چوپال میں سنا ہوا قصہ۔ ایک تجزیہ۔ ۔ ۔ ایم۔ مبین

________________________________________________
چوپال میں سنا ہوا قصہ
________________________________________________

انور قمر
________________________________________________

گاؤں کی چوپال ویران پڑی ہوئی ہے۔ پوہ کی رات ہے۔ برفیلے جھونکوں سے برگد پر ٹنگی قندیلیں جھول جھول جاتی ہیں۔ ۔ ۔ ایک بوڑھا گاؤں سے دور چلا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں اس کے فاختہ ہے اور دوسرے میں کتاب۔ پیچھے پیچھے اس کے ایک گدھا چلا جاتا ہے، پیٹھ پر جس کی ایک صندوق لدا ہوا ہے اور وہ صندوق مقفل ہے۔ گاؤں کی وہی چوپال ہے، لیکن اب آباد ہو چکی ہے۔ متعدد لوگ کانپتے لرزتے چوپال میں بیٹھے ہیں اور قصہ گو سے قصہ سن رہے ہیں۔ قصہ گو کہتا ہے ’’قصہ کوتاہ۔ ۔ ۔ وہ کھیل برسوں پہلے جاری ہوا تھا، اب تک جاری ہے اور اس شدت سے جاری ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ‘‘مجمع میں سے کوئی پوچھتا ہے :
’’بھائی! وہ کون سا کھیل ہے جو برسوں پہلے جاری ہوا تھا اور اب تک جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا؟‘‘قصہ گو کہتا ہے ’’کیا نووارد ہو اس گاؤں میں ؟ جو اس کھیل سے واقف نہیں۔ ‘‘وہ شخص جواب دیتا ہے :
’’ہاں بھائی! مسافر ہوں۔ ۔ ۔ سفر میں رات پڑ گئی سو آپ کے گاؤں کی سرائے میں رک گیا۔ ‘‘تب قصہ گو کہتا ہے ’’چوپال میں بیٹھے ان لوگوں سے پوچھ دیکھو، ممکن ہے ان میں سے کوئی سنائے تمہیں و ہ کھیل والا قصہ۔ ۔ ۔ میں قصہ گو ہوں۔ میرا کام ہر رات نئے نئے قصے سنانا ہے۔ کل کا قصہ ادھورا رہ گیا تھا، سو آج اسے مکمل کر دیا۔ اب نیا قصہ سنانے جا رہا ہوں۔ ‘‘وہ بوڑھا ایک ہاتھ میں فاختہ کو تھامے اور دوسرے میں کتاب اٹھائے ایک قصبے میں داخل ہوتا ہے، وہ گدھا بدستور اس کے پیچھے پیچھے چلا جاتا ہے کہ پیٹھ پر جس کی صندوق لدا ہوا ہے اور وہ صندوق مقفل ہے۔ اس قصبے میں سبھی کچھ ہے لیکن آدم نہیں ! آدم زاد نہیں !! مکانات ہیں، دکانیں ہیں، بازار ہیں، عبادت گاہیں ہیں، مدرسے ہیں، کھیل کے میدان ہیں، سڑکیں ہیں، چوراہے ہیں، چوراہوں پر نصب مجسمے ہیں، رفاہِ عامہ کے دفاتر ہیں، عدالتیں ہیں، ٹکسال ہے، سواریاں ہیں لیکن آدم نہیں ! آدم زاد نہیں !!قصہ گو کہتا ہے : ’’تو صاحبو! بستی کے حاکم نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور آخری بار اپنی تاکید کو دوہراتا ہوا بولا کہ دیکھ وہاں پہنچ کر تو اپنے فرض سے غافل نہ ہو جانا۔ ۔ ۔ عیش و نشاط میں نہ پڑنا۔ ۔ ۔ تیری گمرہی کا سارا سامان ہو گا وہاں۔ ۔ ۔ لیکن سن کہ جب وہ تجھے جُوا کھیلنے کی دعوت دیں تو تُو ان کے ساتھ گنجفہ کھیلنے نہ بیٹھ جانا۔ ۔ ۔ بلکہ تو انہیں چوسر کھیلنے پر آمادہ کرنا۔ ۔ ۔ اور وہ جب چوسر کھیلنے پر رضا مند ہو جائیں تو تو ہر بازی جیتنے کی کوشش کرنا۔ ۔ ۔ ہزار جتن کے باوجود تو ایک بھی بازی جیت نہ پائے گا ان سے۔ ۔ ۔ تیرے ساتھ بستی کا سارا سرمایہ دیا جاتا ہے، اس امید پر کہ تو اسے صحیح مصرف میں لائے گا۔ ۔ ۔ اور وہ مصرف ہے ان کے پانسے کو وہاں سے برآمد کرنا۔ تو صاحبو! یہ کہہ کر بستی کا حاکم چند لمحوں کے لیے رکا اور پھر طاقچے سے زرد پتّوں میں لپٹی ایک کتاب اٹھا کر اس منتخبہ آدمی کے حوالے کی اور اسے درمیان سے کھولنے کا حکم دیا۔ کتاب کے صفحوں میں ایک جوف تھا اور اس جوف میں ایک پانسا دبا تھا! بستی کے حاکم نے کہا کہ دیکھ یہ پانسا جو اس کتاب کے جوف میں دبا ہے ان کے پانسے سے بدل لینا اور یہ بھی سن کہ جو علامتیں ان کے پانسے پر بنی ہیں ہو ایک طلسم کا نقش ہیں۔ ۔ ۔ تو ان کے پانسے کو اس کتاب کے جوف میں دفن کر کے اپنی پہلی فرصت میں جلا دینا۔ ۔ ۔ پانسے کے جلتے ہی وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور طلسم کے ٹوٹتے ہی ہم ان کے عذابوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گے۔ ۔ ۔ لیکن یاد رکھ! کام پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ ۔ ۔ وہاں ہر خطاکار کو صلیب دینے کا دستور ہے۔ ۔ ۔ کامیابی تیری قسمت پر منحصر ہے۔ ۔ ۔ ہم تیری سلامتی کی دعا کرتے رہیں گے۔ ‘‘اس نے پل بھر کے لیے سوچا۔ اس کام نہ تو مجھے کوئی معاوضہ دیا جائے گا نہ انعام۔ ۔ ۔ نہ تو میرے کام کی پذیرائی ہو گی نہ مجھے کوئی صلہ ملے گا۔ ۔ ۔ جو زندگی جی رہا ہوں وہ کوری اور سپاٹ ہے، بے کیف ہے، بے معنی ہے اور جیتے جیتے تنگ آ چکا ہوں۔ میں یہ کوری، سپاٹ، بے کیف اور بے معنی زندگی۔ ۔ ۔ میرا عدم وجود برابر ہے۔ یہ سوچتا ہوا وہ مہم پر روانہ ہوا۔ دفعتاً ایک پراسرار گونج سنائی دی۔ چوپال میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھرتے قصہ سنتے ہوئے لوگ چونک پڑے۔ قصہ گو کے لب سِل گئے۔ وہ گونج رفتہ رفتہ ایک شور میں بدل گئی۔ پھر اس شور میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی دھمک پیدا ہو گئی۔ چوپال میں بیٹھے، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں کے چہرے یکایک یرقان زدہ سے ہو گئے۔ ان کی آنکھوں کے ڈھیلے اپنے خانوں سے اُبل پڑے۔ قصہ گو نے لرزتی ہوئی قندیلوں کو بجھا دیا۔ چوپال اندھیرے کی قبر میں ڈوب گئی۔ آنِ واحد میں چالیس گھڑسوار چوپال کے قریب سے دندناتے ہوئے گزر گئے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سناٹے کو چیرتی ہوئی آواز آئی۔
’’کھل جا سم سم۔ کھل جا سم سم۔ ۔ ۔ کھل جا سم سم۔ ۔ ۔ ‘‘کسی چٹان کے سرکنے کی زبردست گڑ گڑاہٹ سنائی دی۔ کچھ دیر تک گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ اس کے بعد مکمل خاموشی چھا گئی۔ برگد پر ٹنگی ہوئی قندیلوں کو قصہ گو نے پھر روشن کر دیا۔ چوپال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی کیفیت اپنے معمول پر لوٹ آئی۔ نووارد نے پوچھا ’’کون تھے وہ لوگ؟‘‘سب خاموش رہے۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نووارد نے پھر پوچھا: ’’کیا یہ گھڑسوار ہر رات یہاں سے گزرتے ہیں ؟ کیا ان کا مسکن اسی غار میں ہے ؟‘‘چوپال میں بیٹھے ہوئے لوگ اب بھی خاموش رہے۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ قصہ گو نے کہا: ’’کوئی نہیں جانتا انھیں۔ ۔ ۔ کوئی نہیں جانتا۔ ۔ ۔ ان کے اسرار جاننے کی کوشش میں اس بسی نے اپنے بیسیوں سپوت کھوئے ہیں۔ جو بھی اس مہم پر گیا لوٹ کر نہیں آیا۔ ‘‘یہ سنتے ہی نووارد کو اچانک سردی کا شدید احساس ہوا۔ وہ اپنی جگہ پر دبک کر بیٹھ گیا۔ وہ بوڑھا اب تک میدان میں حیرت زدہ سا کھڑا ہے۔ فاختہ اب اس کے داہنے شانے پر بیٹھی ہوئی ہے اور بوڑھے نے کتاب سینے سے لگا رکھی ہے۔ گدھا سعادت مندی سے اس کے پیچھے سر جھکائے ہوئے کھڑا ہے۔ پیٹھ پر اس کے وہ صندوق لدا ہوا ہے اور وہ صندوق مقفل ہے۔ میدان کے ایک سرے پر بے شمار صلیبیں ایستادہ ہیں۔ ان پر ٹنگے جسموں سے خون رس رہا ہے۔ سیاہ پروں اور نکیلی چونچوں والے پرندے اُڑتے اُڑتے آتے ہیں اور جھپٹ کر ان مصلوب زدہ جسموں کا گوشت نوچ چلے جاتے ہیں۔ میدان کے دوسرے سرے پر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے لوگ گنجفہ کھیل رہے ہیں۔ بوڑھا بآواز بلند کہتا ہے :
’’بھائیو! تمہاری بستی میں نووارد ہوں۔ لمبا سفر طے کرتا یہاں تک پہنچا ہوں۔ تھکا ماندہ ہوں۔ زادِ راہ سے محروم ہوں۔ آج سبات کا دن ہے، یعنی روزے اور آرام کا دن۔ اﷲ والا ہوں اس لیے تم سے سرائے کا پتہ پوچھتا ہوں، بتاؤ تو جا کر پڑ رہوں اور تم سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ آج سبات کا دن ہے یعنی روزے اور آرام کا دن۔ اس لیے عبادت کرو اس پروردگار کی کہ جس نے زمین آسمان بنائے اور دن رات کو چاند سورج کی قندیلوں سے روشن کیا۔ انھوں نے اس بات پر قہقہے لگائے اور بجائے اس کی ہدایت پر غور کرنے پر اس کے مال و متاع کا سودا کرنے لگے۔ بوڑھے نے کہا: ’’عزیزو! میرے مال و متاع کا سودا نہ کرو۔ یہ فاختہ اور یہ کتاب دونوں تمہارے ہیں اور اس گدھے کی پیٹھ پر لدا ہوا یہ صندوق بھی تمہارا ہے۔ میں تو ان کا امانت دار ہوں۔ ‘‘انہوں نے دریافت کیا:
’’اس صندوق میں کیا ہے ؟‘‘بوڑھا بولا: ’’تمہارا اثاثہ۔ ‘‘ان میں سے ایک کہ بچّا تھا کہ اس کا داہنا کان ندارد تھا بولا:
’’ہمارے نوشتوں میں لکھا ہے کہ پڑوس کی بستی سے کوئی آئے گا اور ہمارا پانسا ہم سے چرا لے جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قلندرانہ بھیس میں کہیں تم ہی تو وہ سارق نہیں ؟‘‘بوڑھا گلو گیر آواز میں بولا: ’’صاحبو چاہو جو کہہ لو، میں بُرا نہیں مانتا۔ ۔ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں وہ شخص نہیں کہ جس کی آمد کی تم خبر رکھتے ہو۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ تم اس کی پہچان نہیں رکھتے۔ ایک اعتبار سے تمہارا شبہ درست ہے۔ اس ٹھگ بازاری کے دور میں سب کچھ ممکن ہے۔ مجھ پر اعتبار کرو کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی آمد سے تم خوف زدہ ہو۔ مجھے سرائے کا پتہ بتاؤ تاکہ وہاں پہنچ کر میں اپنی شب بسری کا سامان کروں۔ ‘‘وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے اور بحث و مباحثہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ بوڑھا وہ سارق نہیں ہے جس کا نوشتوں میں ذکر آیا ہے۔ انہوں نے بوڑھے کو اپنے پاس بلایا اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہا۔ پھر انہوں نے اسے مچھلی اور روٹی پیش کی اور پیالہ شراب کا لبریز کر کے اس کے آگے رکھ دیا۔ بوڑھا روٹی کھاتا جاتا تھا اور شراب کے گھونٹ لیتا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک جو کہ بُچا تھا جس کا داہنا کان ندارد تھا بولا:
’’ اے بوڑھے ! تو نے ابھی ابھی بتاتا تھا کہ تو روزے سے ہے اور دن سبات کا ہے۔ اسے عبادت میں گزارنا چاہیے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تو نہ صرف روٹی کھا رہا ہے بلکہ شراب بھی پئے جا رہا ہے اور اس گنجفے کے کھیل میں تیری دلچسپی بھی شامل ہے۔ سچ سچ بتا کہ تو کون ہے ؟‘‘بوڑھا بولا: ’’یہ سچ ہے کہ میں روزے سے تھا اور دن عبادت میں گزار دینا چاہتا تھا۔ اگر تم مجھے اپنے میں شامل نہ کرتے اور مجھے سرائے پہنچا دیتے تو میں ہرگز اپنا روزہ نہ توڑتا۔ لیکن تم نے مجھے اپنے میں شامل کر لیا اس لیے میں نے پروردگار سے معافی طلب کی اور اپنا تقویٰ تمہاری خوشنودی کی نذر کر دیا۔ تم جانتے ہو کہ روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔ وہ بذات خود گدلی ہو جاتی ہے۔ میں نے روشنی کو گدلا ہونے سے بچا لیا۔ ‘‘وہ اس کے دلائل سے قائل ہو گئے اور ناگواری سے اس بُچے کو دیکھنے لگے، اس پر بُچے نے اپنی ہتک محسوس کی اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگا۔ کچھ دیر بعد بوڑھا اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹہلتا ہوا ان صلیبوں کے قریب جا پہنچا۔ بُچا، کہ جو سائے کی طرح بوڑھے کے ساتھ ساتھ تھا بولا:
’’اے بوڑھے تو کس ملک کا باشندہ ہے ؟ اور کس ملک کو جاتا ہے ؟‘‘
’’نہ تو میرا کوئی آغاز ہے نہ انجام! میں نے زندگی بھر مسافری کی ہے۔ شہر شہر، قریہ قریہ گھوما ہوں۔ جگہ جگہ رک کر اس کتاب میں درج حمد سناتا ہوں۔ لوگ سن کر خوش ہوتے ہیں تو میرے آگے کچھ رکھ دیتے ہیں اور ناراض ہوتے ہیں تو آوارہ کتوں کو میرے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ تب میں ان کے حق میں دعائیں کرتا وہاں سے چل دیتا ہوں۔ مگر تم بتاؤ کہ ان صلیبوں پر مصلوب کئے گئے لوگ کون؟ اور یہ لوگ یہاں کیونکر پہنچے ہیں ؟‘‘بُچے نے ایک سمت انگلی اٹھا کر میدان کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ اور بولا ’’وہ رہا تیرے سوال کا جواب۔ ‘‘بوڑھے نے دیکھا کہ دور کوئی شخص اپنی پیٹھ پر ایک وزنی صلیب اٹھائے گرتا پڑتا چلا آتا ہے اور بے شمار کتے اس کے تعاقب میں ہیں۔ بوڑھا تیزی سے اس شخص کی طرف بڑھا۔ بُچے نے چیخ کر کہا:
’’رک جا بڈھے، کیا کرتا ہے۔ وہ کتے تیری تکا بوٹی کر دیں گے۔ خاطر جمع رکھ، وہ کتے وہاں سے لوٹ جائیں گے۔ ان کا کام خطاکار کو وہاں تک پہنچانا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمارے دائرۂ اختیار میں آ جاتا ہے۔ ‘‘یہ سن کر بوڑھا اپنی جگہ پر پتھر ہو گیا۔ لیکن اب وہ بڑی دردمندی سے اس سمت دیکھ رہا تھا۔ کھچ دیر بعد اس نے دیکھا کہ کتے واقعی اس صلیب بردار شخص کو چھوڑ کر واپس ہو رہے تھے۔ آن واحد میں آسمان پر کالے پروں اور نکیلی چونچوں والے پرندے منڈلانے لگے۔ ان کی کریہہ الصوت چیخوں سے فضا مکدّر ہو گئی۔ صلیب کے بوجھ سے نڈھال وہ شخص لڑکھڑاتا ہوا ان کے قریب آیا۔ بُچے نے جھپٹ کر اس کے عَبا کی جیب میں سے ایک پرزہ نکالا اور بآواز بلند پڑھنے لگا:
’’سردار کاہنوں، فریسیوں اور صدر عدالت کے متفقہ فیصلے کے مطابق اسے صلیب دی جاتی ہے۔ اس کا جرم ہے کہ اس نے ہمارے مقدس پانسے کو چرانے کا قصد کیا تھا۔ ‘‘بوڑھے نے صلیب بردار شخص کو سہارا دیا کہ وہ کھڑا ہو سکے۔ ایک نظر میں یوں لگتا تھا کہ گویا اس کے جسم پر کئی لوگوں نے اپنے اپنے ہتھیاروں کو رگڑ رگڑ کر اَب دی ہو۔ وہ جو میدان کے دوسرے سرے پر بیٹھے گنجفہ کھیل رہے تھے صلیب بردار شخص کو دیکھ چکے تھے۔ بازی کے خاتمے پر بدن اینٹھتے، سستی اتارتے اٹھے۔ پھر انہوں نے پاس ہی پڑا ہوا ایک وزنی تھیلا اٹھایا اور اس طرف کو چل پڑے۔ لذت اور مسرت سے سرشار جب وہ سادیّت پرست بُچا کہ جس کا داہنا کان ندارد تھا اپنے ساتھیوں کو پرزے پر درج وہ مژدہ سنانے کو جوں ہی دوڑا صلیب بردار شخص نے موقع غنیمت جان کر بوڑھے سے عاجزانہ درخواست کی۔
’’اے پیرِ باراں دیدہ! وہ جو مشرق کی سمت ٹیلہ نظر آتا ہے اس کے پرلی طرف ایک بستی ہے۔ میں ساکن اس بستی کا ہوں۔ میری التجا ہے کہ وہاں جا کر میرا سارا ماجرہ کہہ سنا اور دیکھ کہ میرے سینے سے بندھی ایک کتاب ہے تو اسے کھول کر اپنے پاس محفوظ کر لے اس میں وہ پانسہ دبا ہے جس سے ان ستمگاروں کا پانسہ بدلنے اور پھر اسے اسی کتاب میں دفن کر کے پھونک دینے کا فریضہ بستی کے حاکم نے مجھ کو سونپا تھا۔ تو یہ کتاب ان کو بہ حفاظت پہنچا دینا۔ ‘‘بوڑھے نے پھرتی سے وہ کتاب اپنی تحویل میں لے لی اور ایک نظر میں اس کا جائزہ بھی لے لیا۔ کتاب کے جوف میں وہ پانسہ اب بھی موجود تھا۔ بوڑھے نے اپنے دل میں اس نوجوان کے تعلق سے عجیب سا لگاؤ محسوس کیا۔ جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ دلکشی عین رخصتی کے وقت بے نقاب ہوئی تھی۔ اور جبر کی بارود سے مسمار کئے گئے وجود سے اٹھتا ہوا دھواں بھی بوڑھے نے اس کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا۔ بوڑھے نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر قسم کھائی کہ وہ بذاتِ خود یہ فریضہ انجام دینے کی کوشش کرے گا ورنہ اس کی سونپی ہوئی امانت بستی کو پہنچا دے گا۔ نوجوان درد مندی سے مسکرایا اور بولا:
’’اب مجھ پر موت کی اذیت گراں نہ گزرے گی۔ میں اسے آسانی سے برداشت کر لوں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر نوجوان خاموش ہو گیا۔ اس کے الفاظ بوڑھے کے کانوں میں بڑی دیر تک گونجتے رہے۔ وہ بڑے اطمینان سے چلتے ہوئے وہاں پہنچے۔ انہوں نے بوڑھے کو پَرے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ بوڑھا کچھ فاصلے پر پیڑ کے سائے میں بیٹھے ہوئے اپنے گدھے کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا کہ جس کی پیٹھ پر وہ صندوق لدا ہوا تھا اور وہ صندوق مقفل تھا۔ فاختہ بے چینی کی حالت میں بوڑھے کے ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر آ جا رہی تھی۔ انہوں نے اس کی پیٹھ سے بندھی صلیب کھول دی اور صلیب کو فرش پر لٹا دیا۔ پھر انہوں نے اس کے عبا کو اس کے جسم سے جدا کیا۔ پھر اسے صلیب پر یوں لیٹنے کا حکم دیا کہ اس کے شانوں تک کا جسم صلیب کے عمودی حصے پر رہے اور دونوں بازو کھل کر صلیب کے افقی حصے پر پھیل جائیں۔ وہ صلیب پر لیٹ گیا اور اس نے اپنے جسم کو ان کی ہدایت کے مطابق صلیب پر قائم کر دیا۔ انہوں نے اس وزنی تھیلے میں سے تسمے نکالے اور اس کے صلیب پر دائیں بائیں پھیلے ہوئے بازوؤں کو ان تسموں سے صلیب کے ساتھ کس دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر یوں رکھا کہ اس کی دونوں پنڈلیاں آپس میں جڑ گئیں۔ انہوں نے اس کی پنڈلیوں کو بھی ان تسموں کی مدد سے صلیب کے ساتھ جکڑ دیا۔ جب وہ ایک دوسرے سے مشورہ کر کے مطمئن ہو گئے کہ وہ صلیب سے خوب اچھی طرح جکڑا جا چکا ہے یہاں تک کہ اپنے ہاتھ پیر کو جنبش دینے سے بھی مجبور ہے تو انہوں نے اس بُچے کو کہ جس کا داہنا کان ندارد تھا اور جو دور کھڑا پیشاب کر رہا تھا یوں اشارہ کیا کہ گویا جانور باندھ کر گرایا جا چکا ہے اور ذبیحہ کے لیے تیار ہے۔ ان کا اشارہ پاتے ہی بُچا اچھلتا کودتا، قلقاریاں مارتا ہوا وہاں جا پہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی بُچے نے اس وزنی تھیلے میں سے بالشت بھر لمبے اور دو دو انگل موٹے تین عدد کیلے نکالے، پھر ایک وزنی ہتھوڑا نکالا۔ یہ منظر بوڑھے کے کندھے پر پہلو بدلتی فاختہ دیکھ رہی تھی۔ وہ گدھا بھی دیکھ رہا تھا کہ جس کی پیٹھ پر وہ صندوق لدا تھا اور وہ صندوق مقفل تھا۔ یہ منظر بُچے کے رفقاء بھی دیکھ رہے تھے لیکن یہ منظر وہ بوڑھا نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں میچ رکھی تھیں لیکن وہ اپنے دیگر حواس اربعہ کو پابند نہ کر سکا۔ وہ تمام حواس اس منظر کو آنچ دیتے ہوئے بوڑھے کے ذہن میں منتقل کر رہے تھے۔ بُچے نے بجلی کی سرعت سے ان بالشت بھر لمبے اور دو دو انگل موٹے کیلوں کو یکے بعد دیگرے نوجوان کی کلائیوں اور نچلے پنجوں میں، اس وزنی ہتھوڑے سے ٹھونک ٹھونک کر پیوست کر دیا۔ نوجوان کی ضبط کی ہوئی سسکیوں سے وہ وزنی صلیب لرزنے لگی۔ بوڑھے کے کندھے پر پہلو بدلتی فاختہ تڑپ کر گری اور جاں بحق ہو گئی۔ بوڑھے نے فاختہ کو کانپتی ہتھیلیوں میں اٹھایا، پھونک پھونک کر اس کے خاکستری پَروں سے گرد اُڑائی، اسے آنکھوں سے لگایا اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ قصہ گو نے آسمان پر نظر ڈالی اور چوپال میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھرتے اور محویت سے قصہ سنتے ہوئے لوگوں سے کہا ’’تو صاحبو! آسمان پر تارے ایک ایک کر کے رخصت ہوتے ہیں اور مشرق میں صبح کاذب کا اجالا دکھائی پڑتا ہے۔ اس لیے قصے کو سمیٹتا ہوں تاکہ کل کوئی نووارد آ کر یہ نہ پوچھے کہ فاختہ کی موت کا سبب کیا تھا۔ تو صاحبو ! ان سبھوں نے مل کر اس صلیب کو تین کھونٹوں سے باندھ کرایستادہ کیا اور اپنا سامان بٹور کر رخصت ہونے لگے تو انہیں دور سے دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے بوڑھے کی آواز سنائی دی۔ قریب پہنچ کر انہوں نے بوڑھے سے دریافت کیا۔
’’کیا تو اس مصلوب کے لیے روتا ہے کہ جس نے ہمارے مقدس پانسے کو چرانے کی کوشش کی تھی اور ناکام ہوا۔ یا ہماری سزا کی اذیت ناکی پر تیرا جگر پارہ پارہ ہے ؟‘‘بوڑھا اپنی ہچکیوں پر قابو پاتا ہوا بولا:
’’اس نوجوان کی موت کا مجھے اتنا رنج نہیں کہ جتنا ملال مجھے اس فاختہ کی موت کا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر بوڑھے نے اپنی ہتھیلیوں میں پڑی فاختہ ان کے قدموں میں رکھ دی اور بولا:
’’مجھے فاختہ کی موت کا اس قدر ملال نہیں کہ جس قدر غم مجھے اپنے مقدس کلام کے کھو جانے کا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر بوڑھے نے اپنے عبا کی جیب سے وہ کتاب نکالی کہ جس کے ہر صفحے پر حمد درج تھی۔ ۔ ۔ لیکن اب کتاب کا ہر صفحہ کورا تھا۔ ۔ ۔ بوڑھے نے وہ کتاب بھی ان کے قدموں میں رکھ دی اور بولا:
’’مجھے اس مقدس کلام کو کھونے کا اتنا غم نہیں کہ جتنا صدمہ مجھے اس گدھے کی بے حسی کا ہے۔ ‘‘بوڑھے نے اس پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ صندوق اب بھی گدھے کی پیٹھ پر لدا ہوا تھا اور وہ صندوق اب بھی مقفل تھا اور وہ گدھا پیڑ کے ٹھنڈے سائے میں بیٹھا ہوا جگالی کر رہا تھا۔
٭٭

——————————————————————————————————————–

انور قمر کا تعلق ستر کے بعد کی اس نسل سے ہے جو جدیدیت کے رجحان کے تحت افسانے لکھ رہی تھی۔ ان کی یہ کوشش شعوری تھی یا لاشعوری اس بارے میں پورے وثوق سے تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا لیکن ا س دور میں جب تجریدی، علامتی، تمثیلی، انداز کے افسانے لکھے جا رہے تھے اور ہر افسانہ نگار اپنی شناخت بنانے کے لیے اپنے افسانے میں ایسے علامتوں، تمثیلوں کا استعمال کر رہا تھا جو اس کو دیگر افسانہ نگاروں سے ممتاز بنانے میں مددگار ثابت ہو انور قمر کے قلم سے بھی کچھ ایسے افسانے نکلے جنہوں نے نہ صرف ان کی شناخت بنائی بلکہ انھیں ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز اور جداگانہ مقام بھی عطا کیا۔ اس دور میں ادب اور قارئین کا رشتہ بڑے نازک دور سے گذر رہا تھا۔ جدیدیت کے تحت جو ادب لکھا جا رہا تھا اس کو قارئین کا ایک حلقہ پسند بھی کر رہا تھا تو ایک بڑا حلقہ اس سے بیزار ہو کر ادب سے اپنا تعلق توڑ بیٹھا تھا اور عام قاری جدیدیت کے رجحان کے تحت لکھے ادب کو پڑھنے سے کتراتا تھا۔ اس وقت بھی انور قمر نے کچھ ایسے افسانے لکھے جن میں عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا مواد تھا۔ ان کا افسانہ ’چوپال میں سنا قصہ، بھی اسی زمرے کا افسانہ ہے۔ انور قمر کے زیادہ تر افسانوں میں علامتیں ہوتی ہیں لیکن علامتیں اتنی صاف و واضح ہوتی ہیں کہ وہ ابہام کا شکار نہیں ہوتی ہیں۔ انور قمر خاص طور پر اپنے افسانوں میں جو واقعات پیش کرتے ہیں وہ واقعات قارئین کی دلچسپی افسانے میں بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں بیانیہ ہے لیکن بیانیہ افسانے پر حاوی نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بیانیہ علامتوں، تمثیلوں کی دھند میں لپٹا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قاری جب انور قمر کا افسانہ پڑھنا شروع کرتا ہے تو اسے ایک پراسرار ماحول سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ افسانہ پڑھتے ہوئے اسرار کی ایک طلسمی نگری میں سفر کر رہا ہے۔ جہاں قدم قدم پر حیرت انگیز واقعات اس کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں اور قارئین کے ذہن میں ایک تجسس شروع سے آخر تک چھایا رہتا ہے جو اسے افسانے کی پہلی سطر سے آخری سطر تک پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ’چوپال میں سنا ہوا قصہ، پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قارئین کوئی پرانی داستان یا قصہ پڑھ یا سن رہے ہوں۔ اس افسانے میں انور قمر نے نہ صرف داستان گو کے کردار کو پیش کیا ہے بلکہ داستان گوئی کے لیے ضروری لوازمات اور ماحول کی بھی بہت اچھی عکاسی کی ہے۔ افسانے میں دو واقعات ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک طرح سے دونوں واقعات متوازی طور پر افسانے میں بیان کیے گئے ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ دونوں واقعات سچ مچ افسانے میں متوازی لکیروں کی حیثیت رکھتے ہیں جو چلتے تو ساتھ ساتھ ہیں لیکن نہ تو کبھی ایک دوسرے سے مل پاتے ہیں اور نہ ایک دوسرے سے مل پائیں گے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ دو واقعات میں ایک اس چوپال گاؤں اور داستان گو کا قصہ جہاں داستان گو وہ قصہ سنا رہا ہے۔ دوسرا وہ قصہ جو داستان گو چوپال میں گاؤں والوں کو سنا رہا ہے۔ بظاہر دونوں میں کوئی ربط نہیں ہے۔ صرف اتنا ربط ہے کہ چوپال میں گاؤں والے اس قصہ کو سن رہے ہیں۔ اس قصہ کا اس گاؤں، گاؤں کے لوگوں، داستان گو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چوپال میں داستان گو اور گاؤں والے ہیں جہاں داستان گو وہ قصہ سنا رہا ہے۔ ان کے درمیان ایک مسافر بھی ہے جو رات گزارنے کے لیے اس گاؤں میں رُکا ہے اور اس قصہ کو سن رہا ہے۔ وہ کیوں کہ یہ گاؤں داستان گو اور داستان گو کے سنائے قصہ کے لیے نیا ہے اس لیے اس قصہ کو سنتے ہوئے اس کے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ لیکن نہ تو داستان گو اسے اس کے ان سوالوں کا کوئی جواب دے رہا ہے نہ گاؤں والے۔ اسی دوران گاؤں سے چالیس گھڑ سوار کا گزرنا اور کھل جا سم سم کا آواز کے ساتھ غار کا کھلنا اور پھر ان گھڑ سواروں کا گاؤں سے گزر جانا۔ ان گھڑ سواروں کی آمد پر گاؤں والوں کا دہشت زدہ ہو جانے کا بھی افسانے میں ذکر ہے۔ اس طرح انور قمر نے علی بابا چالیس چور کی کہانی کی ایک علامت کا استعمال اس افسانے میں کیا ہے۔ لیکن اس علامت کا نہ تو اس افسانے سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی افسانے میں بیان ہونے والے قصہ سے اس وجہ سے علامت ایک ضمنی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ قارئین چاہ کر بھی لاکھ کوشش کے باوجود اس علامت کا افسانے یا افسانے کے پلاٹ سے ربط کو جان نہیں پاتے ہیں۔ افسانے میں ایک بوڑھے کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جو زندگی سے بیزار ہے اس کے دل میں زندگی کے لیے کوئی کشش نہیں ہے۔ اس لیے وہ حاکم وقت کے ذریعہ ایک ایسی مہم پر بھیجا جا رہا ہے جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا ہے اور زندگی سے بیزار وہ بوڑھا خوشی خوشی اس مہم پر جانے کے لیے تیار ہے۔ حاکم وقت اسے ایک صندوق دیتا ہے جس میں ایک کتاب مقفل ہے۔ اس کتاب میں ایک پانسہ ہے اور بوڑھے کو اس پراسرار بستی کی جانب اسی لیے روانہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کتاب میں رکھے پانسہ سے اس بستی میں جفر یا چوسر کھیلنے والے لوگوں سے پانسہ بدل دے۔ بوڑھا جب اپنے کاندھے پر بیٹھی فاختہ اور اس گدھے کے ساتھ جس پر وہ مقفل صندوق رکھا ہے جس میں وہ کتاب ہے وہ پانسہ رکھا ہے جسے اسے بستی کے لوگوں سے بدلنا ہے کے ساتھ جب بستی میں پہنچتا ہے تو وہاں پانسہ سے کھیل کھیلنے والے لوگ اسے پہچان لیتے ہیں کہ وہ ان کا پانسہ چرانے آیا ہے کیوں کہ انھیں اس کا علم ہے۔ لیکن بوڑھا کمال ہوشیاری سے انھیں یقین دلا دیتا ہے کہ وہ ان کا پانسہ چرانے یا تبدیل کرنے نہیں آیا ہے اور وہ اس کی بات کا یقین بھی کر لیتے ہیں۔ اس بستی میں صلیبوں پر مصلوب لوگ ہیں جن کے جسم سے پرندے گوشت نوچ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پانسہ چرانے کی کوشش کی تھی اور انھیں ان کے اس فعل کی سزا دی جا رہی ہے۔ اس دوران صلیب کو تھامے شکاری کتوں سے خود کو بچاتا ایک نوجوان وہاں آتا ہے۔ اسے دیکھ کر پانسہ کھیلنے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص بھی ہمارا پانسہ چرانے آیا تھا اور اسے بھی پانسہ چرانے کی سزا دی جائے گی۔ اسے بھی مصلوب کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت وہ نوجوان بوڑھے کو بتاتا ہے کہ وہ قریب کی بستی کے حکمران کے ذریعے وہاں پانسہ چرانے کے کام کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کی سزا میں اسے مصلوب کر دیا جاتا ہے۔ اس کی سزا دیکھ کر بوڑھے کی فاختہ غم سے دم توڑ دیتی ہے اور بوڑھا فاختہ کی موت پر ماتم کرنے لگتا ہے۔ اسے فاختہ کے مرنے کا بھی دکھ ہے۔ اپنی اس کتاب سے ان حمدوں کی عبارتوں کے اُڑ جانے کا بھی دکھ ہے جنہیں وہ گا گا کر ساری دنیا کی سیر کرتا ہے اور اسے اپنے اس گدھے کی بے حسی کا بھی دکھ ہے جس اس کی صندوق اپنی پشت پر لادے ہوئے ہے۔ انور قمر نے بیانیہ کا سہارا لے کر اس افسانے میں اس پورے قصہ کو بیان تو کر دیا ہے لیکن پورے قصہ میں اور افسانے میں ایک ایسی پراسرار فضا کو قائم رکھا ہے جو قارئین کے ذہن پر چھائی رہتی ہے۔ بظاہر سیدھے سادے بیانیہ کو اپنے دامن میں لیے اس افسانے میں کئی علامتیں ہیں۔ جن کے مطالب کی تلاش میں قارئین کو ذہنی کسرت کرنی پڑتی ہے اور وہ ان علامتوں اور ان سے وابستہ واقعات کا مفہوم کی پہیلیاں بجھاتا رہ جاتا ہے۔ اس افسانے میں کئی علامتیں ہیں :زندگی سے بیزار بوڑھا، حاکم وقت، بے آدم بستی، پانسہ، صندوق میں مقفل کتاب، بوڑھے کے کاندھے پر بیٹھی فاختہ، چوسر یا جامز کا کھیل، ایک کان والا بچہ، صلیبوں پر مصلوب، سزا پانے والے لوگ، مصلوبوں کے جسموں سے گوشت نوچنے والے پرندے، پانسہ چرانے والوں کو سزادینے والے لوگ اور کتے وغیرہ وغیرہ۔ حاکم وقت کا حکم دراصل ہمارا سیاسی نظام ہے اور پانسہ کو چرانے کا حکم دراصل اس سیاسی نظام کے جبر اور استحصال کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ بوڑھے اور نوجوان کی اس پانسہ کی کوشش اس نظام کا شکار یا اس کے جبر میں گرفتار عام آدمی کو ظاہر کرتا ہے جس کی عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ پانسہ ایک ایسی قوت کا مظہر ہے جس سے مثبت تو نہیں لیکن منفی ہی کام لیے جاتے ہیں۔ نوجوان کو مصلوب ہوتا دیکھ کر اس کے دکھ اور درد پر فاختہ کا تڑپ تڑپ کر مر جانا انسان کی حساسیت کا مظہر ہے۔ ظلم کے خلاف احتجاج جیسے انسانی فطرت کا مظہر ہے۔ انور قمر نے اس افسانہ کا خاتمہ فاختہ کی موت اور فاختہ کی موت پر بوڑھے کے ماتم کے ساتھ ختم کر دیا ہے۔ بظاہر اس طرح نہ تو داستان گو کا قصہ ختم ہوتا ہے اور نہ گاؤں والوں اور اس گاؤں سے گزرنے والے چالیس گھڑ سواروں کا اسرار قارئین کے ذہن میں کھل پاتا ہے۔ انور قمر نے یہ افسانہ آج سے ۲۵ سال قبل لکھا تھا لیکن اس افسانے میں انور قمر نے جس نظام کی عکاسی کی ہے وہ جبر اور استحصال کا ماحول آج بھی اسی طرح دنیا میں موجود ہے وہ ذرا بھی نہیں بدلا ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے