بچپن میں جب پہلی بار ہمیں ایک جلسہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو دیکھا کہ جلسہ کا ہر مقرر ’جنابِ صدر‘ ’جنابِ صدر‘ کی گردان کر رہا ہے اور وقت بے وقت ’جنابِ صدر‘ کی اجازت سے ایسی باتیں کہہ رہا ہے، جن کے کہنے کے لیے بظاہر کسی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے طور پر یہ پتہ چلانے کی کوشش کی کہ آخر یہ ’جنابِ صدر‘ کون ہے اور کہاں واقع ہے۔ ایک شخص کو دیکھا جو بڑی مستعدی کے ساتھ جلسہ گاہ کے آخری حصے میں دریاں بچھا رہا ہے اور پٹرو میکسوں کو اِدھر اُدھر منتقل کر رہا ہے۔ چونکہ اس وقت یہ شخص جلسہ کا سب سے کار کرد اور اہم شخص نظر آ رہا تھا، اس لیے ہم نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہی شخص ’جنابِ صدر‘ ہے۔ ہم اس کے قریب گئے اور پوچھا ’’بھئی! کیا جنابِ صدر تم ہی ہو؟‘‘ وہ شخص اچانک بپھر گیا اور بولا ’’ذرا منھ سنبھال کے بات کرو، کسے جنابِ صدر کہتے ہو؟ کیا میں تمہیں ناکارہ، مفلوج اور بیکار آدمی نظر آتا ہوں، جو تم مجھے ’جنابِ صدر‘ کہہ رہے ہو۔ ابھی تو میرے قویٰ اچھے ہیں، میں اپنی روزی خود کماتا ہوں۔ میں ابھی اتنا اپاہج بھی نہیں ہوا کہ تم مجھے ’جنابِ صدر‘ کہو۔ جنابِ صدر تو وہ ہے، جو ڈائس پر اپنے سامنے پھولوں کے ہار رکھے یوں بیٹھا ہے، جیسے شیر اپنے مارے ہوئے شکار کو سامنے رکھتا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو کرسی صدارت پر تقریباً اونگھ رہا تھا۔ اس دن کے بعد سے آج تک ہم بے شمار جلسوں میں شرکت کر چکے ہیں، بلکہ دو ایک جلسوں کی تو صدارت کا آفر بھی ہمیں آیا تھا، لیکن جب ہم نے اس آفر کو قبول کرنے کے بارے میں غور کیا تو ہمیں اس شخص کی بات یاد آ گئی اور ہمیں احساس ہوا کہ ابھی تو ہم اپنی روزی خود کما سکتے ہیں اور ہم ابھی اتنے اپاہج بھی نہیں ہوئے کہ ’جنابِ صدر‘ بننے کا اعزاز حاصل کریں۔
آپ نے بہت سے صدر دیکھے ہوں گے اور آپ کو اس بات کا یقین بھی آ چکا ہو گا کہ ہر صدر دوسرے صدر سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ خدا نے انسان کے ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں بنائی ہیں، لیکن تعجب ہے کہ اس نے سارے صدر ایک جیسے کس طرح بنائے۔ ان کی سرگرمیاں مشترک ہوتی ہیں، ان کی حرکتیں مشترک ہوتی ہیں اور ان کے کاروبار بھی مشترک۔ ’جنابِ صدر‘ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کرسی صدارت پر کوند لگا کر بیٹھ جائے اور کبھی ’کرسی‘ سے ہٹنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے صرف اتنی رعایت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ایک ہی رخ پر مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اس کے اعضا میں درد ہونے لگے یا کرسی صدارت میں سے کوئی کھٹمل نکل کر ’جنابِ صدر‘ کو بے تاب کرنے لگے، تب وہ صرف اپنا پہلو بدل سکتا ہے، لیکن کرسی سے اپنا پہلو نہیں بچا سکتا۔ بعض صدور کو صدارت کی کرسی پر اتنی دیر تک بیٹھنا پڑتا ہے کہ ایک منزل وہ بھی آتی ہے، جب کرسی اور صدر میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ حاضرین جلسہ کو یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش آتی ہے کہ کرسی کہاں ختم ہو رہی ہے اور ’جنابِ صدر‘ کہاں سے شروع ہو رہے ہیں۔ کرسی اور صدر ایک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ ہمیں اس وقت اس بچہ کی یاد آ رہی ہے، جس نے کرسی صدارت پر ایک صدر کو لگاتار دو گھنٹوں تک دیکھتے رہنے کے بعد اپنے باپ سے پوچھا تھا ’’ڈیڈی! کیا جنابِ صدر کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں ؟‘‘ اس پر باپ نے بڑے پیار سے بیٹے کو سمجھایا تھا ’’نہیں بیٹے ! ان چھ ٹانگوں میں سے دو ٹانگیں جنابِ صدر کی ہیں اور بقیہ چار ٹانگیں ’کرسی صدارت‘ کی ہیں۔ ‘‘
اگرچہ مثل مشہور ہے کہ ’’صدر ہر جا کہ نشیند صدر است‘‘ لیکن اس کے باوجود ’صدارت‘ کے لیے ’کرسی صدارت‘ کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے، بلکہ ایک صاحب کا تو یہاں تک خیال ہے کہ ’صدارت‘ میں ’کرسی صدارت‘ کے سوائے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کرسی ہٹا لیجئے تو صدارت خود بخود غائب ہو جائے گی۔ کرسی صدارت پر بیٹھنے کے لیے بڑے تجربہ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ پیشہ ور صدر اس فن میں باضابطہ تربیت بھی حاصل کرتے ہیں، کیوں کہ ایک ہی کرسی پر خواہ مخواہ گھنٹوں بیٹھے رہنا بھی تو آخر کرتب کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض ماہرین جنابِ صدر تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ’کرسی صدارت‘ پر کچھ اس طرح جم کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ’صدارت‘ کی کرسی آیت الکرسی پڑھنے لگتی ہے اور بالآخر ٹوٹ جاتی ہے، مگر جنابِ صدر نہیں ٹوٹتے۔ ایسے ’کرسی توڑ صدر‘ کے لیے تابڑ توڑ نئی کرسی صدارت منگوانی پڑتی ہے اور ہوشیار منتظمین جلسہ ہمیشہ ایک فاضل کرسی صدارت ریزرو میں رکھتے ہیں کہ آفت کی گھڑی جنابِ صدر کی اجازت لے کر نہیں آتی۔
جنابِ صدر دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک پیدائشی صدر اور دوسرا نمائشی صدر۔ ویسے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم بھی کچھ مناسب نہیں ہے، کیوں کہ صدر چاہے پیدائشی ہو یا نمائشی، ہر ہر حالت میں نمائشی ہوتا ہے اور پھر دونوں ہی اقسام کے صدر ایک ہی قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ ان کی حرکتوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ جب مقرر تقریر کر رہا ہو تو وہ ٹکٹکی باندھے مقر رکو گھورتے رہیں اور وقت بے وقت اپنی گردن بھی ہلا دیا کریں۔ یہ گردن بھی اس لیے ہلائی جاتی ہے کہ کہیں حاضرین جلسہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ’کرسی صدارت‘ پر ’صدر جلسہ‘ کے بجائے صدر جلسہ کا مجسمہ بیٹھا ہوا ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ’صدر جلسہ‘ کو اور بھی بہت سے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں، یعنی کبھی جلسہ کے سکریٹری کو بلایا جاتا ہے اور اس کے کان میں پوچھا جاتا ہے ’’کیا آپ نے کسی فوٹو گرافر کا انتظام نہیں کیا ہے۔ جلسہ کی کار روائی بڑی بے جان سی چل رہی ہے۔ فوراً کسی فوٹو گرافر کو پکڑ کر لائیے۔ ‘‘ میز پر رکھے ہوئے پیڈ کو صدر اپنے سامنے کھینچ لیتا ہے اور مقرر کی طرف دیکھ دیکھ کر کچھ لکھنے لگتا ہے۔ حاضرین سمجھتے ہیں کہ وہ ضرور کوئی اہم پوائنٹ لکھ رہا ہے، لیکن آپ غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں، کیوں کہ وہ اس وقت اصل میں ان ہاروں کا حساب لکھنے میں مصروف رہتا ہے جو اسے پہنائے گئے۔ اس کے بعد وہ پیڈ کو آگے بڑھا دیتا ہے۔ پھر حاضرین پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتا ہے، ان کی تعداد کا اندازہ لگاتا ہے اور دل ہی دل میں خوش بھی ہوتا ہے۔ بعض صدور جلسہ اپنے ساتھ اپنی بیویوں کو بھی لے آتے ہیں تاکہ بیویوں پر ان کی دھونس جمی رہے۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اپنی بیوی کی طرف کچھ ایسی نگاہوں سے دیکھتا ہے، جیسے وہ اپنی بیوی کو پہلی بار دیکھ رہا ہو یا جیسے وہ اسے پہچانتا ہی نہ ہو۔ صدر جلسہ کی بیوی جلسہ گاہ میں بیٹھی پیچ و تاب کھاتی ہے، مگر کچھ کر نہیں سکتی، اس لیے کہ کرسی صدارت تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور صدر جلسہ بھی جانتا ہے کہ جب تک وہ کرسی صدارت پر براجمان ہے، اس وقت تک وہ ساری آفات اور خود اپنی بیوی سے ہر طرح محفوظ ہے۔
عام طور پر جلسوں میں وہ منظر بڑا دل نشین ہوتا ہے، جب صدر جلسہ کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور جلسوں کی روایت کے مطابق، پہلے صدر کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور تب کہیں جلسہ کی کار روائی شروع ہوتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ روایت بھی ’صدر جلسہ‘ کی طرف سے ہی رائج کی گئی ہے، کیوں کہ جلسہ سے پہلے ہار پہنا دیے جائیں تو دل کو بڑا سکون رہتا ہے، ورنہ یہ اندیشہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جلسہ کے بعد منتظمین، ہاروں کے معاملہ میں بالکل ہی خاموش اور انجان بن جائیں کہ غرض نکل جاننے کے بعد کون کسی کی ضرورت کے بارے میں سوچتا ہے۔ لہٰذا ’صدور‘ پہلے ہار پہنتے ہیں اور بعد میں جلسہ شروع کرتے ہیں۔ ویسے ہار پہننے کے بعد کم از کم ’صدر جلسہ‘ کے لیے تو جلسہ تقریباً برخاست ہو جاتا ہے۔ وہ تو بس تکلفاً بیٹھا رہتا ہے، جب اسے ہار پہنائے جاتے ہیں، فوٹو گرافر کی موجودگی نہایت ضروری ہوتی ہے۔ جب تک فوٹو گرافر نہ آئے اس وقت تک ’صدر جلسہ‘ ہاروں میں اپنی گردن نہیں ڈالتا۔ ہم ایک جلسہ کے عینی شاہد ہیں، جس میں صدر جلسہ کی گردن ہار کی طرف بڑھ رہی تھی اور ہار گردن کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک فوٹو گرافر کے کیمرہ میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی۔ جب صدر جلسہ کو اس خرابی کا پتہ چلا تو انہوں نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی گردن ہار میں سے نکال لی، لیکن جلسہ کا سکریٹری برابر ان کی گردن کا تعاقب کر رہا تھا۔ یقین مانئے کہ ’صدر مذکور‘ نے ہار پہننے کے معاملہ میں اس دن ایسی ہی حرکت کی، جیسے اڑیل گھوڑا منھ میں لگام ڈالنے کے وقت کرتا ہے۔ بالآخر جب کیمرہ درست ہو گیا تو ’صدر جلسہ‘ کو چمکار کر ہار کی طرف لایا گیا اور جب کیمرہ کا فلش بلب جل اٹھا تو لوگوں نے دیکھا کہ صدر کی گردن ہار میں داخل ہو گئی ہے۔ صدر جب ہار پہن لیتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور یہ دیکھ کر اسے پہنائے گئے ہاروں کے پھول خود بخود مرجھا جاتے ہیں۔ صدر جلسہ اس وقت بہت خوش ہوتا ہے، جب جلسہ کا صدر استقبالیہ میں اپنی خیر مقدمی تقریر میں ’صدر جلسہ‘ کی اعلیٰ صفات کا ذکر کرتا ہے۔ جب اس کی تعریف ہونے لگتی ہے تو ’صدر جلسہ‘ جان بوجھ کر چھت کی طرف دیکھنے لگتا ہے اور اگر جلسہ زیر سماں ہو رہا ہو تو تارے گننے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کی نظر تو اوپر ہوتی ہے، لیکن کان صدر استقبالیہ کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہر صدر بڑا مصروف رہتا ہے اور وہ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت بڑی مشکل سے نکالتا ہے، حالانکہ جنابِ صدر کے قریبی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ جنابِ صدر کے سامنے وقت کا ایک وسیع سمندر ہمیشہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے اور اس سمندر میں ’صدارتوں ‘ کی حیثیت ان جزیروں کی سی ہوتی ہے، جہاں ’جنابِ صدر‘ تھوڑی دیر کے لیے سستا لیتا ہے۔
سب سے آخر میں جب ’جنابِ صدر‘ اپنی صدارتی تقریر کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو پہلے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا ہے اور حاضرین کو یہ موقع عطا کرتا ہے کہ اس کے کرسی صدارت سے اٹھ کر مائیکروفون کے قریب پہنچنے تک وہ تالیاں بجا سکیں۔ پھر وہ بڑی سادگی کے ساتھ صدر استقبالیہ کی تقریر کے خلاف ایک تردیدی بیان جاری کرنے لگتا ہے کہ آپ نے میرے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف ذرہ نوازی ہے، ورنہ خاکسار تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے کسی جلسہ میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ وہ اپنی تقریر میں منتظمین کو جلسہ کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہے اور مستقبل میں بھی ایسی غلطیوں کا ارتکاب کرنے کا پر خلوص مشورہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ ہر وقت منتظمین سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس تعاون کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اگلی بار بھی صدارت کرنے کے لیے تیار ہے۔ صدر جلسہ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر موضوع پر اظہار خیال کر سکتا ہے۔ وہ کسی جلسہ میں ’پولٹری فارمنگ‘ پر اظہار خیال کرتا ہے تو دوسرے جلسہ میں ’ماہی گیری کی اہمیت‘ پر روشنی ڈالتا ہے۔ کہیں ’دیا سلائی بنانے کی صنعت کے فوائد‘ بیان کرتا ہے تو کہیں ’صابن سازی‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ آدمی جب ایک بار ’صدر جلسہ‘ بن جاتا ہے تو پھر زندگی بھر وہ ’صدر جلسہ‘ ہی برقرار رہتا ہے۔ کرسی صدارت اس سے چمٹ کر رہ جاتی ہے اور معاملہ وہی ہوتا ہے کہ میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ یاد رکھئے کہ صدر جلسہ ہمیشہ جلسہ میں دیر سے آتا ہے۔ اس کے دیر سے آنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ وہ لوگوں کو اپنے انتظار میں مبتلا کر کے اپنی اہمیت ان پر واضح کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ صبح ہی سے شام کے جلسہ کی ’صدارت‘ کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے۔ کپڑوں پر استری کرواتا ہے، جوتوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی صدارتی تقریر کو پالش کرواتا ہے۔ آئینہ کے سامنے ٹھہر کر ’کرسی صدارت‘ پر بیٹھنے کے مختلف ’پوزوں ‘ کا جائزہ لیتا ہے، لیکن اس کے باوجود جلسہ میں دیر سے پہنچتا ہے۔ ہمیں اس وقت اس ’صدر جلسہ‘ کا لطیفہ یاد آ رہا ہے، جسے زندگی میں پہلی بار ’صدر جلسہ‘ بننے کا موقع ملا تھا۔ اس نے اپنی صدارت کے لیے خوب سارا اہتمام کیا، لیکن جلسہ میں بہت دیر سے پہنچا۔ منتظمین نے کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایک ’ریڈی میڈ صدر‘ کی خدمات حاصل کیں اور صدارت کے فرائض اسے سونپ دیے۔ پہلا صدر اس بات پر بہت برہم ہوا۔ منتظمین نے جب اس سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا ’’بھائی میں در اصل جلسہ کے کاموں میں ہی مصروف تھا۔ چونکہ یہ جلسہ میری صدارت میں ہو رہا تھا، اس لیے میں دن بھر جلسہ کے پوسٹر شہر کی دیواروں پر چسپاں کرتا رہا۔ پوسٹر لگانے سے اب فرصت ملی ہے تو جلسہ میں آیا ہوں۔ ‘‘
ہر جگہ آپ کو چند شخصیتیں ایسی ضرور مل جائیں گی جو ’صدارت‘ کا کاروبار کرتی ہیں اور جہاں ’صدر جلسہ‘ کی آبادی بہت زیادہ ہوتی ہے، وہاں صدارت کے مسئلے پر جھگڑے بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ صدر جلسہ کی بہتات اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ’صدور جلسہ‘ کی بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک شہر کے لیے ’دو یا تین صدر بس‘ کے اصول پر عمل کریں۔
٭٭
ماخذ:
http: //urdu.chauthiduniya.com/2012/10/janab-e-sadar
٭٭٭