آدھی رات کو اُس نے اپنے گھر کے دروازے پہ دستک دی تو اُسے یوں محسوس ہوا کہ وہ ساری عُمر دستک دیتا رہے گا اور یہ دروازہ کبھی بھی نہیں کھُلے گا۔۔۔ وہ جوان ہو گیا تھا لیکن اُس کا دل پانچ سال کے بچے جیسا تھا، اُس نے بہت چاہا کہ وہ بڑا ہو جائے لیکن ہر بار ناکام رہا اب جب کہ وہ ایک پینتیس سال کا جوان آدمی تھا تو وہ کوشش کرتا کہ ہر اُس صورت حال سے بچے جس سے لوگوں کو اُس کے ’’پانچ سالہ دل‘‘ کے بارے میں معلوم ہو جائے۔۔
جب تک یہ آدمی دروازے پہ کھڑا ہے، اِتنی دیر میں ہم درج ذیل تین باتیں پڑھ لیتے ہیں۔
۱: افشین نے ایک عمارت کے چوتھے فلور سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔
۲: افشین کے باپ نے چار لاکھ کا انگلش بُل ڈاگ منگوا لیا۔۔
۳: افشین نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر لکھا ’’میں اِن زہریلے مچھروں سے تنگ ہوں، شاید میں جلد مر جاؤں‘‘
بھلا اِن باتوں کا آپس میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ بہت سی باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا۔۔
اِس کہانی کو لکھنے کے لیے مجھے مکمل خاموشی چاہیے جو ایک کمرے کے مکان میں میسر نہیں سو مجھے بار بار گلی میں جا کر سگریٹ پھونک کر کرداروں کے بارے سوچنا پڑتا ہے۔ سو آپ کو وقفوں وقفوں میں مختلف کرداروں کی کہانی پڑھنا ہو گی۔۔۔ میری بیوی کا خیال ہے کہ کہانیاں لکھنے سے گھر نہیں چل سکتا، میرا بھی یہی خیال ہے لیکن میں اب کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ وہ مجھے بتا رہی ہے کہ میرے بھائی نے اپنا مکان لے لیا ہے۔ ’’ہم کب تک کرائے کے ایک کمرے میں رہیں گے؟۔‘‘ میرے پاس اِس بات کا کوئی جواب نہیں۔۔۔
میں سگریٹ پینے گلی میں چلا جاتا ہوں۔۔۔ واپسی پر میری بیوی کی آنکھ لگ چکی تھی۔۔۔ آئیے! ہم کہانی کی جانب لوٹتے ہیں۔۔
اب جب کہ وہ بڑا ہو چکا تھا لیکن اُس کا دل بالکل بچوں جیسا ہونے کی وجہ سے وہ راتوں کو روتا رہتا۔ اُس کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ اخبار نہ پڑھے لیکن جب کبھی لوگ اُس کے سامنے کسی خبر پر بحث کرتے تو وہ کوئی جواب نہ دیتا، شاید لوگ موضوع بدل لیں۔ قتل و غارت اور دھماکوں کی خبروں سے وہ بے انتہا اُداس ہو جاتا۔ لیکن اُس شہر کے لوگ زندگی کی بجائے موت کے بارے میں زیادہ گفتگو کرتے، وہ جلدی جلدی اپنے گھر پہنچتا اور ساری رات کانوں میں ہیڈ فون لگا کر گانے سُنتا رہتا۔ پھر کمبل میں منہ چھپا کر روتے روتے سو جاتا۔۔ جوں جوں اُس کی عمر بڑھتی جا رہی تھی، شہر بدلتا جا رہا تھا اور قتل و غارت کی خبریں بڑھ گئی تھیں، وہ دعا کرتا کہ ’’یا خدا اِس شہر کو کوئی قانون عطا فرما‘‘
وہ نوجوان ابھی تک دروازے پہ کھڑا کانپ رہا ہے۔ لیکن دروازہ نہیں کھُل رہا۔۔ کوئی تو دروازہ کھولے کہ بڑی مشکلوں کے بعد اُسے اپنا گھر ملا تھا۔ یہاں پہنچنے سے پہلے وہ شہر کی کئی گلیاں دوڑتا رہا تھا، در اصل اُس کے پیچھے کتے پڑ گئے تھے، ایک گلی کے سِرے پر چند لڑکے کتوں کی لڑائی کرانے کا سوچ رہے تھے، رات کافی بیت چکی تھی اور اُس نے دیکھا کہ تمام کتے نیند میں اونگھ رہے ہیں، لڑکوں نے کتوں کو چابک رسید کیے تو کتوں نے بھونک بھونک کر سارا شہر جگا دیا۔۔۔
وہیں ایک بچی رو رہی تھی۔۔۔
’’یہ رو کیوں رہی ہے؟‘‘ اُس نوجوان نے سوچا، شاید وہ بھی کتوں سے ڈر گئی ہے۔ وہ اُسے حوصلہ دے کر چپ کرانا چاہتا تھا لیکن اُس کا اپنا ڈر کے مارے برا حال تھا۔ سو اُس کی آواز اندر ہی دب گئی۔۔ وہ ننھی لڑکی دوڑ کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ لیکن یہ کیا وہ پھر واپس آ رہی ہے۔ شاید آگے گلی بند تھی یا پھر آگے بھی کتے تھے، اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے شہر کو کتوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔۔ حالاں کہ افشین نے اُسے درج ذیل تین باتیں بتائی تھیں۔۔
۱: اِس شہر میں ایسے مچھر ہیں جن کے سر آدمیوں کی طرح ہیں اور روز بروز اِن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔
۲: میرے باپ نے میری ماں کو طلاق دے دی ہے، وہ باہر سے کتے امپورٹ کرتا تھا۔ لیکن میری ماں کو اعتراض تھا سو اُس نے طلاق دے دی۔۔۔
۳: اب میں جہاں رہتی ہوں وہاں ہر طرف مچھر ہی مچھر ہیں، مجھے اُمید ہے تم مجھے اِس شہر سے ضرور دور لے جاؤ گے۔
اُس ننھی لڑکی کی آنکھوں میں ایسا خوف تھا جو کتوں اور لڑکوں کے سوا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا۔۔
وہ آدمی کہ جس کا دل پانچ سال کے بچے جیسا تھا، ڈر گیا اُس نے سوچا ’’اِن کتوں کو کوئی روکتا کیوں نہیں؟‘‘
لیکن اِس شہر میں اب کوئی کسی کو نہیں روک سکتا تھا۔۔
یہ بالکل نیا شہر تھا، پرانا شہر آہستہ آہستہ معدوم ہوتے ہوتے آج مکمل طور پہ گُم ہو گیا تھا۔
وہ وہاں سے بھاگا کہ اُسے پرانا شہر ڈھونڈنا تھا۔۔۔
’’کیا یونہی بھاگتا جاؤں، بھاگتا جاؤں تو مجھے گُم ہوا شہر مل جائے گا؟‘‘ اُس نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا۔
’’نہیں، نہیں، نہیں۔۔۔ گُم ہوئے شہر کبھی نہیں ملتے‘‘ اندر سے جواب ملا تھا۔۔۔
وہ اِس نئے شہر سے بھاگ جانا چاہتا تھا، چند روز پہلے افشین نے اُسے بتایا تھا کہ ’’وہ تو اِس شہر سے دور جانے والی ہے بہت دور بلکہ خواب میں اُس نے ایک گاڑی بھی پکڑ لی تھی، جس پہ وہ بغیر ٹکٹ سوار ہو گئی تھی اور اُس نے کئی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے یہ شہر پار کر لیا تھا، خواب میں انسان بہت تیز سفر کرتا ہے، صدیوں بھرا دن لمحوں میں کٹ سکتا ہے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے یہ زندگی عرصۂ خواب ہو؟‘‘ اُس نے افشین سے پوچھا تھا۔
’’نہیں بالکل نہیں، یہاں ایک ایک لمحہ صدیاں بن گیا ہے یہ خواب نہیں ہو سکتا‘‘ افشین نے کہا تھا۔۔
’’اِس سے پہلے کہ دالیں سبزیوں کے بھاؤ، سبزیاں گوشت کی قیمت پر بکیں اور گوشت ہماری قوتِ خرید سے باہر ہو جائے۔ ہمیں اُس سے پہلے اِس شہر سے بھاگ کر شادی کر لینی چاہیے‘‘ افشین نے کہا تھا۔
’’لیکن میری تو شادی ہو چکی ہے۔ میرا ایک بچہ بھی ہے، پھر بھی تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو تو سنو، ہم ضرور شادی کر لیں گے، بس کچھ رقم میرے ہاتھ آ جائے، میں روپے جمع کر رہا ہوں، مجھے کچھ وقت چاہیے‘‘
’’وقت ہی تو نہیں ہے‘‘ افشین نے کہا تھا اور اُس کے پاس واقعی وقت نہیں تھا، اُس نے آج ایک بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔۔۔ اُس شہر میں اب ایسا کوئی قانون نہیں تھا جس سے یہ ثابت کیا جا سکتا کہ اُس نے بلڈنگ سے چھلانگ لگائی تھی یا اُسے مچھروں نے نیچے پھینکا تھا۔۔
وہ ڈرا ہوا لڑکا بھاگتا بھاگتا ایک گلی میں داخل ہوا جو اُس کی اپنی گلی ہی کی طرح تھی لیکن اُس کا گھر کہیں موجود نہیں تھا۔۔۔ صبح تک تو اُس کا گھر اِسی گلی میں موجود تھا، معلوم نہیں اب اُس کا گھر کہاں ہے۔۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا ہاتھ میں کتے کی رسی پکڑے اُس کے سامنے آ گیا، لڑکے اور کتے کی آنکھوں میں وحشت صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔
’’دیکھو مجھ سے لڑنا مت، مجھے لڑنا نہیں آتا‘‘ اُس نے گھبرا کر کتے والے نوجوان سے التجا کی۔
لڑکے نے اُس کا گریبان پکڑ لیا اور ایک زور دار تھپڑ اُسے رسید کیا۔۔
’’دیکھو مجھے چھوڑ دو میں ڈرا ہوا انسان ہوں، میرے ماں باپ بھی ڈرے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے سکھایا تھا کہ کسی سے مت لڑنا‘‘
لڑکے نے اُسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا ’’سالے اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی بھی ڈرتے ہو، یہ لو کتا اور شہر کی گلی گلی میں گھومو‘‘
’’کتا۔۔۔ نہیں مجھے کتوں سے خوف آتا ہے‘‘
’’خوف؟ اب بھلا کس بات کا خوف؟ اب تو شہر میں انسانوں سے زیادہ کتے ہیں۔۔۔‘‘
وہ وہاں سے بھاگا تو کتے والے لڑکے نے پیچھے سے آواز لگائی تھی ’’نئے شہر میں رہنے کے لیے ہمارے جیسے ہو جاؤ، ورنہ تمہیں شہر چھوڑنا پڑے گا‘‘
وہ بھاگتا رہا، بھاگتا رہا حتیٰ کہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔۔۔ لیکن اب دروازہ نہیں کھُل رہا تھا۔۔
’’آپ رات کے اِس وقت باہر کیوں گئے تھے؟‘‘ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں در اصل میری بیوی کی آنکھ پھر کھُل گئی ہے۔
’’سگریٹ پینے گیا تھا‘‘ میں نے اُسے بتایا۔
’’چار پیسے جو کماتے ہو، وہ بھی دھوئیں میں اُڑا دیتے ہو۔۔۔ اِس بچے کو دیکھو، کل کو اِسے سکول جانا ہے کچھ بننا ہے کیا تم نے اِس بارے کچھ سوچا ہے؟‘‘ میرے پاس اِن میں سے کسی سوال کا جواب نہیں۔۔
رکیے! میں سگریٹ پی کر آتا ہوں۔
’’اب پھر باہر جا رہے ہو۔۔۔؟ تم کبھی بھی ہمارے بارے نہیں سوچتے‘‘
میں اپنے ایک کمرے کے مکان سے باہر آ جاتا ہوں، باہر بے انتہا سردی ہے۔ لیکن میرے اندر آگ جل رہی ہے، سگریٹ سلگا کر میں نے سامنے دیکھا تو ایک آدمی تھر تھر کانپ رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
آدمی نے سر اُٹھایا۔۔۔
’’تم؟؟؟؟؟‘‘
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو، تم تو کہانی میں تھے‘‘ میں نے اُس سے پوچھا۔
اُس آدمی نے میرا گریبان پکڑ لیا۔
’’سالے، مجھے یہاں اکیلا کھڑا کر کے تم نے اچھا نہیں کیا، شہر میں ہر طرف کتے ہی کتے دندنا رہے ہیں اور یہ چوٹیں دیکھو جو بھاگ بھاگ کر لگی ہیں، اب یہ دروازہ کھلواؤ ورنہ میں خوف سے مر جاؤں گا‘‘ وہ رونے لگ گیا۔
’’لیکن تم تو کہانی میں تھے تم یہاں کیسے پہنچے ہو؟‘‘
’’دروازہ کھلواؤ، میں مر جاؤں گا، یہ شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہا‘‘ وہ چلایا۔
’’جب اِتنا حوصلہ نہیں تھا تو محبت کیوں کی تھی؟‘‘ میں چلایا۔
’’میں نے تو اُسے بتایا بھی تھا کہ میرا دل ایک پانچ سال کے بچے جتنا ہے، میں اِن کتوں اور مچھروں سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا، خدا کے لیے دروازہ کھلواؤ میرا دل خوف سے پھٹ جائے گا‘‘
’’اندر آ جائیے باہر بہت سردی ہے‘‘ میری بیوی نے کھڑکی سے کہا تھا۔
٭٭٭