ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں
لیکن اب تمہیدِ ذِکر درد و ماتم ہو گئیں
مرزا محمد ہادی رسوا (1858- 1931) کا غیر روایتی انداز میں لکھا گیا منفرد اسلوب کا حامل ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ سال 1899 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں انیسویں صدی میں بر صغیر میں نو آبادیاتی دور کے حالات بالخصوص لکھنو شہر میں زندگی کے معمولات، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی منظر نامے کی حقیقت پسندانہ انداز میں مرقع نگاری کی گئی ہے۔ اپنے اس ناول میں مرزا محمد ہادی رسوا نے لکھنو کی زندگی کے جن اہم پہلوؤں کو جگہ دی ہے ان میں محرم کے مہینے میں امام بارگاہوں میں عزا داروں کے اجتماع، سوز خوانی اور مرثیہ گوئی کی محافل، عیش باغ کی محفلیں، مشاعرے، موسیقی، محافل شب، اور ہولی کے اجتماع شامل ہیں۔ مصنف نے لکھنو کی خواتین بالخصوص طوائف کی زندگی اور قحبہ خانے کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔
بر صغیر میں اور بالخصوص لکھنو میں واجد علی شاہ کے دور میں پورا معاشرتی ڈھانچہ لرزہ بر اندام تھا۔ استعماری طاقتوں کے غلبے کے بعد اس خطے میں زندگی کی درخشاں اقدار و روایات پر جان کنی کا عالم تھا۔ پیہم شکست دِل کے نتیجے میں بے حسی بڑھنے لگی تھی۔ حقیقت نگاری کا مظہر یہ پہلا حقیقی اور ہر اعتبار سے مکمل ناول ہے جو انیسویں صدی میں لکھنوی طرزِ زندگی، ادب، فنون لطیفہ، تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کی صورت حال کا معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ لکھنو کے نوابوں، شہزادوں، تاجروں شرفا اور امرا کی زندگی کے تمام پہلو اس ناول میں سمٹ آئے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب لکھنو کے نواب برطانوی استعمار کے آلۂ کار بن چکے تھے۔ سال 1857 میں اودھ کی شکست کے بعد رونما ہونے والے تمام واقعات اس ناول کا موضوع ہیں۔ ناول نگار نے لکھنو کی تہذیب و ثقافت کے سب رنگ جن میں مشاعرے، رقص، موسیقی اور عشرت کدے شامل ہیں اس ناول میں شامل کیے ہیں۔ اپنے عہد کی مقبول مغنیہ، رقاصہ، حسین طوائف اور شاعرہا مراؤ جان ادا سے مصنف کی پہلی ملاقات ایک محفل مشاعرہ میں ہوئی۔ اس ملاقات میں امراؤجان ادا نے اپنی زندگی کے سب واقعات سے مصنف کو آ گاہ کیا۔ اس شعری نشست میں امراؤ جان ادانے اپنے اشعار سنائے ان اشعار پر امراؤ جان ادا کو بہت داد ملی:
کعبے میں جا کے بھُول گیا راہ دیر کی
ایمان بچ گیا مرے مولا نے خیر کی
کِس کو سنائیں حالِ دِلِ زار اے اداؔ
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے باشندوں کے مصائب و آلام میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ امراؤ جان ادا کی آپ بیتی میں ان تلخ حقائق کی جانب متوجہ کیا گیا ہے جن کے باعث یہاں کے باشندوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی میں بڑھتی ہوئی سادیت پسندی، بے روزگاری، غربت، فحاشی، عیاشی، ہوس، منشیات کے استعمال اور جنسی جنون نے اخلاقیات کے قصر عالی شان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ انیسویں صدی میں لکھنو کے زوال پذیر معاشرے میں بے حسی، بے ضمیری، بے وفائی، رقابت، محسن کُشی اور بے غیرتی کا زہر سرایت کر گیا۔ اس کے نتیجے میں افراد کے دِل سے خلوص، درد مندی، مروّت اور ایثار ختم ہو گیا۔ رفتہ رفتہ کارواں کے دِل سے احساس زیاں بھی رخصت ہو گیا۔ حقارتوں کے ستم سہہ کر نہاں خانۂ دِل میں چاہتوں کے در بنا کر ہوس کے مارے زاغ و زغن اور کر گسوں کا مسکراتے ہوئے خیر مقدم کرنا طوائف کی زندگی کا لرزہ خیز المیہ ہے۔ طوائف اپنی زندگی کے سفر میں حائل ظلمتوں کی بھیانک دیوار دیکھ کر بھی موہوم اُمید پر روشنی کا سفر جاری رکھتی ہے۔ محبت کی اداکاری کرتے وقت طوائف اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا لیتی ہے۔ امراؤ جان ادا کی آپ بیتی میں انیسویں صدی میں لکھنو کے زوال پذیر معاشرے کے الم ناک اخلاقی تنزل، عبرت ناک بے حسی، شرم ناک بے غیرتی، ذلت ناک بے ضمیری، افسوس ناک جنسی جنون، خطر ناک دہشت گردی اور خوف ناک خود غرضی کی جوتصویر سامنے آتی ہے وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ اس دور میں آلام روزگار کے پاٹوں میں پسنے والی مظلوم عورتیں کس طرح ستم کشِ سفر رہیں۔ امراؤ جان ادا کے دِل میں اُٹھنے والی درد و غم اور رنج و کرب کی لہریں اس کے چہرے پر حسرت و یاس کی کرنوں کی صورت میں جلوہ گر تھیں۔ اس ناول کا حرف حرف اور منظر منظر ایک طوائف کی اندوہ ناک زندگی کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحات کا آئینہ دار ہے۔ امراؤ جان ادا کے شجرِ حیات کی ڈالی ڈالی اور خوشہ خوشہ جبر کی مسموم طفیلی بیلیں کھا گئیں۔ زندگی کے آخری ایام میں اس کے جسم و جاں کے بوسیدہ جھونپڑے میں سسکتے دِلِ شکستہ کا حال پوچھنے ولا کوئی نہیں۔ اس ناول میں امراؤ جان ادا کا کردار کسی قدر پیچیدہ نوعیت کا ہے جس کو زندگی بھر کسی ایسے محرم کی تلاش رہی جو اپنے جگر میں درد کا گھاؤ رکھتا ہو۔ جب وہ منزل کی تلاش میں سرابوں میں بھٹک رہی تھی تو اس نے شاعری کے ذریعے تزکیہ نفس کرنے کی سعی کی۔ امراؤ جان ادا کی یہ غزل اسی زمانے کی تلخ یادوں کی امین ہے۔
شبِ فرقت بسر نہیں ہوتی
نہیں ہوتی سحر نہیں ہوتی
شور فریاد تا فلک پہنچا
مگر اُس کو خبر نہیں ہوتی
تیرے کُوچے کے بے نواؤں کو
ہوسِ مال و زر نہیں ہوتی
جان دینا کسی پہ لازم تھا
زندگی یوں بسر نہیں ہوتی
ہے یقیں وہ نہ آئیں گے پھر بھی
کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی
اب کِس اُمید پر نظر میری
شکوہ سنج اثر نہیں ہوتی
ہم اسیرانِ عشق کو صیاد
ہوسِ بال و پر نہیں ہوتی
غلط انداز ہی سہی وہ نظر
کیوں مرے حال پر نہیں ہوتی
اے اداؔ ہم کبھی نہ مانیں گے
دِل کو دِل کی خبر نہیں ہوتی
آپ بیتی اور مکالماتی انداز میں لکھے گئے اس ناول کی موثر کردار نگاری نے اسے جو استحکام عطا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ امراؤ جان ادا کو یہ معلوم نہ تھا کہ مصنف اس کی زندگی کے سب راز افشا کر دے گا۔ اس ناول میں اس عہد کی معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور تاریخ کے ارتعاشات کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ ایک طوائف نے اپنے عہد کے زوال پذیر معاشرے کی روداد بیان کرتے وقت کوئی بات نہیں چھُپائی۔ امراؤ جان ادا کی مظلومیت، بے باکی اور ذہانت قاری کو بہت متاثر کرتی ہے۔ جب انیسویں صدی کے انحطاط کے شکار لکھنوی معاشرے کی تاریخ پر دستاویزی نوعیت کے اس مکمل ناول کا مسودہ تحریر ہو گیا تو مرزا ہادی رسوا نے یہ مسودہ امراؤ جان ادا کو بھی دکھایا۔ امراؤ جان ادا کے محرم راز مصنف کی اس جسارت سے امراؤ جان ادا مشتعل ہو گئی اوراس نے غیظ و غضب کے عالم میں ناول کا مسودہ پھاڑنے کا قصد کیا مگر نا معلوم وجوہ کی بنا پر وہ ایسا نہ کر سکی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے کان میں کوئی رازدارانہ انداز میں اسے یہ کہہ رہا ہے:
’’اچھا! امراؤ بالفرض اسے تم نے پھاڑ کے پھینک دیا، جلا دیا، تو اِس سے کیا ہوتا ہے۔ تمام عمر کے واقعات، جو خدائے عادل و توانا کے حکم سے فرشتوں نے مفصل اور مشرح لکھے ہیں، اُنھیں کون مٹا سکتا ہے؟ اس غیبی آواز سے میرے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے مگر میں نے اپنے تئیں سنبھالا۔ چاک کرنے کا خیال تو بالکل دِل سے محو ہو گیا۔‘‘
اس کے بعد امراؤ جان ادا نے مسودہ توجہ سے پڑھا اور جا بہ جا جو کچھ رہ گیا تھا، اس کی اصلاح کر دی۔ اس طرح اردو زبان و ادب ایک لا زوال ناول سے محرومی کے نقصان سے بچ گیا۔ سال 1981 میں مظفر علی نے یادگار فلم ’’امراؤ جان ادا‘‘ بنائی جسے فلم کے ناظرین نے بہت پسند کیا۔
لطف ہے کون سی کہانی میں
آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی
فیض آباد کے ایک معزز مسلمان خاندان سے تعلق رکھنے والی امراؤ جان ادا کا اصل نام امیرن تھا۔ اس کا باپ بہو بیگم کے مقبرے پر جمعدار کی حیثیت سے نوکر تھا۔ امیرن جب نو برس کی تھی تو اس کی منگنی نواب گنج میں مقیم اس کی پھوپی کے بیٹے سے ہو گئی۔ امیرن اپنے منگیتر سے مِل کر کھیلتی رہی اور خوش تھی کہ اس کا منگیتر اس کی پڑوسن اور دھنیے کی بیٹی کریمن کے منگیتر سے زیادہ خوب صورت ہے۔ امیرن کی شادی کے دِن بھی طے کر دئیے گئے۔ امیرن کے باپ نے فیض آباد میں اپنے ایک محلے دار، بد نام دہشت گرد اور اغوا کار دلاور خان کے خلاف عدالت میں گواہی دی۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں دلاور خان کو قید کی سزا ملی۔ دلاور خان جب اپنی سزا بھگت کر جیل سے رہا ہو کر گھر پہنچا تو یہ شقی القلب، کینہ پرور اور جلاد منش ابلیس انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس ظالم و سفاک درندے نے کبوتر پال رکھے تھے اس کا پڑوسی جمعدار جو امیرن کا باپ تھا وہ بھی کبوتر باز تھا۔ دلاور خان نے ایک شام امیرن کے باپ کا ایک کبوتر پکڑ لیا۔ کبوتر واپس کرنے کا جھانسہ دے کر کم سِن امیرن کو اغوا کر لیا اور اسے ساتھ لے کر بیل گاڑی میں بیٹھ کر لکھنو روانہ ہو گیا۔ ملازم پیر بخش جو بیل گاڑی ہانک رہا تھا وہ بھی اگرچہ دلاور خان کا شریک جرم تھا مگر اس نے راستے میں امراؤ جان ادا کو سردی سے بچنے کے لیے بیلوں کا کمبل اوڑھا دیا اور کھانے کو تھوڑے سے بھُنے ہوئے چنے بھی دئیے۔ راستے میں بھی دلاور خان اس بے بس لڑکی کو طمانچے مارتا، چھری لہرا تا، گالیاں دیتا، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا اور اپنے غیر انسانی سلوک سے ہراساں کرتار ہا۔ امیرن کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کوئی دم کی مہمان ہے۔ لکھنو پہنچنے کے بعد وہ گومتی کے اس پار پیر بخش کے سالے کریم کے گھر ٹھہرے جہاں امیرن کو ایک اور اغوا کی جانے والی بنیے کی لڑکی رام دئی کے ساتھ قید کر دیا جاتا ہے۔ اس لڑکی کو ظالم درندہ کریم کہیں سے اغوا کر کے لایا تھا۔ کم سِن لڑکیوں کو حیلے بہانے سے بہلا پھسلا کر اغوا کرنا دلاور خان اور کریم کا پیشہ تھا۔ لکھنو پہنچ کر ان دونوں مظلوم قیدی لڑکیوں کو جدا کر دیا جاتا ہے اور دونوں کو الگ الگ گاہکوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ رام دئی کو تو ایک خانہ دار عورت نے اپنے بیٹے کے لیے دو سو روپے میں خرید لیا مگر امیرن کو وہ خانم جان کے قحبہ خانے میں لائے۔ رام دئی کی شادی ہوئی اس کی اولاد بھی ہوئی وہ اپنے بیٹے کی شادی کی فکر میں تھی۔ دلاور خان نے قحبہ خانے میں لکھنو کی رذیل طوائف اور بدنام نائکہ خانم جان سے رابطہ کیا اور امیرن کو اس کے ہاتھ سوا سو روپے میں بیچ دیا۔ خانم جان نے اس سودے کے بعد تربیت کے لیے اسے بوا حسینی کو دے دیا اور کہا:
’’ہم لوگ بالکل بے قصور ہیں۔ عذاب، ثواب ان ہی موؤں کی گردن پر ہوتا ہے۔ ہم سے کیا! آخر یہاں نہ بِکتی کہیں اور بِکتی۔‘‘
معمر عورت بوا حسینی اور اس کا ضعیف شوہر خانم جان کے قحبہ خانے میں طوائفوں کی تعلیم و تربیت پر مامور تھے۔ خانم جان نے ضعیف معلم کو دس روپے ماہانہ پر ملازم رکھا تھا۔ اس قفس میں امیرن اب خانم جان کے رحم و کرم پر تھی۔ یہاں وہ تین لڑکیوں بسم اللہ جان، خورشید جان اور امیر جان کی صحبت میں وقت گزارتی۔ اس کے علاوہ خانم جان کے کوٹھے کے پرستان میں گیارہ اور طوائفیں بھی اپنے الگ الگ کمروں میں رہتی تھیں۔ ابتدا میں تو امیرن اس تغییر حال پر بہت دُکھی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانم جان نے امیرن کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ شعر و ادب، ہوسِ زر، کلاسیکی موسیقی، رقص اور جنس و جنوں کے سب افسانے خانم جان کو ازبر تھے۔ یہیں امراؤ جان ادا نے اپنی اتالیق بوا حسینی سے قحبہ خانے کے طور، طریقے اور انداز سیکھے۔ ایک ضعیف معلم سے امراؤ جان ادا نے عربی اور فارسی زبان سمجھنے کی استعداد حاصل کی۔ امراؤ جان ادا نے شعر گوئی کا آغاز بھی یہیں کیا اور اپنا تخلص اداؔ رکھا۔ خانم جان نے امیرن کو نیا نام ’’امراؤ جان ادا‘‘ دیا اور بعد میں وہ اسی نام سے پکاری جانے لگی۔ خانم جان کا یہ وتیرہ تھا کہ وہ اپنے قحبہ خانے میں کام کرنے والی طوائفوں کے نام کے آخر میں ’جان‘ کا لاحقہ ضرور لگاتی تھی جیسے خورشید جان، بسم اللہ جان وغیرہ۔ اپنی نوجوان بیٹی بسم اللہ جان کو خانم جان بہت پیار کرتی اسی لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بگڑ گئی۔ لکھنو شہر کی کئی رذیل طوائفیں خانم جان کے قحبہ خانے جنسی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھیں۔ امراؤ جان ادا بھی ان کے ساتھ رہنے لگی اور ان کی چال ڈھال کے مطابق زندگی بسر کرنے لگی۔ امراؤ جان ادا نے رقص اور موسیقی میں مہارت حاصل کی مگر جہاں تک حسنِ صورت کا تعلق ہے وہ دوسری طوائفوں سے بہت پیچھے تھی۔ خانم جان نے اپنے قحبہ خانے میں کام کرنے والی طوائفوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا۔ توپ دروازے کے مکین نواب سلطان علی خان کے قاضی کے باغ میں رہنے والی بنوڈومنی سے مشکوک نسب کے فرزند ’’گوہر مرزا‘‘ کے ساتھ امراؤ جان کے راہ و رسم بڑھانے کی بات بھی اسی زمانے کا سانحہ ہے۔ گوہر مرزا کی دیکھا دیکھی امراؤ جان اداحقہ پینے لگی۔ وقت ایک سا نہیں رہتا سیلِ زماں کے تھپیڑے گوہر مرزا کی آن بان کو بہا لے گئے۔ چِیل کے گھونسلے میں ماس کب بچ سکتا ہے۔ گوہر مرزا کی سب پُونجی خانم جان کے قحبہ خانے کی رذیل طوائفوں نے لُوٹ لی۔ گوہر مرزا پریشاں حالی، درماندگی اور مفلسی کے عالم میں جوتیاں چٹخاتا پھرتا تھا۔
لکھنو شہر میں امراؤ جان ادا کے رقص، گلو کاری اور حسن و جمال کے بے شمار دیوانے تھے۔ ان میں سے ایک تو نواب سلطان مرزا تھا جو آغازِ سفر ہی سے امراؤ جان ادا کو ٹُوٹ کر چاہتا تھا۔ اسی اثنا میں نواب سلطان مرزا کا ایک رقیب جس کا نام زبردست خان ہے نمودار ہوتا ہے۔ زبردست خان امراؤ جان ادا پر اپنا حق جتاتا ہے اور طاقت کے بل بوتے پر زبردستی اس پری جمال طوائف کو حاصل کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ نواب سلطان نے جب یہ دیکھا کہ زبردست خان اب کباب میں ہڈی بن رہا ہے تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے بد اندیش رقیب سے دو دو ہاتھ کرنے کا قصد کیا۔ اس تصادم میں گولی چل گئی کچھ لوگ زخمی ہو گئے مگر کوئی بھی جان سے نہ گیا۔ مگر نواب سلطان مرزا نے آئندہ امراؤ جان ادا کے قحبہ خانے کا در کھولنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ امراؤ جان ادا تو نواب سلطان مرزا کی محبت کی اسیر ہو چکی تھی۔ اس نے نواب سلطان مرزا سے راز داری سے باندھا ہوا پیمان وفا برقرار رکھا اور اپنے محرم راز گوہر مرزا کے تعاون سے اس دیرینہ آشنا سے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اگرچہ نواب سلطان مرزا کے ساتھ امراؤ جان ادا کے تعلقات میں خلوص اور مروّت کے جذبات شامل تھے مگر تقدیر کے ستم ان کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو گئے۔ امراؤ جان ادا کے دل میں انسانی ہمدردی کے جذبات کی فراوانی تھی اسی لیے امراؤ جان ادا نے کڑے وقت میں گوہر مرزا کی مالی امداد کی تا کہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکے۔ زوال پذیر معاشرے میں احسان فراموشی اور محسن کشی بڑھ جاتی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں بروٹس قماش کے آستین کے سانپ سیزر کے در پئے آزار ہو جاتے ہیں۔ امراؤ جان ادا نے خانم جان کی ہمیشہ عزت کی۔ جب وہ خانم جان کا کوٹھا چھوڑ کر چلی جاتی ہے تو پرانے آ شنا چہروں کو فراموش نہیں کرتی۔ اسے جب خانم جان کی علالت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو بلا تامل اس کی عیادت کے لیے چلی جاتی ہے۔
مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نینی تال سے کرنال تک طوائفوں کے سُر تال اور دھمال کا سلسلہ ہر عہد میں جاری رہا۔ مرزا محمد ہادی رسوا نے اپنی تصنیف ’افشائے راز‘ میں طوائف کی زندگی کے کچھ پہلو زیرِ غور رکھے اور انھیں امراؤ جان ادا میں جگہ دی۔ امراؤ جان ادا میں کردار نگاری کے انداز مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کرداروں کی فعالیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ مرزا محمد ہادی رسوا نے اپنے اس ناول میں ایک لڑکی امیرن سے امراؤ جان ادا تک کی زندگی کے سفر کو موضوع بنایا ہے۔ اس کثیر الاصواتی ناول کے دو اہم کردار ہیں ایک تو امراؤ جان ادا ہے جو اس آپ بیتی کی راوی ہے اور دوسرا کردار مرزا محمد ہادی رسوا کا ہے جو ان تمام واقعات کو سن کر زیب قرطاس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنف خود بھی اپنے تاثرات اور سوالات کو اس ناول کا حصہ بنا دیتا ہے۔ مرزا محمد ہادی رسوا نے اس ناول میں اپنے چہرے پر دو چہرے سجا رکھے ہیں۔ کہیں وہ ایک سوانح نگار کی صورت میں موجود ہے تو کہیں وہ ایک عام شخص کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ مصنف کے دِل میں اُترنے والے موسموں کے مانند اسلوب کے بدلتے ہوئے یہی رُوپ قاری کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔ قاری اسی شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے کہ سوانح نگار کہاں ہے اور عام شخص کس مقام پر جلوہ افروز ہے۔ ناول کاحسن اسی دھنک رنگ منظر نامے کا مرہونِ منت ہے۔ نو آبادیاتی دور میں اخلاقیات کے اس زوال نے زندگی کی اقدار و روایات کو پاتال تک پہنچا دیا۔ بے بصری اور کور مغزی کی آئینہ دار عیاشیوں کی اس قبیح روش نے معاشرتی زندگی کو نا قابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیا۔ خانم جان کے قحبہ خانے میں قیام کے دوران میں امراؤ جان ادا کو جن طوائفوں سے ملنے کو موقع ملا ان میں خورشید جان اور بسم اللہ جان قابلِ ذکر ہیں۔ یہ دونوں طوائفیں بہت خوب صورت تھیں مگر ان کے روّیے میں بہت فرق تھا۔ خورشید جان کا رقص سب پسند کرتے وہ ملنسار اور مہمان نواز تھی مگر خانم جان کی لاڈلی بیٹی بسم اللہ جان ٹپہ ٹھمری کے سوا کچھ نہ جانتی تھی اس کے باوجود وہ بہت زُود رنج، مغرور اور عیار تھی۔ بسم اللہ جان کے پرستاروں میں ایک ستر سال کا بوڑھا بھی تھا۔ بسم اللہ جان نے ایک تماشا دکھایا اور اپنے بوڑھے عاشق کو نیم کے ایک اونچے درخت پر چڑھنے کا حکم دیا۔ وہ بڈھا کھو سٹ عاشق سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ایک رذیل طوائف کی احمقانہ خواہش کی تکمیل میں لنگور کی طرح درخت پر چڑھ گیا اور اس کے لباس میں چیونٹے گھس گئے مگر وہ چکنا گھڑا ٹس سے مس نہ ہوا۔ خورشید جان اپنے پرستاروں کے ساتھ مفاہمانہ انداز رکھتی صورت پری کی مگر گلا ایسا جیسے پھٹا بانس۔ نائکہ خانم جان کی عزیز بیٹی بسم اللہ جان کا انداز ہمیشہ جارحانہ ہوتا تھا۔ جن دنوں امراؤ جان ادا اپنے ایک پرستار نواب سلطان کی محبت کی اسیر بن گئی تھی، اسی زمانے میں بیسواڑے کے ایک متمول زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والی طوائف خورشید جان کو اپنے ایک عیاش پرستار پیارے صاحب سے عشق ہو گیا۔ قحبہ خانے میں ہر طرف خورشید جان اور پیارے صاحب کے عشق کے چرچے تھے۔ خورشید جان بہت توہم پرست تھی اسی وجہ سے عامل، نجومی اور شعبدہ باز اسے ٹھگ لیتے۔ ایک عامل نے سونا دوگنا کرنے کا جھانسہ دیا اور ایک کوری ہانڈی میں اس کے زیورات رکھ کر اس پر چپنی ڈھانک دی چلتے چلتے تاکید کی کہ کل کھولنا۔ اگلے دن کالے تِلوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ اچانک خورشید جان کے روّیے میں تبدیلی دیکھی گئی۔ سیکڑوں پرستاروں کے دل کی دھڑکن اور خود آرا خورشید جان اب صرف پیارے صاحب سے مراسم بڑھانے کی فکر میں مبتلا تھی اور کسی دوسرے کی جانب دیکھنے کی بھی روا دار نہ تھی۔ خورشید جان کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ پیارے صاحب نے صرف اسی کو دِل دے دیا ہے۔ امراؤ جان ادا نے اپنی ہم پیشہ و ہم راز سہیلی خورشید جان کو راز داری سے سمجھانے کی کوشش کی کہ قحبہ خانے کی پیشہ ور طوائف کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ محض ایک پر ستار پر اکتفا کرے۔ طوائف کے دل کا گلشن تو سیکڑوں مرتبہ لُوٹا جاتا ہے۔ امراؤ جان ادا نے خورشید جان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قحبہ خانے میں آنے و الے پرستاروں کی محبت کے افسانے ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسی تحریریں ہیں جنھیں سیلِ زماں کی مہیب موجیں بہا لے جاتی ہیں۔ خورشید جان جب پیارے صاحب کی یاد میں آہیں بھرتی اور غذا بھی چھوڑ دی تو امراؤ جان ادا اسے دلاسا دے کر سمجھاتی کہ پیارے صاحب کے پیمانِ وفا کو بھول جاؤ وہ عیاش تم سے شادی نہیں کرے گا۔ اس کا بہلاوا تمھارے لیے زندگی بھر کا پچھتاوا بھی بن سکتا ہے۔ خورشید کو سمجھانے کے لیے امراؤ جان ادا کے یہ الفاظ اس کے تجربات کے آئینہ دار ہیں:
’’دیکھو خورشید !ایسانہ کرو۔ مردوے بے مروّت ہوتے ہیں۔ تمھارے ان کے صرف آشنائی ہے، آشنائی کی بنیاد کیا ہے۔ نکاح نہیں ہوا، بیاہ نہیں ہوا۔ اگر ایسا چاہو گی تو اپنا بُرا چاہو گی، پچھتاؤ گی۔‘‘
پیارے صاحب سے چھٹم چھٹی کے بعد خورشید جان کا دل ٹوٹ گیا وہ محبت سے بیزار ہو گئی۔ عیش باغ کے میلے میں خورشید جان گم ہو گئی اور اس کا کہیں اتا پتا معلوم نہ ہوا۔
امراؤ جان ادا نے مرزا ہادی رسوا کو جن کرداروں سے متعارف کرایا ہے، ان میں سے ایک کردار ستر سال کا بوڑھا نواب جعفر علی خان ہے۔ اس کے منھ میں ایک دانت بھی سلامت نہ تھا، کمر جھک گئی تھی، سر کے بال سفید ہو چکے تھے اور کوئی بال بھی کالا نہیں بچا تھا مگر یہ عیاش اپنا منھ کالا کرنے کے لیے اکثر قحبہ خانے آ نکلتا۔ یہ متفنی سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور طوائفوں کے جھرمٹ میں خوب ہنہناتا۔ ناسٹلجیا کے مارے اس احمق کو یہ زعم تھا کہ ابھی تو وہ جوان ہے اور حسین و جمیل دو شیزائیں اب بھی اس پر مرتی ہیں۔ امراؤ جان ادا نے مصنف کو یہ بھی بتایا کہ انیسویں صدی میں لکھنو کے زوال پذیر معاشرے میں متمول طبقے میں اپنے گھر میں داشتائیں رکھنے کا قبیح شوق تھا۔ اخلاق باختہ عیاش امرا کے گھروں میں قبیح کاموں میں مصروف رہنے والی کسبی، کٹنی، کنچنی اور نائکہ کو پچھتر (75) روپے ماہانہ پر ملازم رکھا جاتا تھا۔
قحبہ خانے کی طوائف کے دیوانے بدلتے رہتے ہیں۔ امراؤ جان ادا کا ایک نیا پرستار فیض علی بھی اسے رام کرنے کے لیے اس کے کوٹھے پر آ نکلا اور پچھتر روپے میں رات گزاری۔ فیض علی نے جاتے وقت پانچ اشرفیاں، تین انگوٹھیاں (ایک سونے کی، یاقوت کا نگینہ، ایک فیروزے کی اور ایک ہیرے کی) امراؤ جان ادا کی نذر کیں اور یہ بھی تاکید کی کہ خانم کو یہ زیور نہ دئیے جائیں۔ دوسری بار اس نے بڑے بڑے موتیوں کی زمرد کی ہڑیں لگی مالا، ایک جوڑی ہیرے کے کڑے اور سونے کی دو انگوٹھیاں امراؤ جان ادا کو دیں۔ فیض علی سے ڈیڑھ ماہ کے تعلق میں امراؤ جان ادا کا صندوقچہ سادے اور جڑاؤ زیورات سے بھر گیا۔ اشرفیوں اور روپوں کا تو شمار ہی نہ تھا۔ امراؤ جان ادا کے پاس مجموعی طور پر دس بارہ ہزار روپے کا مال جمع ہو گیا۔ امراؤ جان ادا بھی اپنے اس نئے پرستار کی دولت سے مرعوب ہو گئی اور اسے اپنے دل میں بسا لیا۔ فیض علی نے اپنی محبوبہ امراؤ جان ادا کو تاکید کی کہ وہ اس کی دولت کا راز اپنے دِل میں پنہاں رکھے اور کسی کو اس پیمان وفا کی کانوں کان خبر نہ ہو۔ دل کے افسانے نگاہوں کی زبان تک پہنچے تو فیض علی نے امراؤ جان ادا کو اپنے شہر فرخ آباد آنے کی دعوت دی۔ امراؤ جان ادا کو اپنے ساتھ فرخ آباد لے جانے کے لیے جب فیض علی کا اصرار بڑھنے لگا تو امراؤ جان ادا نے نائکہ خانم جان سے اجازت طلب کی۔ امراؤ جان ادا کی بات سن کر نائکہ خانم جان آگ بگولا ہو گئی اور اس نے امراؤ جان ادا کو سختی سے تاکید کی کہ وہ اس قسم کی مہم جوئی سے باز رہے اس میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ عشق کسی مصلحت اندیشی کی پروا کب کرتا ہے امراؤ جان ادا اپنے عاشق فیض علی کے ساتھ خانم جان کے قحبہ خانے سے بھاگ نکلی اور فرخ آباد روانہ ہو گئی۔ فرخ آباد کے راستے میں ڈاکو ان کا راستہ روک لیتے ہیں۔ امراو ٔ جان ادا کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کے عاشق فیض علی کا خطر ناک ڈاکوؤں کے ایک گروہ سے تعلق تھا اور سارا زر و مال چوری کا تھا۔ بد نام ڈاکو فیض علی اور اس کا جرائم پیشہ بھائی فضل علی موقع واردات سے بھاگ نکلے۔ امراؤ جان ادا کو ریاست کے حفاظتی دستے نے حراست میں لے لیا۔ خانم جان کے کوٹھے کی ایک طوائف خورشید جان اس زمانے میں راجا شیو دھیان سنگھ کے ہاں مقیم تھی۔ یہاں اسے اپنی ساتھ طوائف خورشید جان کی عیش باغ کے میلے میں پر اسرار گم شدگی کے بارے میں تمام حقائق معلوم ہو گئے۔ راجا شیو دھیان سنگھ کے آدمیوں نے عیش باغ کے میلے سے خورشید جان کو اغوا کر لیا تھا۔ خورشید جان کی مداخلت سے امراؤ جان ادا کو رہائی ملی۔ راجا نے انعام و اکرام دے کر امراؤ جان ادا کو رخصت کیا۔ رہائی کے بعد امراؤ جان ادا کان پور پہنچی مگر یہاں بھی اسے سکون نہ ملا۔ امراؤ جان ادا کے رہا ہونے کے بعد فیض علی ایک بار پھر امراؤ جان ادا کے پاس پہنچا اور اسے اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی۔ اسی اثنا میں فیض علی کو راجا شیودھیان سنگھ کے عملے نے دھر لیا اور زندان میں بند کر دیا گیا۔ امراؤ جان ادا با دلِ نا خواستہ پھر سے نائکہ خانم جان کے قحبہ خانے میں پہنچ گئی۔ گردش ایام کے نتیجے میں خانم جان کے قحبہ خانے کی سب رونقیں ماند ہو گئیں۔ اب وہاں جانگسل تنہائیوں اور مہیب سناٹوں کا راج تھا۔ وہ کوٹھا جہاں ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے عیاشوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے۔ امراؤ جان ادا اور اس کی ہم جولیوں کی لمبی اڑان کے بعد خانم جان کے کوٹھے پر اُلوّ بولنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد امراؤ جان ادا کان پور چلی گئی اور وہاں ایک قحبہ خانے میں طوائف کے دھندے میں لگ گئی۔ یہاں بھی گردشِ ایام امراؤ جان ادا کے ساتھ رہی۔ بد نام ڈاکو فضل علی نے اسے لوٹنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ گوہر مرزا نے کوشش کی کہ امراؤ جان ادا کو اپنے ساتھ لکھنو لے جائے۔ امراؤ جان ادا نے سوچ بچار کے بعد گوہر مرزا کے ساتھ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ لکھنو پہنچ کر امراؤ جان ادا نے اودھ کے حاکم واجد علی شاہ کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی استعمار نے جب لکھنو پر غاصبانہ تسلط قائم کر لیا تو امراؤ جان ادا نے اپنے آبائی وطن فیض آباد کا رخ کیا۔ اپنے آبائی گھر میں املی کا درخت دیکھ کر اسے اپنے مرحوم باپ کی یاد آ گئی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں اس کا بچپن گزرا اور املی کے درخت سے اس کی بہت یادیں وابستہ تھیں۔ یہاں اس کی ماں اسے اس حال میں دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مگر امراؤ جان ادا کا بھائی اپنی بہن کو جان سے مارنے پر تل گیا۔ اپنے آبائی شہر سے بے نیلِ مرام لوٹنے کے بعد امراؤ جان ادا واپس لکھنو پہنچی جہاں اس کی ملاقات کان پور کی ایک بیگم سے ہوئی۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ یہ تو وہی رام دئی تھی جس کے ساتھ اس نے اپنے اغوا کے ابتدائی دن گزارے تھے۔ رام دئی کو نواب سلطان کی ماں نے خریدا تھا اور اس کی شادی نہایت دھوم دھام سے اپنے بیٹے نواب سلطان سے کر دی تھی۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ دلاور خان اور اس کے شریک جرم مجرم کریم نے جن دو کم سِن بچیوں کو اغوا کیا ان میں سے ایک (رام دئی) تو شریف خاندان کی بہو بن گئی جب کہ دوسری (امیرن) کو قحبہ خانے کی طوائف بننا پڑا۔ وقت بھی حادثوں کی عجیب انداز میں پرورش کرتا ہے اس کی مثال امراؤ جان ادا کی زندگی کے نشیب ہیں۔ دلاور خان کو حراست میں لے لیا گیا اور اس کے سنگین جرائم کی وجہ سے عدالت نے اسے پھانسی کی سزا دی۔ فیض علی سے ملنے والے زیورات اور خرچی کی آمدنی سے امراؤ جان ادا نے باقی زندگی امن و سکون سے گزاری اور طوائف کا پیشہ چھوڑ دیا۔ مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کا پلاٹ زندگی کی حرکت و حرارت سے لبریز ہے۔ اس کے کردار معاشرتی زندگی کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس ناول کے مظلوم کردار نہایت عزم و استقلال سے مصائب و آلام کا سامنا کرتے ہیں۔ امیرن اور رام دئی کم سِن بچیاں ہیں جنھیں ابلیس نژاد درندوں دلاور خان اور کریم نے اغوا کیا اور لکھنو میں بیچ دیا۔ تقدیر قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑ دیتی ہے اور ان معصوم بچیوں کی زندگی گردشِ حالات کی زد میں آ جاتی ہے۔ سفاک ظلمتوں اور مہیب سناٹوں میں بھی ان بچیوں کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ امیرن اور رام دئی نے ہوائے جور و ستم میں بھی رُخ وفا کو بجھنے نہ دیا۔ یاس و ہراس کی مسموم فضا میں جب کوئی اُمید بر نہ آئی تو انھوں نے آس کا دِیپ فروزاں رکھنے کی مقدور بھر سعی کی۔ امراؤ جان ادا اس ناول کا اہم کردار ہے جس نے کبھی بیساکھیوں کا سہارا نہ لیا بل کہ اپنے دُکھوں سے سمجھوتہ کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ خانم جان کے قحبہ خانے میں جنسی غلامی کی زندگی بسر کرتے ہوئے وہ خلوص اور دردمندی کی اداکاری کرنے والے کسی مونس و غم خوار کی منتظر نہیں رہتی بل کہ اپنے پیشے کے تقاضوں کے سدا ملحوظ رکھتی ہے۔ اپنے طرز زندگی اور اندازِ فکر کے بارے میں امراؤ جان ادا نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا:
’’میں ایک گھاگ عورت ہوں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے۔ جو جس طرح بناتا ہے بن جاتی ہوں اور در حقیقت ان کو بناتی ہوں۔‘‘
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک گھاگ طوائف ہونے کا دعویٰ کرنے والی امراؤ جان ادا کو انسان شناسی میں مہارت حاصل نہیں۔ قحبہ خانے میں رہنے والی اس طوائف کی سادگی کایہ حال ہے کہ ایک انتہائی خطر ناک ڈاکو بھی قیمتی زیورات کی جھلک دکھا کر اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اُسے جُل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ گھاٹ گھاٹ کاپانی پینے والی امراؤ جان ادا اس ڈاکو کے ساتھ خانم جان کے کوٹھے سے فرار ہو جاتی ہے۔ ناول نگار نے انیسویں صدی میں زوال پذیر لکھنوی معاشرے کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت اس جانب متوجہ کیا ہے کہ روشنی کا سفر ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔ نو آبادیاتی دور میں لکھنو کی معاشرتی زندگی پر جو کوہِ غم ٹُوٹا اس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار تحت الثریٰ میں پہنچ گئیں۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ خواتین کے حقوق کی پامالی کے واقعات نے گمبھیر صورت اختیار کر لی۔ امراؤ جان ادا نے اپنی زندگی کے تلخ تجربات اور صدمات کا احوال بیان کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے:
’’بڑھیا فقیرنیاں جو لکھنو کے گلی کوچوں میں پڑی پھرتی ہیں۔ اگر غور کیجیے تو ان میں اکثر رنڈیاں نکلیں گی، اور رنڈیاں بھی کون سی جو کبھی زمین پر پیر نہ رکھتی تھیں۔ قیامت بر پا کر رکھی تھی۔ ہزاروں بھرے پُرے گھر تباہ کر دئیے سیکڑوں جوانوں کو بے گناہ قتل کیا۔ جہاں جاتیں لوگ آنکھیں بچھاتے۔ اب کوئی ان کو آنکھ اُٹھا کے بھی نہیں دیکھتا۔ پہلے جہاں بیٹھ جاتی تھیں لوگ باغ باغ ہو جاتے تھے۔ اب کوئی کھڑا ہونے کا بھی روادار نہیں۔ پہلے بِن مانگے موتی ملتے تھے، اب مانگے بھیک نہیں مِلتی۔‘‘
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اپنے حسن و جمال اور شباب پر گھمنڈ کرنا عورتوں کی فطرت ہے۔ امراؤ جان ادا نے اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ اپنے اس شعر میں جون ایلیا نے چندے آفتاب چندے ماہتاب عورتوں کے غرور پر گرفت کرتے ہوئے اُنھیں متنبہ کیا تھا۔
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
امراؤ جان ادا کی بیان کردہ آپ بیتی کی اساس پر لکھے گئے اس ناول کی کہانی مظلوم لڑکی کی ایسی فریاد ہے جس میں اس عہد کی معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی روداد نہایت موثر انداز میں بیان کی گئی ہے۔ امراؤ جان ادا نے اپنی ہم پیشہ طوائفوں کو اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر جو نصیحت کی ہے وہ چشم کشا صداقتوں اورنفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے:
’’اے بے وقوف رنڈی !کبھی اس بھُلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھے دِل سے چاہے گا۔ تیرا آشنا جو ہر وقت تجھ پر جان دیتا ہے۔ چار دِن کے بعد چلتا پھرتا نظر آئے گا۔ وہ تجھ سے ہر گز نباہ نہیں کر سکتا اور نہ تو اس لائق ہے۔ سچی چاہت کا مزا اسی نیک بخت کاحق ہے جو ایک کا منھ دیکھ کے دوسرے کا منھ کبھی نہیں دیکھتی۔ تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا۔‘‘
معاشرتی زندگی میں ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحان نے زندگی کی اقدارِ عالیہ کو شدید ضعف پہنچایا ہے۔ جس بھونڈے انداز میں ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی ہے اس کے نتیجے میں آبروئے شیوۂ اہل نظر عنقا ہونے لگی ہے۔ امراؤ جان ادا نے اپنی آپ بیتی میں عورتوں اور مردوں کی تحلیل نفسی کرتے ہوئے جن امور کی جانب متوجہ کیا ہے وہ لائق توجہ ہے:
’’محبت کے باب میں مرد (معاف کیجیے) اکثر بے وقوف اور عورتیں بہت ہی چالاک ہوتی ہیں۔ اکثر مرد سچے دِل سے اظہار عشق کرتے ہیں اور اکثر عورتیں جھوٹی محبت جتاتی ہیں۔‘‘
مرزا محمد ہادی رسوا نے اپنے ناول امراؤ جان ادا میں معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے لا شعوری جبر و استبداد، ناقابل تصور استحصال، عدل کشی کے ناقابل یقین واقعات، ناقابل برداشت انتقام، ناقابل فہم پابندیوں اور ناقابلِ بیان کینہ پروری کے خلاف کھل کر لکھا ہے۔ مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا اور پریم چند کے ناول بازار حسن (مطبوعہ اردو: 1924) کا موضوع ایک ہی ہے۔ ان دونوں ناولوں میں ان بے بس و لاچار مظلوم عورتوں کی داستان الم من و عن بیان کی گئی ہے جنھیں مجبوری حالات نے طوائف بنا دیا۔ مرزا محمد ہادی رسوا نے اپنے عہد میں رو نما ہونے والے جن اعصاب شکن حالات اور واقعات سے اثر ات قبول کیے انھیں اس توقع سے ناول میں جگہ دی کہ ناول کے قارئین بھی ان سے اسی نوعیت کے اثرات قبول کر یں گے۔ اس طرح ان کے اسلوب کے استحسان کی ایک موثر صورت پیدا ہو سکے گی۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ معاشرے کی مظلوم عورتوں کو ہر دور میں صعوبتوں کا سفر درپیش رہا ہے۔ مرزا محمد ہادی رسوا نے معاشرے کے مظلوم طبقے کی حمایت میں قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی جو کوشش کی وہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے۔ مرزا محمد ہادی رسوا کا یہ ناول نو آبادیاتی دور میں لکھنو کی تاریخ کا ایسا الم ناک باب ہے جس کے اثرات ہر عہد کی تاریخ میں ملیں گے۔ ادب، فنون لطیفہ، علم بشریات اور عمرانیات کے مورخین اس کو زادِ راہ بنا کر روشنی کا سفر جاری رکھیں گے۔ انیسویں صدی میں لکھنو سے تعلق رکھنے والی اپنے عہد کی گھاگ طوائف امراؤ جان ادا نے اپنی آپ بیتی اس شعر پر ختم کی ہے۔
مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی
٭٭٭