کبھی کبھی یہ مشکل آن پڑتی ہے کہ کسی فرد یا فنکار پر آپ لکھنا چاہتے ہوں اور لفظوں کے قبیلے کبھی روبرو اور کبھی اوجھل ہو جاتے ہیں۔ میرے ساتھ تو یہ مشکل بھی ہے کہ میں نہ شاعر نہ ادیب، نہ نقاد اور نہ محقق، ایسے میں کسی ایسے فنکار کے تعلق سے جسے اپنے آپ کے برابر چاہا اور جسے اندر کے آدمی نے یوں قبول کیا کہ اس کی ہر ادا پسند ہو، وہاں قلم بے باک ہونا بھی چاہے تو روشنائی یوں بھی خشک ہو جاتی ہے کہ ’’انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘‘۔ ہر فنکار بلکہ اعلیٰ درجہ کے فنکار کا احساس بہت نازک ہوتا ہے، جو بہت جلد ٹوٹتا ہے اور بہت تیز چبھتا ہے۔ اس سے پہلے بھی مجھے یہ دقت پیش آئی تھی، جب میں پروین شاکر پر لکھنا چاہتا تھا اور ان کے الفاظ کا قبیلہ میرے آنگن میں اتر آنے پر آمادہ نہ تھا۔ شاید اس لئے بھی کہ انہیں یہ اندیشہ ہو کہ میں ٹھہرا پدرانہ تفوق کا علمبردار اور وہ لفظ نسائی حسیت کے پیکر۔ خواب سے زیادہ دلکش اور خیال سے زیادہ نازک، اس پر چلمن نشینی اور بہرحال اس مضمون کے لکھنے میں مجھے برسوں لگ گئے۔
مجتبیٰ حسین پر یہ تحریر ان کے فن پر نہ تبصرہ ہے، نہ ان کی شخصیت کا تجزیہ، بلکہ میں عرصہ دراز سے ان کا مقروض ہوں۔ وہ جب کبھی روبرو ہوتے ہیں تو مجھے اپنے قرض دار ہونے کا احساس شدید ہونے لگتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے قرض کا مطالبہ نہیں کیا، لیکن شاید قرض خواہ کا مطالبہ نہ کرنا ہی ایک شدید مطالبہ ہے، جس کے آگے ہر مطالبہ ہیچ ہو جاتا ہے۔ بھلا جس دور میں زمین سے جہاں خالص گھاس کی پتی نہ پھوٹتی ہو وہاں ہنسی کی فصل کا تصور کیا ہے۔ ایسے میں مجتبیٰ حسین نے اپنے شہر خیال کے خزانوں سے انسانیت پر جو ہنسی کے خزانے لٹائے ہیں، وہ ان کی دریا دلی ہے۔ لیکن اس کی تہہ میں جو کرب نہاں ہے، وہ صرف ان کی ذات کی حد تک محدود رہا۔ جسے چھپانے میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے یا انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا، یہ سب اندیشہ سود و زیاں سے باہر ہے۔
یہ بات میں نہیں جانتا کہ طنز و مزاح کوئی صنف ہے یا اسلوب یا پھر ادب کی درجہ بندی میں کونسا ادب پہلے درجہ کا ہے اور کونسا دوسرے درجہ کا، یہ کام نقادانِ سخن کا ہے۔ میں ٹھہرا ہنر بے ہنری میں یکتائے روز گار۔ لیکن جہاں تک احساس اور جذبات کی فرمان روائی ہے اور اس کی ترجمانی کے لئے اظہار ابلاغ اور ترسیل کے وسائل کا تعلق ہے، یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دُنیا کا کوئی ادب طنز و مزاح سے خالی نہیں ہے۔ اگر اس خیال کی وسعتوں میں مختلف ادب اور کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید اس سے انکار ممکن نہیں۔
طنز و مزاح کا تانا بانا در اصل سوت اور ریشم کا تانا بانا ہے کہ جب چاہیں ریشم کے تار کو الگ کر لیا اور جب چاہا سوت کے دھاگے کو نکال لیا، لیکن کچھ اس احتیاط سے کہ اگر ریشم کے تار کو الگ کیا جائے تو انگلیاں ریشم کے لمس کو محسوس کریں اور سوت کے دھاگے کو الگ کر لیا تو سوت انگلیوں کے لمس کو محسوس کرے۔ طنز و مزاح سوت اور ریشم کا توازن چاہتا ہے۔ طنز اگر بڑھ جائے تو کلیجے میں کاٹ سی لگ جاتی ہے اور یہ جراحت زخموں کے اندمال کا سامان نہیں بہم پہنچاتی اور اگر مزاح بڑھ جائے تو پھکڑ پن کے قریب ہو جاتا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے پاس یہ تانا بانا اتنے سلیقے سے بنا ہوا ہے کہ توازن میں کمی بیشی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کی تحریریں ان دونوں عناصر کا امتزاج ہے نرم رو چشمہ کے ٹھنڈے پانی کی طرح سیرابی کے سارے سامان بہم پہنچاتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کسی کی شدید بخار ہو اور یہ پانی اسے کڑوا معلوم ہو تو یہ مجتبیٰ حسین کی مجبوری ہے۔ ان کا یہی وصف ان کو مشتاق احمد یوسفی، مشفق خواجہ، فکر تونسوی، شوکت تھانوی سے منفرد بھی اور ممتاز بھی رکھتا ہے۔ زندگی کی تلخیوں کی تاب نہ لا کر زہر اگل دینا کم ظرفی اور تنقید پر چیں بہ چیں ہوناشکست ذات کی علامت ہے ‘ جب کہ ایسے موقع پر قہقہہ لگا کر لطف اندوز ہونا نہ صرف فتح و کامرانی کی دلیل ہے، بلکہ احساس کمتری کے شکار نقاد کو پسپائی پر مجبور کر دینا ہے۔
شاید یہ بات درست ہے کہ ہر فنکار کا فن اس کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ رہی بات ہنر مندی کی تو موسیقی کی زبان میں یہ اس کے ریاض پر منحصر ہے۔ مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری کے تعلق سے خود ان کا خیال ہے کہ جگر صاحب نے شاہد صدیقی کے ارتحال کے بعد ان سے یہ کہا کہ ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کالم وہ لکھا کریں۔ جگر صاحب کے اس فرمان کی تعمیل کو مجتبیٰ حسین ’’فرماں برداری‘‘ کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ تمام عمر یہ فرماں برداری فرماتے رہے، جسے ہم مزاح نگاری سمجھتے آ رہے ہیں۔ میرے اپنے خیال میں جب تک حسیت قوت متخیلہ اور مشاہدہ کسی فرد میں رچا بسا نہ ہو یا بالفاظ دیگرINBUILTنہ ہو، وہ کبھی فنکار نہیں بن سکتا۔ اس کے بعد ترسیل و ابلاغ کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے مجتبیٰ حسین کی فنکاری کا راز دروں جگر صاحب کی نگاہ گوہرشناس ہے کہ انہوں نے ان کے اندر کے فنکار کے مستقبل کی قامت کو اپنی نگاہ کے پیمانے سے ناپ لیا تھا۔ اس مختصر سے مضمون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ ان کی تحریروں کا جائزہ لے سکوں اور پھر جب کئی اسکالرز متعدد یونیورسٹیز سے اوزار سنبھالے ان کی شخصیت میں کھدائیاں کرتے ہوئے دفینے بر آمد کر کے اپنے آپ پر پی ایچ ڈی کے تمغے سجا رہے ہوں، وہاں میری بساط کیا۔ اتنی ساری تحقیق کے بعد بھی ہر شخص کی ذات میں کچھ نہاں خانے اور کچھ بھول بھلیاں ایسی ہوتی ہیں، جہاں ہر کس و ناکس کا گزر ممکن نہیں۔ بعض لوگ اس سے دانستہ بھی گریز کرتے ہیں کہ کہیں وہ ان بھول بھلیوں میں گم نہ ہو جائیں اور کچھ نہاں خانوں کی سیر ذات کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے کہ بھرے درختوں کے باوجود بن کی تنہائی یا روز و شب کے ہنگاموں میں خود انجمن کی انتہائی کو محسوس کرنا سب کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی۔
سفر ناموں کے حوالے سے مجتبیٰ حسین اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں، نہ وہ ابن بطوطہ کے تعاقب میں ہیں اور نہ ابن انشاء کے۔ در اصل سفر نامے کا مزاج غیر متعصب مشاہدے کا تقاضہ کرتا ہے اور بیشتر سیاحوں سے یہیں عنان چھوٹ جاتی ہے۔ ویسے بھی مجتبیٰ حسین کے سفر ناموں سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کب سفر میں ہیں اور کب حضر میں۔ سفر صرف شہر بدلنے کا نام نہیں، کبھی کبھی دہر کا بدل جانا بھی سفر بن جاتا ہے۔ دہر کی اس تبدیلی میں بدلے ہوئے لباس، سکے، تہذیبیں، معاشرہ مجتبیٰ حسین کو وطن ہی میں نئے جہانوں کی سیر کروا دیتا ہے۔ ان کے مضامین کے بین السطور میں آپ کو ایسے کئی سفر نامے مل جائیں گے۔ لیکن کبھی کبھی ان کا کوئی سفر نامہ پڑھ کر یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ وہ سفر میں نہیں ہیں، بلکہ اپنے وطن یا گھر ہی میں ہوں۔ ان کی شخصیت اور تحریروں میں بیشتر مقامات پر ہم آہنگی ملتی ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس کا اظہار نہیں چاہتے یا انہیں کسی کی تلاش ہے۔ وہ کون ہے ؟کیا ہے ؟ خود اس کی چھبی بھی مجتبیٰ حسین کو اپنی ایک جھلک دکھا کر پھر سے کسی اوٹ میں ہو جاتی ہے اور پھر تلاش کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔ مجتبیٰ حسین سے یہ بھی نا ممکن نہیں کہ اس پیکر خیال کو خود انہوں نے ہی تراشا ہو، ٹوٹ کے چاہا ہو اور خود ہی اسے توڑ کر اپنے وجود میں ریزہ ریزہ بکھیر کر اسے دنیا بھر میں تلاش کر رہے ہوں۔ جس دن ان کی یہ تلاش ختم ہو جائے گی مجتبیٰ حسین کا وجود شاید بکھر جائے گا۔ جیسے بفضل تعالیٰ ایک دن یہ کائنات ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گی۔ سو آدمی بھی تو اندر سے ایک کائنات ہی ہے۔ میں نے مجتبیٰ حسین کو پڑھا بھی ہے سنا بھی ہے۔ میری کل متاع میرا حافظہ ہے ’‘ اس نوعیت سے کبھی ہم بھی رئیس تھے ‘ لیکن وقت نے اب اس پر بھی گرد کی ایک دبیز چادر سی ڈال دی ہے اور اپنی ناداری کا احساس ہونے لگا ہے۔ ان کے سفر نامے بھی نظر سے گزرے تھے۔ اب کچھ مبہم مبہم سی دھندلی دھندلی سی یادوں کی صورت کبھی تنہائی میں کبھی نیم شبی میں ابھر آتی ہیں۔ ایک جگہ لکھا تھا:
’’تھائی لینڈ کی مندوب مس پرینیا کی شخصیت اور دلنوازی کا حال ہم کیا بیان کریں۔ بڑی دلآویز اور موہنی ہستی ہیں۔ ہنسنا اور لگاتار ہنسنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ہماری باتوں پر وہ گھنٹوں ہنسا کرتیں۔ ہنسنے سے فرصت ملتی تو پھر انہیں باتوں پر بہ انداز دِگر ہنسنے لگتیں۔ ہم اتنا ہنسیں تو خون تھوکنے لگ جائیں۔ ہماری باتوں پر فریفتہ تھیں اور بہ زبان انگریزی ہم سے کہتی تھیں: Mr. Hussain you are a real men ہم نے اپنی ناچیز ہستی کے بارے میں ان کی قیمتی رائے کو جوں کاتوں اس لئے پیش کیا ہے کہ اُردو میں اس جملے کے ترجمے سے غیر ضروری اور بے بنیاد شکوک اور شبہات کے پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ انگریزی زبان میں جو تہہ داریاں ہیں وہ اُردو میں کہاں۔ ‘‘
مجتبیٰ حسین کے ان سطور میں جو تہہ داریاں ہیں، وہ کسی اور کے پاس کہاں۔ ذرا غور فرمایئے ! مس پرینیا کی دلنوازیاں۔ پھر ہنسنا اور لگاتار ہنسنا، ہنسنے سے فرصت ملے تو بہ انداز دِگر ہنسنا اور پھر یکایک ایک جراحت جاں کہ ’’ہم اتنا ہنسیں تو خون تھوکنے لگ جائیں گے۔ ‘‘مجتبیٰ حسین کے اس جملے میں جتنا کرب ہے، اسے سمیٹنے کا الفاظ میں حوصلہ کہاں۔ اس کے بعد کا جملہ ملاحظہ فرمایئے:
’’ہماری باتوں پر فریفتہ تھیں اور بزبان انگریزی ہم سے کہتی تھیں Mr. Hussain you are a real man۔ اس کے بعد انہوں نے دامن بچانے کی۔ جملے کو جوں کاتوں پیش کرنے کی۔ انگریزی کی تہہ داریوں کا حوصلہ بڑھا کر شکوک اور شبہات کے احتمال کو ٹالنے کی بہت کوشش کی، لیکن شک و شبہ ہوا کس کمبخت کو۔ ایک پرت کو الٹنا تھا سو اُلٹ گئی۔
اسی مضمون میں ایک جگہ لکھا ’’مس پرینیا! ہم بھی پر امید زندگی گزارنے کے قائل ہیں۔ ایسی زندگی گزارنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑے سلیقے سے اپنے آپ کو بیوقوف بناتا ہے۔ اپنی بے وقوفی کو نئے نئے، اچھے اچھے انوکھے نام دیتا ہے۔ اگر آدمی میں خود اپنے ہاتھوں بے وقوف بننے کی صلاحیت نہ ہوتی تو جینا دوبھر ہو جاتا۔ یہ ہے مجتبیٰ حسین کے طنز کا معیار کہ جہاں وہ دُنیا کو اپنی ذات میں سمیٹ کر طنز سے جراحت جاں اور زخم کا اندمال کرتے ہیں۔
مجتبیٰ حسین کو اُردو سے جتنی محبت ہے، اتنی محبت ہر ایک کو ہو جائے تو یہ جملہ ہی مہمل ہو جائے کہ اُردو مائل بہ زوال ہے۔ ایک جگہ لکھا کہ ہم اُردو گزیدہ ہیں۔ اس کے بعد رقمطراز ہوئے سنا ہے کہ لندن میں آل انگلینڈ مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ اب انگلستان کے شاعروں کے درمیان موازنہ انیس و دبیر اور معرکہ انشاء و مصحفی بھی ہونے لگا ہے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ اُردو ادب میں پنپنے کی یہی تو باتیں ہیں۔
یونیسکو کی چھتری تو آپ کے ذہن میں ہے۔ مضمون کا پہلا حصہ ملاحظہ ہو:
وہ ہمیں ٹوکیو میں دوسرے دن ملی اور ہم نے اسی دن اپنی بیوی کو خط کھا: ’’وہ ہمیں آج ہی ملی ہے دیکھنے میں کوئی خاص نہیں مگر پھر بھی اچھی ہے۔ اب ہمیں اسی کی رفاقت میں ٹوکیو کے شب و روز گزرانے ہیں۔ ‘‘
آٹھ دن بعد جب بیوی کے ٹیلیفون کا تذکرہ کیا تو مکالمہ نگاری دیکھئے:
ہیلو کیسی ہو؟ خیریت تو ہونا؟
بیوی نے کہا ’’میری خیریت جائے بھاڑ میں۔ پہلے یہ بتاؤ اس وقت کمرے میں اکیلے ہو یا وہ بھی تمہارے ساتھ ہے۔ ‘‘
ہم نے قہقہہ لگا کر کہا: ’’تم بڑی بھولی ہو وہ کوئی حسینہ نہیں بلکہ چھتری ہے۔ ‘‘
پوچھا: ’’اچھا تو یہ چھتری ہے۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’اور کیا‘‘
پوچھا ’’اچھا یہ بتاؤ چھتری شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’بھلا چھتریوں کی بھی کہیں شادی ہوتی ہے۔ ‘‘
بولیں ’’یہ بتاؤ عمر کیا ہے ؟۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’بڑی پرانی چھتری ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگ استعمال کر چکے ہیں۔ ‘‘
بولیں ’’کچھ تو عمر کا لحاظ کرو۔ اب تمہیں کونسی غیر مستعملہ چیز ملے گی۔ ‘‘
یہ ہے حس مزاح جہاں فنکار اپنا آپ مذاق اُڑانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
لیکن اس کا اختتامیہ دیکھئے !
’’ہم تو کہتے ہیں اس چھتری میں ہمیں اپنی بیوی کی عدم موجودگی کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ یہ اب چھتری نہیں سچ مچ ہماری بیوی بن گئی۔ ‘‘
مس جو نے ہنستے ہنستے اس کے مٹھ سے گم ٹیپ کو چھیلا اور ہمارا نام نکال دیا۔ ہمارا دل پر ایک بجلی سی گری۔ تڑپ کو بولے۔
’’مس جو! اس چھتری پر سے ہمارا نام ذرا آہستہ نکالئے۔ دل پر چوٹیں سی پڑ رہی ہیں۔ ‘‘
اتنا کہنے کے بعد نہ جانے کیوں ہماری آنکھوں میں آنسوآ گئے۔
مجتبیٰ حسین نے لاکھوں انسانوں میں ہنسی کے پھول بکھیرے۔ قہقہوں کی بارش کی۔ خود بھی زندہ دلان حیدرآباد کے دفتر کی بالکونی میں بیٹھ کر حمایت اللہ کے ساتھ قہقہے لگاتے رہے ‘ لیکن یہ یاد نہیں کہ کس بات پر قہقہے لگائے تھے۔ اس جملے کا کرب قہقہے کے مفہوم کو بدل دیتا ہے۔ خود بقول ان کے:
’’سورج مکھی کا پھول دن بھر سورج کے ساتھ سفر کرتا ہے، لیکن رات میں اپنے سارے وجود کو سمیٹ کر جس کرب کے عالم میں پھر صبح کے سورج کے لئے اپنا رُخ موڑ تا ہے، اس کرب کو یا تو سورج مکھی جانتا ہے یا مجتبیٰ حسین۔ ‘‘
فن جب اپنے کمال پر پہنچ جاتا ہے تو خود اپنے لئے حاسد پیدا کر لیتا ہے۔ حاسد در اصل محسود کے کردار کا قاتل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری زندگی کسی پر احسان کرتے گذری اور جس پر احسان پر احسان کیا وہی خنجر بدست نظر آیا۔ ایسے میں میرے گھر سے تو قاتل کو شربت پلانے کی رسم ابھی ختم نہیں ہوئی، میں سمجھتا ہوں کہ مجتبیٰ حسین بھی اسی روایت پر یقین رکھتے ہیں۔
٭٭
ماخذ:
http: //www.jahan-e-urdu.com/well-known-humors-writer-mujtaba-hussain-author-allama-aijaz-farruq/
٭٭٭