تیرے نام اور تیرے پاک تصور کو
مسندِشوق پہ بٹھلاؤں اور پیش کروں
اپنی محبت اور موّدت کے سب پھول
اپنی نظموں کے سب حرف
نچھاور کر دوں
تیرے قدموں میں ہی بیٹھے بیٹھے،اپنی
باقی عمر کا ہر پل سرشاری میں گزاروں
اب تو یہی تمنا ہے کہ جیسے بھی ہو
میرے پیارے!تُو مجھ سے راضی ہو جائے
میری اس بے معنی اور بے کار زندگی میں
کچھ تو معنی بھر جائیں
اور کچھ تو ازالہ ہو جائے !
٭٭٭