کریم بابا نہایت خوش خلق، خوش مزاج و خوش گفتار شخص تھے۔ ہر ایک سے دعا سلام کرنا، حال چال پوچھنا، گرم جوشی سے ملنا ان کا معمول تھا اللہ نے ان کو فقیری میں امیری عطا کی تھی۔ دولت تو آنی جانی شے ہے۔ جن اوصاف حمیدہ کی بنیاد پر بندہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق بنتا ہے وہ سب ان میں موجود تھے۔ میری ملاقات ان سے اکثر پارک میں صبح کی سیر کے دوران ہوا کرتی تھی۔
میں نے کئی مرتبہ پوچھا، ” بابا آپ کہاں رہتے ہیں؟ ” اس سوال کا جواب وہ ہمیشہ ٹال جاتے۔ ایک روز میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج پوچھ کر ہی دم لوں گا۔ آخر کار وہ میرا سوال مزید نہ ٹال سکے اور پارک کے کونے کے پاس بنے ایک مکان کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ ان کا اشارہ اولڈ ایج ہوم کی جانب تھا۔ وہ یہ راز مجھ سے مخفی رکھنا چاہتے تھے۔ میں یہ جان کر اداس ہو گیا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میرا بیٹا اور بہو دونوں ڈاکٹر ہیں۔ ان کا کام ہی ایسا ہے ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ پوتا، پوتی بھی ہیں ما شاء اللہ، بورڈنگ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ تنہا گھر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ اس لئے یہاں چلا آیا۔ یہ دیکھو میرے بیٹے کا خط کل ہی مجھے ملا ہے۔ لکھا ہے ابا جان گھر آ جائیں آپ کی بہت یاد آتی ہے۔ ”
بابا سے ملنے کا اشتیاق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا۔ جس دن نہیں ملتے تھے اس دن دل کہیں نہیں لگتا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک ہفتے سے بابا پارک میں نہیں آئے۔ میں بے چین ہو اٹھا۔
چنانچہ اولڈ ایج ہوم کا رخ کیا۔ معلوم ہوا بابا سخت علیل ہیں۔ تین چار روز سے ایک لقمہ تک نہیں کھایا۔ میں روز صبح شام ان کی عیادت کے لئے جاتا تھا۔ ان کی حالت روز بروز بگڑتی چلی گئی۔ مگر جب تک ہوش و حواس درست رہے اس سے قبل کہ میں ان کی خیریت دریافت کرتا وہ خود مسکرا کر مجھ سے میری خیریت پوچھ لیتے اور کہتے ان شاء اللہ جلد اچھا ہو جاؤں گا۔ اور حسب معمول پارک میں ملا کروں گا۔ میں بمشکل ان شاء اللہ کہہ پاتا۔
ایک روز جب میں وہاں پہونچا تو معلوم ہوا بابا اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیُہِ رَاجِعُوُنَ۔ ایک شخص بابا کی صندوق کے پاس بیٹھا زار و قطار رو رہا تھا۔ مجھے یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ یہ بابا کا ڈاکٹر بیٹا تھا۔ پورا صندوق خطوط سے بھرا ہوا تھا جو بقول بابا ان کے ڈاکٹر بیٹے نے لکھے تھے۔
٭٭٭