زیر تبصرہ کتاب ’’مجتبیٰ حسین کے بہترین سفرنامے ‘‘ چھ سفروں پر مشتمل کتاب ہے، مجتبیٰ حسین مزاح نگاری میں عظیم نام ہے، ان کی تحریروں کی مقبولیت سرحدوں کی پابند نہیں ہے، وہ پوری دنیا میں اردو داں طبقے کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں، مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین دو ایسی عظیم شخصیات ہیں جنہوں نے طنز و مزاح کی دنیا میں بلند مقام حاصل کیا ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ طنز و مزاح قہقہہ بار ہی نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات سماج کے درد و کرب پر اشکبار بھی کر دیتا ہے، البتہ مزاح نگار بڑی نفاست اور لطافت کے ساتھ اپنا وار کرتا ہے، جو زندہ ہوتے ہیں متوجہ ہوتے ہیں، وہی اس کا درد، چوٹ اور تکلیف محسوس کرتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ خنجر گھونپ دیا گیا، جو لوگ بے حس ہو جاتے ہیں، زندہ لاش ہو جاتے ہیں، وہ طنز کو محسوس ہی نہیں کر پاتے، خاص طور پر طنز کی وہ جھلکیاں جو ہم نے مجتبیٰ حسین کی تحریروں میں دیکھی ہیں، وہ انتہائی نازک اور لطیف ہیں، یوں تو شمس الرحمن فاروقی نے اعلان کر دیا کہ مجتبیٰ مزاح نگار ہیں، طنز نگار نہیں ہیں، لیکن اس حقیقت کا انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے اور انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ بہت نازک طنز کرتے ہیں۔ مزاح نگاری کی کشتی کو اگر پار لگانا ہے تو کم از کم طنز کو بطور بادبان استعمال کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے، ورنہ یہ کشتی ہچکولے کھاتے ہوئے غرق ہو جائے گی۔ بہرحال انیسوی صدی سے سفرنامے ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کر گئے، اردو زبان و ادب میں بہت سے سفرنامے تحریر ہوئے ہیں، اندرون ملک اور بیرون ملک بہت سے ادیبوں نے اپنے سفر کی یادداشتیں تحریر کی ہیں اور لوگوں کو ایک ایسی دنیا دکھانے کی کوشش کی ہے، جس کا وہ کھلی آنکھوں سے بھی مشاہدہ نہیں کر پائے تھے اور سفر کی لذتوں کو مکمل طور پر نہیں پا سکے تھے، اس کتاب میں موجود سفرنامے اردو کے نایاب اور بہترین سفرنامے ہیں، چونکہ مجتبیٰ حسین سے قبل اردو زبان میں جتنے بھی سفر نامہ تحریر ہوئے وہ سب طنز و مزاح کی دنیا سے کوسوں دور ہیں، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس میدان کو اس رنگ میں رنگا جا سکتا ہے اور یہ رنگ اس میدان کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دے گا۔ مجتبیٰ حسین نے اپنی کاوش سے یہ ثابت کر دیا اور احساس دلا دیا کہ طنز و مزاح کسی بھی موقع پر بے اثر نہیں ہوتا، کتاب میں موجود پہلا سفرنامہ جاپان کی روداد ہے، جاپان کی تہذیب و ثقافت، زبان اور اردو زبان کی حالت اور جاپانیوں کا کاروباری مزاج اور خاص طور پر اردو اور ہندی دونوں زبانوں کا سیکھنا، جاپان کی محنت و مشقت، ان کا تعلیم سے لگاؤ، کسی بھی خام مال کی پیدائش نہ ہونے کے باوجود دنیا کی منڈی پر حکومت کرنا، جاپان کا حسن سرسبز و شاداب مناظر قدرت، بلیٹ ٹرین کی تیز رفتاری اس کو بلیٹ ٹرین کہنے کی وجہ، ان تمام چیزوں کو سفرنامے میں اس خوبصورت انداز سے پیش کیا گیا ہے، جس کی لذت قلب پر خوشگوار تاثر قائم کرتی ہے، اور ذہن و دماغ سحر زدہ محسوس ہوتے ہیں، لبوں پر تبسم اور کبھی قہقہہ اور کبھی یکایک ذہن حیرت و استعجاب میں ڈوبا ہوا خوشی کافور اور اپنے حال پر پشیماں سوچنے پر مجبور عمل پر کھڑا ہونے کو تیار، یہ خوبصورتی ہے، جس نے اس سفرنامے کو ادبی شہ پارہ بنا دیا ہے اور کتاب کے وقار کو بلند کر دیا ہے، اس کے علاوہ دوست و احباب کے تذکرہ نے سفرنامہ کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ سطریں ملاحظہ کیجئے، ہم نے کہا سر ہائی اسکول تک جغرافیہ پڑھی تھی، اس وقت تک تو جاپان بر اعظم ایشیا میں ہی تھا، اب بھی شاید ایشیا میں ہی ہو گا، ہم ٹھیک سے کہہ نہیں سکتے کیونکہ سنا ہے جاپان نے بہت ترقی کر لی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں کا کوئی بھروسہ نہیں کب کدھر کو نکل لیں، تبسم سے لبوں کو خوبرو کرتا یہ جملہ اور اسی طرح دوسرے رنگ کی مثال ملاحظہ کیجئے، جاپان کی آبادی ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور تقریباً کتابیں 80کروڑ فروخت ہوتی ہیں، گویا ہر جاپانی سال بھر میں ساڑھے چھ کتابیں ضرور خریدتا ہے، ایک ہم ہیں پڑھنے لکھنے میں شہرت کے باوجود ہم نے پچھلے تین سال سے کوئی کتاب نہیں خریدی۔ یہ جملہ طنز کر رہا ہے اردو زبان سے متعلق افراد پر، اور ان کی حالت زار کا احساس کرا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس سفرنامے کے آخر میں مس پرینا سے گفتگو ہے، اس گفتگو کے تاثر کو الفاظ کی قباء پہنانا ممکن نہیں ہے، یہ وہ کیفیت ہے، جسے قاری صرف اپنے قلب پر محسوس کر سکتا ہے، الفاظ کے دامن میں اتنی وسعت کہاں کہ اسے بیاں کرے، مطالعہ کیجئے اور اس لذت سے قلب کو بہر مند کیجئے۔ دوسرا برطانیہ کا ہے، جس میں انہوں نے ’’برطانیہ میں اردو زبان کا کیا حال ہے ‘‘اس پر روشنی ڈالی ہے اور لوگ برطانیہ میں اردو سے کس درجہ محبت رکھتے ہیں، یہ ثابت کیا ہے اور واضح کیا ہے، جب بنگالی اردو ہندی کسی زبان کا پروگرام ہوتا ہے تو اہل زبان شریک ہوتے ہیں، لیکن جب اردو کا پروگرام ہوتا ہے تو ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش تمام ملکوں کے افراد شریک ہوتے ہیں، یہ وہ طنز ہے جس کے ذریعہ احساس دلایا گیا ہے اور تمنا کی گئی ہے، کاش ہمارے ملک میں بھی ایسی فضا قائم ہوتی اور اس سفرنامے میں ساقی فاروقی کے ساتھ ہوئی گفتگو ان کے ساتھ گھومے گئے مقامات کا بیاں بہت ہی دلچسپ اور لطف اندوز ہے۔ اس میں مشہور شاعرہ سحاب قزلباش کے تعلق سے کی گئی گفتگو قہقہہ بار کر دیتی ہے، ان کا دیوان غالب پر کوکا کولا بوتل سے روٹی بیلنا اور اس روٹی کو کھا کر ساقی فاروقی کا غالب کو سمجھنے کا دعویٰ کرنا، لبوں پر تبسم نہیں قہقہے امنڈے پڑتے ہیں، یہاں تنظیموں کی تعداد پانچ سو ہے، یہ جملہ سن کر جو طنز کیا گیا ہے وہ بھی لا جواب ہے، کتاب میں تیسرا ازبیکستان سے متعلق ہے، جس میں یہاں کے باشندوں کی پابندیِ وقت یہاں کے تاریخی مقامات تاریخی واقعات اور عمارتوں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ مفتی کفال شاشی کا مقبرہ اور ان کا علمی مقام و مرتبہ، بغداد کے خلیفہ کا انہیں حضرت عثمان کے ہاتھوں سے لکھا قرآنی نسخہ عطا کرنا، ان چیزوں کے بیان کے ذریعہ اس خطہ کے تقدس کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سفرنامہ میں اپنے دوست غفور سے ملاقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور قہقہوں کی مجلس گرم کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے۔ چوتھا سفر عمان کا ہے، جس میں مسقط کی سفاء، اس کا جائے وقوع اس کی خوبصورتی، سمندروں کا بیان، سڑکوں کی خوبصورتی، صحراء میں مسقط کا دلنشیں نظارہ، اونچے اونچے پہاڑ، بادشاہ کا خوبصورت محل اور دلکشی رعنائی کا ہر پہلو بہت ہی خوبصورتی سے ابھارا گیا ہے، یہاں موجود حیدرآبادی سے ملاقات ان سے گفتگو اور اپنا دوست سمجھ کر ایک شخص سے گفتگو کرنا اس سفرنامے میں مسکراہٹیں پیدا کرتا ہے۔ پانچواں سفر اس مقدس مقام اور عظیم ہستی کی زیارت کا سفر ہے، جس کی تمنا آرزو ہر مؤمن کے قلب میں پیدا ہوتی ہے اور ہر برس اس آرزو میں شدت محسوس کرتا ہے، مگر چند افراد وہ ہوتے ہیں، جن کی یہ خواہش پوری ہو جاتی ہے اور بہت سے افراد وہ ہوتے ہیں، جن کی یہ تمنا ان کے قلب میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کی یہ آرزو پوری ہوئی وہ خوش نصیب ہیں، انہیں وہ مقام دیکھنے کا موقع میسر آیا جہاں شہنشاہ کائنات کے قدم پڑے، جہاں صدیق اکبر کی جبین نیاز خم ہوئی، فاروق اعظم کا وقار بلند ہوا، علی مرتضیٰؓ کی عظمت کی داستان رقم ہوئی، عثمان کی حیاء کا پرچم بلند ہوا اور اس زمین کو خدا کا گھر ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس سرزمین کا سفرنامہ مختصر عاجزانہ اور پر ہیبت ذہن و دماغ کی تخلیق ہے اور بندہ مؤمن کی عاجزی اور محبت کا مظہر ہے۔ آخری سفر امریکہ کا ہے، یہ سفر طویل داستان اپنے دامن میں رکھتا ہے، شکاگو میں جو ابتدائی سطریں لکھی گئیں پیش خدمت ہیں تاکہ منظر نگاری کا اندازہ ہو سکے، موسم بہار کی آمد آمد ہے، ننگے درختوں پر کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، فضاؤں میں عجیب سی سرمستی، سرشوخی اور والہانہ پن ہے، ننگ دھڑنگ درخت جب پتوں کا لباس پہننا شروع کر دیتے ہیں، تو امریکی اپنا لباس اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان جملوں سے کتاب کی تخلیقی بلندی کا اندازہ کیجئے اور آخری جملہ دیکھئے، کس نزاکت اور خوبصورتی کے ساتھ امریکی تہذیب پر اور ان کی بے حیاء پر طنز کیا گیا ہے اور ان کے ننگے ہونے پر کس طرح سے ملامت کی گئی ہے، اس سفر میں امریکہ میں اردو تہذیب عیدالفطر منانا، براک حسین اوباما سے ملاقات، بش اللہ کے حضور میں اور مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات بہت تفصیلی انداز میں بہت سے پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔ تاریخی جھلک بھی ملتی ہے، جغرافیائی معلومات بھی، امریکہ کی خوبصورتی کا علم بھی ہوتا ہے اور وہاں کی تہذیبی کجی پر بھی روشنی پڑتی ہے اور علم و تحقیق کی ترقی بھی عالم آشکارا ہوتی ہے، کچھ سیاسی مدّعے اور مسئلے بھی نکل کر آتے ہیں۔ اس سفرنامے پر کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے، اسلوب سادہ، ہلکے جملے، محاوروں کا برجستہ استعمال، کہیں لفظ اور کہیں معنی سے پیدا ہوتا مزاح کتاب کو لاجواب کرتا ہے اور عرشیہ ندیم کا عمدہ انتخاب اور ان کا ادبی ذوق تعریف کرنے پر مجبور کرتا ہے، کتاب ظاہری اعتبار سے بھی عمدہ ہے، زردی مائل جدید طرز کے کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے، اور ٹائٹل بھی خوبصورت اور لاجواب ہے، کتاب کا مطالعہ بہت سے ملکوں کے سفر کی تمنا قلب میں پیدا کرتا ہے، بہت سے دلکش نظاروں کا ذہن کو اسیر کرتا ہے اور یہ خواہش قلب میں پیدا کرتا ہے، کاش ہم بھی ان نظاروں کو اپنی نظر سے دیکھیں، کتاب انتہائی دلچسپ اور عمدہ ہے اور قابل مطالعہ بھی۔ مطالعہ کیجئے اور ادبی ذوق کو تسکین بخشئے۔
٭٭
ماخذ:
http: //mazameen.com/?p=25750
٭٭٭