مرقعِ حیدر آباد ۔۔۔ مکرم نیاز

 

عموماً کہا جاتا ہے کہ مطالعے کے رجحان میں کمی آئی ہے اور خاص طور پر نئی نسل کتابوں سے دور ہو چکی ہے۔ مکمل طور پر اس کلیے سے اتفاق مشکل ہے۔ کیونکہ آج دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اطلاعاتی و مواصلاتی ترقی نے نہ صرف فاصلے مٹا دیے ہیں بلکہ آج کی نسل کو شعوری بالیدگی بھی عطا کی ہے۔ آج کا نوجوان بے شک کاغذ کی کتاب اپنے مطالعے میں نہ رکھتا ہو مگر وہ پڑھتا ضرور ہے۔۔ ۔ اب چاہے اس کے لیے وہ لیپ ٹاپ، ٹیب، اسمارٹ فون، آئی پوڈ جیسے ذرائع استعمال کرتا ہو، ریختہ ڈاٹ آرگ کی شاعری سے استفادہ کرتا ہو یا آرکائیو ڈاٹ آرگ سے مطلوبہ کتب ڈاؤن لوڈ کر کے کنڈل ریڈر پر پڑھتا ہو یا واٹس اپ، فیس بک، ٹوئٹر کے پیغامات، خبروں یا مضامین کے ذریعے خود کو عصری لحاظ سے باخبر رکھتا ہو۔

زمانے کی تبدیلی کے ساتھ تشہیر و ترغیب کے طریقہ کار بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے کسی کا کتاب خریدنا یا تحفتاً حاصل کرنا ہی مطالعے کا بنیادی سبب تھا۔۔ ۔ مگر آج دیوان خانے کے کتابدان میں کتابیں خوش سلیقگی سے سجی ضرور نظر آتی ہیں مگر وہ پڑھنے والی آنکھوں کو ترستی ہیں۔۔ ۔

پڑھنے والے بہت ہیں مگر کسی کتاب کو ان کی نظروں سے گزارنا میرا اور آپ کا کام ہے۔۔ ۔ قلمکار نے تاریخ، تہذیب و تمدن کو ادب کی چاشنی میں بیان کیا اور اپنے فرض سے سبکدوش ہوا۔۔ ۔ اب یہاں سے ہمارا کام شروع ہوتا ہے۔

وہ لوگ اور وہ قارئین جو سوشل میڈیا سے جڑے ہیں، وہ بھی زبان و ادب کے تئیں اپنی ذمہ داری کو نبھانے آگے آئیں۔ کسی کتاب کے سرورق کی تصویر اپلوڈ کر دینے سے ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔۔ ۔ کتاب کے مواد، موضوع اور اس کی اہمیت کو کتاب ہی کے دلچسپ اقتباسات کے ذریعے سوشل میڈیا پر اشتراک کرنا آج کی ضرورت ہے۔

ٹوئٹر الفاظ کی قید کے باعث وَن-لائنر یعنی یک سطری پیغام کا حامل پلیٹ فارم ہے۔۔ ۔ اور "مرقع حیدرآباد” میں ایسے جواہر پارے آپ کو جا بجا ملیں گے اگر بصیرت والی بصارت ہو۔۔ ۔ مثلاً:

* محبت ہمیشہ آباد کرتی ہے، شہر بھی شہرِ دل بھی۔ ہوس اور نفرت اجاڑ دیتی ہے۔

* سیلاب اور طوفان صرف سیاسی ہوتے ہیں بس ان کو نمٹنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

*۔۔ ۔ پروانہ بھی جانتا ہے کہ حاصل عشق تو جل جانا ہے، شعلے کا بدن تو وسیلہ ہے ورنہ لذت وصل تو ایک کیف ہے ایک نشہ ہے۔

* شکار تو ایک بہانہ ہوتا ہے ورنہ ہر وجود اپنے رزق کی تلاش میں ہوتا ہے، شکار بھی شکاری بھی۔

اور اگر فیس بک یا گوگل پلس یا پن انٹرسٹ پر "مرقع حیدرآباد” کا تعارف کروانا ہو تو پھر یہ فقرے اور پیراگراف دیکھیے۔۔ ۔

* وہ افراد جو شجرہ بدل کر یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی دفن ہو گیا، وہ اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ کاغذ پر شجرہ بدل دینے سے نفس کی حقیقت نہیں بدلتی۔ وفاداریاں، سچائیاں اور شرافت شجرہ کی رہین منت نہیں ہوتیں، وہ تو اظہار نفس کی علامت ہے۔

* ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ پڑوسن کے بچے کو دیکھ کر بھی ماؤں کی آنکھوں میں مامتا کی جوت جگمگایا کرتی تھی، آج تو ماؤں کی آنکھوں سے بھی بانجھ پن جھلکتا ہے۔

* "ایک دوجے کے لیے ” کا فلسفہ بھی عجب ہے۔ قدرت کے ان دیکھے ہاتھ جب مٹی کو محبت کا خمیر دے کر ایک کرہ کی تشکیل دینے کے بعد وقت کے حوالے کر دیتے ہیں تو گردشِ دوراں انہیں سمیٹے رکھنے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے کہ یہ اپنی کشش کے تئیں ایک دوجے کو خود تلاش کریں اور باہم پیوست ہو جائیں۔ یہ نصف کرے ایک دوسرے کی تلاش میں جانے کتنی صدیاں گزار چکے ہوتے ہیں اور پھر جب زمین پر اتر آتے ہیں تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی ملک، خطے یا طبقۂ عرض کے پابند ہوں۔ یہ تلاش انہیں زندگی بھر ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں رکھتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دونوں بہت قریب سے ہو کر گزر جاتے ہیں لیکن مقدر کی ساعتیں فصل رکھ چھوڑتی ہیں۔ کبھی ایک عارضی وقفے کے لیے مل بھی جاتے ہیں تو اس کے بعد وصال آسودہ فراق کی تبش کے آگے ہر آگ اور اس کی تپش ہیچ ہے۔

اگر ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہے تو پھر انسٹاگرام پر "مرقع حیدرآباد” کی دیدہ زیب تصویری تاریخ و تہذیب کے نمونے پیش کرتے ہوئے صارفین کو کتاب کے مطالعے کی ضرورت کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔

شہر فرخندہ بنیاد حیدرآباد دکن کی نوجوان و جواں سال نسل جو سوشل میڈیا پر فعال ہے اس نسل سے یہی گذارش ہے کہ۔۔ ۔ دکن کے تشخص، اس کی تاریخ، تہذیب اور طرز معاشرت کو خوبصورت و دلنشین الفاظ کے پیکر کے سہارے دنیا کو روشناس کرانے والی کتاب "مرقع حیدرآباد” کا تعارف اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیش کرتے ہوئے وہ اپنی مٹی کا قرض ادا کریں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے