

ناراض آنکھیں

اور تشنہ پوریں

لکھتے رہے ادھوری نظم

مگر

یہ ڈھل جائیں گے

ایک مکمل نظم میں

کس

اگلی ملاقات میں!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے