غزلیں
عاکف غنی
اُٹھی ہیں دل میں مِرے اضطراب کی لہریں
دکھائی دیتی ہیں ہر سوُ سراب کی لہریں
وطن کی شکل بگاڑی ہے ایسی غربت نے
اُٹھی بھی کاش کہیں انقلاب کی لہریں
میں اپنے یار کی تعریف کس طرح سے کروں
برس رہی ہیں مسلسل شہاب کی لہریں
یہ کون بیٹھے ہیں میرے وطن کی کشتی پر
بہائیں اُن کو کبھی احتساب کی لہریں
مثال ہوں گی کبھی سچ بیانیا ں عاکف
نظر میں جم سی گئی ہیں یوں خواب کی لہریں
***
اے کاش کہ تم جرأت اظہار تو کرتے
اقرار نہیں تھا اگر ، انکار تو کرتے
خود ترک تعلق پہ پشیمان تو ہوتے
اس زیست کو اپنے لیے دشوار تو کرتے
رستے کی وہ دیوار جوتم نے تھی بنائی
ہاتھوں سے اسے اپنے ہی مسمار تو کرتے
یوں چھپ کے ہمیں غمزدہ کرنے کی بجائے
لا کر ہمیں رسوا سرِ بازار تو کرتے
عاکف کو بہت وصلِ حبیبی کا تو تھا شوق
تشنہ ہی رہی آرزو، دیدار تو کرتے
***