مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔۔۔

 

نیا شمارہ حاضر ہے۔

اس بار کا شمارہ بہت ضخیم ہو گیا ہے، اس لئے بہت سی پسندیدہ تخلیقات کی اشاعت پر بھی قدغن لگانا پڑا ہے۔ ان فنکاروں سے معذرت۔ اس کی وجہ؟ اس بار کا گوشہ، یاد رفتگاں کا گوشہ اور ایک نیا سلسلہ ’یادش بخیر۔ ‘ اس کے تحت سفر نامے اور ماضی کی ملاقاتوں اور دبستانوں کا احوال شامل ہو گا۔ اس سلسلے میں اس بار ناصر نااگووا کا سفر نامہ ہند اور حیدر آباد دکن کی ’اورئینٹ ہوٹل‘ کی یادوں پر مبنی مضامین شائع کئے جا رہے ہیں۔ اردو کے ہر شہر میں تقریباً اس قسم کے چائے خانے اور کافی ہاؤس موجود ہوں گے۔ احباب سے درخواست ہے کہ ان سے بھی قارئینِ سمت کو روشناس کرائیں۔ دہلی کی کناٹ پلیس کا انڈیا کافی ہاؤس ہماری یادداشت میں بھی تازہ ہے، لیکن ہمارا تجربہ محض دو شاموں کی حد تک ہے جس میں عمیق حنفی ہم کو لے کر گئے تھے، اور ان شاموں میں بانی، بلراج مینرا، زبیر رضوی، من موہن تلخ وغیرہ سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ دہلی کے احباب سے درخواست ہے کہ وہ اس ’ادارے ‘ کی یادوں کا بھی احاطہ کریں۔

یاد رفتگاں کے تحت اس بار دو عظیم شعراء کی یادیں شامل ہیں جو ہم کو چھوڑ کر حال ہی میں رخصت ہو گئے۔ ہندوستان کے کلیم عاجز اور پاکستان کی ادا جعفری۔ یہ گوشہ مکمل ہوا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست ماجد صدیقی کی رحلت کی خبر ملی۔ ان کی یاد میں بھی ان کی کچھ غزلیں دی جا رہی ہیں۔

اس شمارے کے گوشے کے تحت ہم نے تجزیات کا تجزیہ کیا ہے۔ کسی تخلیق کا تجزیہ ہماری یادداشت کے مطابق میراجی سے شروع ہوا۔ انہوں نے ایک باقاعدہ کتاب ’اس نظم میں‘ بھی شائع کی۔ اس کتاب سے اقتباس بھی اس گوشے میں شامل ہے۔ اور روایتی طور پر کئی نظموں کے تجزیات کے علاوہ تجرباتی طور پر دوسری اصناف شعر و سخن کے تجزیات بھی شامل ہیں، یہ اب قارئین پر منحصر ہے کہ ان کو تجزیات مانا جائے یا نہیں۔ غزل پر تجزیہ تو ہمارے خیال میں ممکن نہیں، لیکن افسانوں اور ناول کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

ا ع

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے