گذاشتیم و گذشیتم و بودنی ہمہ بود
شدیم و شد سخنِ ما فسانۂ اطفال
یہ نشان ہمارے خاندان میں پشتوں سے ہے۔ بلکہ جہاں سے ہمارے خاندان کا سراغ ملنا شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کا ہمارے خاندان میں موجود ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی تاریخ ہمارے خاندان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
ہمارے خاندان کی تاریخ بہت مربوط اور قریب قریب مکمل ہے، اس لیے کہ میرے اجداد کو اپنے حالات محفوظ کرنے اور اپنا شجرہ درست رکھنے کا بڑا شوق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان کی تاریخ شروع ہونے کے وقت سے لے کر آج تک اس کا تسلسل ٹوٹا نہیں ہے۔ لیکن اس تاریخ میں بعض وقفے ایسے آتے ہیں۔ ۔ ۔
میرا باپ ان پڑھ آدمی تھا اور معمولی پیشے کیا کرتا تھا۔ اسے کئی ہنر آتے تھے۔ بچپن میں تو مجھے یقین تھا کہ اسے ہر ہنر آتا ہے، لیکن اس کا اصل ہنر معماری کا تھا، اور یہی اس کا اصل پیشہ بھی تھا، البتہ اگر موسم کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اس کو معماری کا کام نہ ملتا تو وہ لکڑی پر نقاشی یا کچھ اور کام کرنے لگتا تھا۔
میری پرورش اس کے زانوؤں پر ہوئی اور آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے مدتوں تک صرف اسی کا چہرہ دیکھا۔ مجھے اپنی ماں یاد نہیں، حالانکہ مجھے اس وقت تک کی باتیں یاد ہیں جب میں دودھ پیتا بچہ تھا۔ اس وقت میں روتا بہت تھا لیکن میرا باپ مجھے بہلانے کے بجائے مجھ کو اپنے زانو پر لٹائے خاموشی کے ساتھ دیکھتا رہتا تھا یہاں تک کہ میں اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے آپ ہی آپ چپ ہو جاتا۔ ظاہر ہے میری پرورش تنہا اس نے نہیں کی ہو گی اس لیے کہ اسے کام پر بھی جانا ہوتا تھا، لیکن اس زمانے کی یادوں میں، جن کا کوئی بھروسا بھی نہیں، اپنے باپ کے سوا کسی اور چہرے کا نقش میرے ذہن میں محفوظ نہیں اور وہ بھی صرف اتنا کہ ایک دوہرے دالان میں وہ گردن جھکائے چپ چاپ مجھے دیکھ رہا ہے اور مجھ کو اس کے چہرے کے ساتھ اونچی چھت نظر آ رہی ہے جس کی کڑیوں میں سرخ اور سبز کاغذ کی نچی کھچی سجاوٹ جھول رہی ہے۔
جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ میرا باپ دیر دیر تک گھر سے غائب رہتا ہے۔ یہ اس کا ایسا معمول تھا کہ جلد ہی مجھ کو گھر سے اس کے جانے اور واپس آنے کے وقتوں کا اندازہ ہو گیا۔ میں ان دونوں وقتوں پر، بلکہ ان سے کچھ پہلے ہی، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا۔ اس کے جاتے وقت میں صحن میں جمع ملبے کے ڈھیر میں سے اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر اسے مارتا رہتا یہاں تک کہ پڑوس کی کوئی خستہ حال بڑھیا آ کر مجھے گود میں اٹھا لیتی۔ ایسی عورتیں میرے مکان کے آس پاس بہت تھیں۔ جتنی دیر میرا باپ گھر سے باہر رہتا، ان میں سے ایک دو عورتیں میرے پاس موجود رہتیں۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ میلے کچیلے بچے بھی ہوتے تھے۔ باپ کے جانے کے کچھ دیر بعد میرا غصہ کم ہو جاتا اور میں بڑھیوں سے کہانیاں سننے یا بچوں کے ساتھ کھیلنے میں لگ جاتا، لیکن اس کی واپسی کا وقت قریب آتا تو میرا مزاج پھر بگڑنے لگتا تھا۔ اور جیسے ہی وہ گھر کے صحن میں قدم رکھتا، میں لپک کر اس کی طرف جاتا اور اپنے چھوٹے چھوٹے کم زور ہاتھوں سے اسے مارنا شروع کر دیتا۔ اس وقت میرا باپ مجھ سے بھی زیادہ ہنگامہ کرتا اور اس طرح چیختا اور تڑپتا تھا گویا میں نے اس کی ہڈیاں توڑ پھوڑ کر رکھ دی ہیں۔ آخر میرا غصہ کم ہو جاتا اور میں اس کا علاج شروع کرتا۔ وہ تتلا تتلا کر مجھے بتاتا کہ اس کو کہاں کہاں پر چوٹیں آئی ہیں اور میں اس کے بدن کو کہیں دباتا، کہیں سہلاتا اور کہیں پر پھونکتا، اس کے فرضی زخموں سے بہتا ہوا فرضی خون پونچھتا اور خیالی شیشیوں سے خیالی دوائیں اس کے منھ میں انڈیلتا، جن کی کڑواہٹ ظاہر کرنے کے لیے وہ ایسے برے برے منھ بناتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی تھی۔
اس وقت تک، بلکہ اس کے آخری وقت تک، مجھے علم نہیں تھا کہ وہ میرا حقیقی باپ ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میرے خاندان کا کوئی پرانا ملازم ہے جس نے وفاداری کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔ اس غلط فہمی کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ خود اس پر تھی۔ اس کا برتاؤ میرے ساتھ واقعی ایسا تھا جیسے میں اس کا آقا زادہ ہوں۔ اس لیے میرا برتاؤ اس کے ساتھ برا تھا۔ لیکن میں اپنے وحشیانہ انداز میں اس سے محبت بھی کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کا بدن خراشوں سے کبھی خالی نہ رہتا۔
جب میں کچھ اور بڑا ہوا تو اس کا گھر سے نکلنا مجھے اور زیادہ ناگوار گزرنے لگا۔ اب میں کبھی اس کے اوزاروں کا تھیلا چھپا دیتا، کبھی اس میں سے کچھ اوزار نکال کر ان کی جگہ اینٹوں یا لکڑی کے ٹکڑے رکھ دیتا، یہاں تک کہ اس نے تھیلا ایک مچان پر چھپا کر رکھنا شروع کر یا۔ اور جب میں اس مچان تک بھی پہنچنے لگا تو ایک دن تھیلا غائب ہو گیا۔ اس کے بعد کئی دن تک میرا باپ گھر سے باہر نہیں نکلا، اور دوہرے دالان کی سرخ سبز سجاوٹ والی چھت کے نیچے بیٹھا لکڑی پر نقاشی کرتا رہا۔ اس میں اس کا انہماک ایسا تھا کہ میں اس کے کام میں مخل ہوتے ڈر رہا تھا، لیکن اس سے زیادہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ جلد ہی وہ نقاشی کا کام چھوڑ دے گا اور اوزاروں کا تھیلا نکال کر پھر گھر سے باہر جانا شروع کر دے گا، اس لیے میں اس فکر میں لگ گیا کہ تھیلا تلاش کر کے اسے ہمیشہ کے لیے غائب کر دوں۔ اپنے باپ کو بتائے بغیر کہ مجھے کس شے کی تلاش ہے، میں تھیلے کو مکان کے ایک ایک حصے میں ڈھونڈتا پھرا۔ مکان کے اندرونی دالانوں میں زیادہ تر دروازے مقفل تھے اور مجھے پتا نہیں تھا کہ ان کے پیچھے کیا ہے۔ پرانی وضع کے زنگ آلود قفلوں کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ انھیں مدت سے کھولا نہیں گیا ہے بلکہ ان کی کنجیاں بھی کب کی غائب ہو چکی ہوں گی، اس لیے میں نے فیصلہ کر لیا کہ تھیلا ان دروازوں کے پیچھے نہیں ہے۔ لیکن مکان میں ایسے دروازے بھی بہت تھے جو مقفل نہیں تھے۔ ان کے پیچھے مجھے خالی کمرے اور کوٹھریاں نظر آئیں۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کا سامان ہٹا کر حال ہی میں ان کی مرمت کی گئی ہے۔ بعض بعض کے فرش پر تو ابھی پانی تک موجود تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ میرا باپ گھر پر بھی کسی وقت معماری کا کام کرتا ہے۔ یہی تعجب کرتا ہوا میں مکان کی مغربی دیوار کے قریب ایک بڑے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ اس دروازے کے دونوں پٹوں پر لکڑی کی دو مچھلیاں ابھری ہوئی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے مکان میں کوئی ایسا دروازہ بھی ہے۔ میں دیر تک اس پر ہاتھ رکھے سوچتا رہا کہ اس کے پیچھے کیا ہو گا۔ مجھ کو یقین تھا کہ یہ کسی خالی کمرے کا دروازہ نہیں ہے۔ مزید یقین کے لیے میں نے اسے تھوڑاسا کھول کر اندر جھانکا۔ اوّل اوّل مجھ کو صرف لکڑی کے لمبے لمبے مچان نظر آئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ان مچانوں پر بہت بڑی بڑی کتابیں ترتیب کے ساتھ سجی ہوئی ہیں۔ میں نے ابھی پڑھنا شروع نہیں کیا تھا، تاہم مجھے ان کتابوں میں کچھ دل چسپی سی پیدا ہوئی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے لیے میں دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ سامنے والی دیوار کے قریب فرش پر بھی کتابیں ڈھیر ہیں۔ انھیں نزدیک سے دیکھنے کے لیے میں آگے بڑھا اور کتابوں کی طرف سے میری توجہ ہٹ گئی۔ ڈھیر کے اُس طرف دیوار سے ملی ہوئی چٹائی پر ایک بوڑھا آدمی آنکھیں بند کیے چت پڑا ہوا تھا۔ پرانے کاغذوں کی خوشبو کے بیچ میں وہ خود بھی ایک بوسیدہ کتاب معلوم ہو رہا تھا۔
میں ایک قدم پیچھے ہٹا۔ دور پر میرے باپ کی ہتھوڑی کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی اور میں چٹائی پر پڑے ہوئے آدمی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اپنے بالوں اور لباس سے وہ مجھے کچھ فقیر سا معلوم ہوا۔ اسے اور غور سے دیکھنے کے لیے میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکا ہی تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں، کچھ دیر تک چپ چپ مجھ کو تکتا رہا، پھر اس کے ہونٹ ہلے۔
’’آؤ شہزادے‘‘ اس نے کہا، ’’سبق شروع کیا جائے ؟‘‘
پاگل! میں نے سوچا اور بھاگ کر اپنے باپ کے پاس آ گیا۔ وہ اسی طرح اپنے کام میں منہمک تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں چاندی کا تار لپٹا ہوا تھا اور داہنے ہاتھ میں ایک نازک سی ہتھوڑی تھی۔ لکڑی کی ایک ہشت پہل تھالی اس کے سامنے تھی جس پر اس نے طرح طرح سے مڑی ہوئی پتیاں ابھاری تھیں اور اب ان پتیوں کی باریک رگوں میں چاندی کا تار بٹھا رہا تھا۔ مجھے اپنے قریب محسوس کر کے اس نے گردن اٹھائی اور آہستہ سے مسکرایا۔
’’آئیے‘‘ ، وہ دھیرے سے بولا، ’’کہاں گھوم رہے تھے آپ؟‘‘
’’وہاں۔ ۔ ۔ وہ بڈھا کون ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تو آپ نے اپنے استاد کو ڈھونڈھ نکالا‘‘ وہ بولا اور پھر پتیوں کی رگوں میں تار بٹھانے لگا۔
’’استاد؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’لیکن آپ ڈھونڈھ کیا رہے تھے ؟‘‘ جواب میں اس نے بھی پوچھا اور مجھے یاد آ گیا۔
’’تھیلا۔ ۔ ۔ !‘‘ میں نے کہا، ’’اوزاروں کا تھیلا کہاں ہے ؟‘‘
’’وہ آپ کو نہیں ملے گا۔‘‘
اب مجھے غصہ آنے لگا۔
’’کہاں ہے ؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’نہیں ملے گا۔‘‘
مجھے اور غصہ آیا، لیکن اسی وقت اس نے پوچھا:
’’آج کون دن ہے ؟‘‘
میں نے اسی غچّے میں بتا دیا اور پھر پوچھا:
’’تھیلا کہاں ہے ؟‘‘
’’پرسوں سے آپ کا سبق شروع ہو گا‘‘ اس نے بڑے سکون کے ساتھ کہا۔ میں نے اسے برا بھلا کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اس نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ دیر تک وہ میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں امید اور افسردگی کی ایسی آمیزش تھی کہ میں اپنا سارا غصہ بھول گیا۔ اس کی مضبوط انگلیاں میری کلائی اور شانے میں گڑی جا رہی تھیں اور بدن دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اس حالت میں وہ مجھے ہمیشہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔
’’چھوڑ، بڈھے !‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور لکڑی کی منقّش تھالی پر ہلکی سی ٹھوکر لگائی۔ ایک پتّی کی رگ میں بیٹھا ہوا تار تھوڑا اکھڑ آیا اور میرے باپ نے جلدی سے مجھے چھوڑ دیا۔ اس کی انگلیوں میں لپٹے ہوئے تار نے میری کلائی پر جالی کا سا نقش بنا دیا تھا۔ میں نے کلائی اس کی آنکھوں کے سامنے کی۔ وہ تار کے نقش کو دیر تک سہلاتا اور پھونکتا رہا، پھر بولا:
’’پرسوں سے‘‘ ، اور پھر بولا، ’’پرسوں سے۔‘‘
2
سبق شروع ہونے کا خیال مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا تھا اس لیے دوسرے دن میں اپنے باپ سے خفا خفا سا رہا، لیکن شام ہوتے ہوتے مجھے اپنے استاد کے بارے میں تجسس پیدا ہوا، اور تیسرے دن میں اپنے باپ کے پیچھے پیچھے قدرے اشتیاق کے ساتھ مچھلیوں والے دروازے میں داخل ہوا۔ استاد چٹائی پر دو زانو بیٹھا ہوا تھا۔ باپ نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا اور خود فرش پر ڈھیر کتابوں کو اٹھا اٹھا کر مچانوں پر سجانے لگا، یہاں تک کہ فرش پر صرف ایک کتاب پڑی رہ گئی۔
’’اسے آپ اٹھائیے، شاباش!‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ مجھے یہ سب ایک دل چسپ تماشا معلوم ہو رہا تھا۔ کتاب کا وزن زیادہ تھا، تاہم میں نے اس کو اٹھا لیا اور باپ کے اشارے پر اسے استاد کے سامنے رکھ دیا۔ استاد کتاب پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے مسکرایا اور مجھے حیرت ہوئی کہ پرسوں وہ مجھ کو فقیر کیوں معلوم ہوا تھا۔
’’اِسے کھولو، شہزادے‘‘ اس نے کہا۔
کتاب کے چند ابتدائی صفحوں کو چھوڑ کر باقی ورق سادہ تھے۔ اس دن پہلے سادہ ورق پر استاد نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے کچھ لکھوایا۔ اتنی بڑی سی کتاب پر اپنے ہاتھ کی تحریر مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی۔ میں چاہتا تھا استاد مجھ سے کچھ اور لکھوائے لیکن میرے باپ نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ اس کا بدن پھر دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اسی حالت میں دیر تک وہ استاد سے چپکے چپکے باتیں کرتا رہا، لیکن وہ دونوں معلوم نہیں کن اشاروں میں گفتگو کر رہے تھے کہ میری سمجھ میں ان کی ایک بات بھی نہیں آئی اور میں اپنے باپ کے ہاتھوں کے حلقے میں گھرا ہوا، مچانوں پر سجی بڑی بڑی کتابوں پر نظریں دوڑاتا رہا۔ آخر میرا باپ مجھے لے کر باہر آ گیا۔
اس کے بعد سے میرا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گذرنے لگا اور میں اپنے باپ کو بھول سا گیا، یہاں تک کہ کچھ دن تک مجھے یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ اس نے پھر سے اوزاروں کا تھیلا لے کر کام پر جانا شروع کر دیا ہے۔ مچھلیوں والے دروازے کے پیچھے موٹی کتابوں میں گھرا ہوا استاد مجھے ہر وقت موجود ملتا تھا۔ وہ شاید وہیں رہتا تھا۔ میں اکثر اسے دیکھتا کہ فرش پر ڈھیر کتابوں کے پاس آنکھیں بند کیے چت پڑا ہے اور فقیر معلوم ہو رہا ہے۔ میری آہٹ سن کر وہ آنکھیں کھولتا اور ہمیشہ ایک ہی بات کہتا:
’’آؤ، شہزادے، سبق شروع کیا جائے۔‘‘
لیکن اس نے مجھے پڑھایا کچھ نہیں، البتہ لکھنا بہت جلدی سکھا دیا۔ ہر روز لکھنے کی باقاعدہ مشق کرانے کے بعد مجھے اپنے سامنے بٹھا کر وہ بولنا شروع کرتا۔ کسی کسی دن وہ مجھے پرانے وقتوں اور دور دراز کے علاقوں کی دل چسپ باتیں بتاتا، لیکن زیادہ تر وہ میرے اپنے شہر کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔ وہ شہر کے مختلف محلّوں میں بسنے والے خاندانوں کا حال سناتا تھا کہ کس محلے کا کون خاندان کس طرح آگے بڑھا اور کیونکر تباہ ہوا اور اب اس خاندان میں کون کون لوگ باقی ہیں اور کس حال میں ہیں۔ یہ دل چسپ قصے تھے لیکن استاد انھیں بے دلی سے بیان کرتا تھا اس لیے وہ مجھے محض بے ربط ٹکڑوں کی طرح یاد رہ جاتے تھے، البتہ شہر کے محلوں کا ذکر وہ اس انداز سے کرتا تھا کہ ہر محلہ مجھے ایک انسان نظر آتا تھا جس کا مزاج اور کردار ہی نہیں، صورت شکل بھی دوسرے محلوں سے مختلف ہوتی تھی۔ جوش میں آ کر استاد یہ دعویٰ بھی کرنے لگتا تھا کہ وہ شہر کے کسی بھی آدمی کو دیکھتے ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کس محلے کا رہنے والا ہے یا کن کن محلوں میں رہ چکا ہے۔ اس وقت میں اس کے اس دعوے پر ہنستا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں کہ خود مجھ میں یہ صفت کچھ کچھ موجود ہے۔
کبھی کبھی استاد باتیں کرتے کرتے چٹائی پر چت لیٹ کر آنکھیں بند کر لیتا تو میں فرش پر ڈھیر کتابوں کے ورق الٹنے پلٹنے لگتا۔ انھیں ورق گردانیوں میں مجھے معلوم ہوا کہ میں پڑھ بھی سکتا ہوں۔ لیکن ہاتھ کی لکھی ہوئی وہ بھاری بھاری کتابیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ ان میں بعض تو میری اپنی زبان ہی میں نہیں تھیں، بعض کی عبارتیں اور بعض کی تحریریں اتنی گنجلک تھیں کہ بہت غور کرنے پر بھی ان کا بالکل دھندلا سا مفہوم میرے ذہن میں آتا اور فوراً نکل جاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر مجھے اپنے استاد پر غصہ آنے لگتا اور کئی مرتبہ میں نے اس سے بڑی بدتمیزی کے ساتھ بات کی۔ ایک بار وہ آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑا میری باتیں سن رہا تھا کہ اچانک میرے سر کے اندر چمک سی ہوئی۔ میں نے چلّا کر کہا:
’’بہرا ہو گیا ہے، فقیر؟‘‘ اور ایک بھاری کتاب اٹھا کر اس کے سینے پر پھینک دی۔
اس کے دوسرے دن مجھے اپنے مکان کے قریب کی ایک چھوٹی سی درس گاہ میں پہنچا دیا گیا۔
اس کے بعد میں شہر کی مختلف درس گاہوں میں پڑھتا رہا۔ شروع شروع میں میرا باپ بڑی پابندی کے ساتھ مجھ کو درس گاہ تک پہنچاتا اور وہاں سے واپس لاتا تھا۔ چھٹی ہونے پر میں باہر نکلتا تو دیکھتا کہ وہ درس گاہ کے پھاٹک سے کچھ فاصلے پر کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے خاموش کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھتا، میری کتابیں سنبھالتا، اور کبھی کبھی مجھ کو بھی گود میں اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن میں اسے نوچ کھسوٹ کر الگ ہو جاتا تھا۔ اگر کسی دن اسے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں خوشی خوشی سیر کرتا ہوا تنہا گھر لوٹتا اور دوسرے دن اکیلے جانے کی ضد کرتا تھا۔ آخر رفتہ رفتہ میں نے تنہا جانا اور واپس آنا شروع کر دیا۔ پھر میں خالی وقت اور چھٹّی کے دنوں میں بھی گھر سے باہر نکلنے لگا اوراسی زمانے میں اچھی بری صحبتوں سے بھی آشنا ہوا۔ میں نے شہر کے ان تمام محلوں کے چکر لگائے جن کے بارے میں استاد بتاتا تھا کہ کون ریاکار ہے، کون بزدل، کون چاپلوس اور کون فسادی۔ انھیں گردشوں کے دوران ایک دن میں نے اپنے باپ کو بازار میں دیکھا۔
وہ بازار کے اس حصے میں کھڑا ہوا تھا جہاں ہر روز صبح کے وقت مزدور اور کاریگر کام کی تلاش میں آ کر جمع ہوتے تھے۔ اوزاروں کا تھیلا زمین پر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رکھے وہ آس پاس کے لوگوں سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ تھیلا زمین پر چھوڑ کر وہ لپکتا ہوا میری طرف آیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں‘‘ میں نے جواب دیا۔
وہ کچھ دیر تک مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا، پھر بولا:
’’کوئی بات ہو گئی ہے ؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘ میں نے پھر کہا۔
’’ہمیں دیکھنے آئے تھے ؟‘‘ اس نے پوچھا، پھر خود ہی بولا، ’’ایسا ہی ہے تو ہمیں کام پر دیکھیے۔‘‘ پھر وہ آہستہ سے ہنسا۔
اسی وقت کسی مزدور نے اس کا نام لے کر پکارا اور وہ اپنے تھیلے کی طرف لوٹ گیا جہاں ادھیڑ عمر کا ایک شخص اس کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا۔ اس نے میرے باپ سے کچھ پوچھا، پھر دیر تک اسے کچھ سمجھاتا رہا۔ وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے ہوا میں محراب یا گنبد کی سی شکل بناتا تھا۔ اس کی انگلیوں میں بڑے بڑے نگینوں والی کئی انگوٹھیاں تھیں جنھیں وہ جلدی جلدی انگوٹھے سے گھماتا تھا۔ بہت سی آوازوں کے بیچ میں اس کی اونچی کھرکھراتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی تھی لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ کچھ دیر بعد میرے باپ نے اوزاروں کا تھیلا اٹھایا اور اس شخص کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ مجھے خیال آیا کہ اس کے تھیلے میں کسی اوزار کی جگہ میرا رکھا ہوا لکڑی یا اینٹ کا ٹکڑا نہیں ہو گا۔ لیکن اس خیال سے مجھ کو خوشی کے بجائے کچھ افسردگی سی محسوس ہوئی۔ اس افسردگی پر مجھے تعجب بھی ہوا۔ میں سیدھا گھر واپس آ گیا، اور اگرچہ وہ پورا دن میں نے استاد کے ساتھ فضول بحثوں میں گذارا لیکن تمام وقت مجھے گھر میں باپ کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ یہ خیال بھی مجھے بار بار آیا کہ میں نے ابھی تک اس کو معماری کا کام کرتے نہیں دیکھا ہے اور یہ مجھے اپنی بہت بڑی کوتاہی معلوم ہوئی مگر اس کی تلافی کا خیال مجھے نہیں آیا۔
ایک دن سہ پہر کے قریب گھومتا پھرتا میں اپنی ایک پرانی درس گاہ کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ درس گاہ مدتوں پہلے ایک تاریخی عمارت میں قائم کی گئی تھی اور اب بھی اس عمارت میں تھی۔ عمارت بوسیدہ ہو چکی تھی اور جب میں وہاں پڑھتا تھا تو اس کی ایک چھت بیٹھ گئی تھی جس کے بعد میرے باپ نے مجھے اس درس گاہ سے اٹھا لیا، اس لیے کہ کچھ دیر پہلے تک میں اسی چھت کے نیچے تھا۔ اتنے دن بعد ادھر آیا تو میں نے دیکھا کہ درس گاہ کی ٹوٹی ہوئی چاردیواری درست کر دی گئی ہے۔ لکڑی کا وہ بیرونی پھاٹک غائب تھا جس کے پٹوں میں لوہے کے پھول جڑے ہوئے تھے اور بائیں پٹ میں نیچے کی طرف چھوٹا سا ایک پٹ کا دروازہ تھا۔ اب اس پھاٹک کی جگہ لوہے کا کٹہرے دار پھاٹک تھا جس کے پیچھے اصل عمارت میں داخلے والی اونچی محراب نظر آ رہی تھی۔ محراب کے پیچھے لوگ چل پھر رہے تھے، حالانکہ وہ چھٹی کا دن تھا۔ یہ سوچ کر کہ شاید ان لوگوں میں کوئی میری جان پہچان والا مل جائے، میں پھاٹک سے گذر کر محراب کی طرف بڑھا۔ قریب پہنچ کر میں نے دیکھا کہ محراب کی پیشانی پر بالکل ویسی ہی دو مچھلیاں ابھری ہوئی ہیں جیسی میرے مکان میں استاد والے کمرے کے دروازے پر تھیں۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ اس درس گاہ میں اتنے دن تک آنے جانے کے باوجود ان مچھلیوں پر کبھی میری نظر نہیں پڑی۔ اب میں نے انھیں غور سے دیکھا۔ محراب کی شکستہ پیشانی کی مرمت کی جا چکی تھی۔ مچھلیاں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ داہنی طرف والی مچھلی کی دم غائب تھی۔ اس کی جگہ نیا نارنجی مسالا بھر دیا گیا تھا اور میرا باپ دو آڑی بلّیوں پر ٹکا ہوا اس مسالے کو مچھلی کی دم کی شکل میں تراش رہا تھا۔ وہ سر پر ایک کپڑا لپیٹے ہوئے تھا جس کی وجہ سے میں اسے پہچان نہیں سکا۔ میں نے اسے اس کے تھیلے سے پہچانا جو محراب کے داہنے پائے سے لگا ہوا رکھا تھا اور اس میں سے کچھ اوزار باہر جھانک رہے تھے۔ دیر تک اسے اپنے کام میں کھویا ہوا دیکھتے رہنے کے بعد میں نے زمین پر سے پرانے ٹوٹے ہوئے مسالے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کی طرف اچھالا۔ ٹکڑا اس کے پیر کے پاس بلّی سے ٹکرا کر واپس گرا اور اس نے نیچے کی طرف دیکھا، آہستہ سے ہنسا، پھر بولا:
’’تو آپ نے ہم کو ڈھونڈھ نکالا؟‘‘
مجھے اس کی آواز شکستہ مچھلی کے کھلے ہوئے منھ سے آتی معلوم ہوئی۔ وہ پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’ابھی کتنی دیر ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وقت تو ہو چکا‘‘ اس نے بتایا، ’’کام تھوڑا باقی ہے، زیادہ دیر نہیں ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ نیچے اترا۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹے اوزار تھے جنھیں اس نے قریب ہی بنے ہوئے ایک عارضی حوض میں دھویا، سر پر لپٹا ہوا کپڑا کھول کر اس سے اوزاروں کو پونچھا اور میری طرف دیکھ کر تھکے ہوئے انداز میں مسکرایا۔ میں نے اوزار اس سے لے کر تھیلے میں رکھ دیے اور ہم دونوں ساتھ ساتھ کٹہرے دار پھاٹک کی طرف چلے۔ آدھا راستہ طے کر کے وہ رک گیا۔ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے گردن موڑ کر اس نے اپنے دن بھر کے کام کو دیکھا، پھر پھاٹک کی طرف بڑھ گیا۔
چوتھے یا پانچویں دن میں نے اسے تھیلا لے کر گھر سے باہر نکلتے دیکھا تو پوچھا:
’’آج کہاں کام لگایا ہے ؟‘‘
’’وہیں‘‘ اس نے کہا، پھر بولا، ’’آج بھی دیر میں لوٹنا ہو گا۔‘‘
لیکن اس دن دوپہر سے ذرا پہلے کچھ طالب علموں کے جھگڑے میں محراب سے لگی ہوئی بلّیاں اس طرح ہلیں کہ میرے باپ کا توازن بگڑ گیا اور وہ مچھلیوں کی اونچائی سے درس گاہ کے سنگی فرش پر آ گرا۔
اس وقت میں گھر ہی پر تھا اور استاد سے کسی فضول بات پر بحث کر رہا تھا۔ دو تین مزدور اسے سہارا دے کر لائے۔ انھوں نے اپنی دہقانی بولی میں حادثے کی مبہم سی تفصیل بتائی اور کام پر واپس چلے گئے۔ اس کے بدن پر کوئی زخم نہیں تھا لیکن اس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کرب میں ہے۔ میں نے اور استاد نے اسے بستر پر لٹا دیا۔
کئی دن تک میرا باپ چپ چاپ بستر پر پڑا رہا اور میرا استاد چپ چاپ اس کے سرھانے بیٹھا رہا۔ پڑوس کی خستہ حال بڑھیاں ان دونوں کی خبرگیری کرتی رہیں۔ میں اس عرصے میں کئی بار گھر سے باہر نکلا لیکن تھوڑی ہی دور جا کر واپس آ گیا۔
ایک دن واپس آتے ہوئے مجھے اس محراب اور اس کی پیشانی کی شکستہ مچھلیوں کا خیال آیا اور میں درس گاہ کی طرف لوٹ گیا۔ وہ بھی چھٹی کا دن تھا۔ میں محراب کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ ایک مچھلی درست ہو چکی تھی۔ اس کی پشت پر سفنوں کا جال اس طرح تراشا گیا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ایک ایک سفنے کو الگ الگ ڈھال کر مچھلی کے بدن میں بٹھایا گیا ہے۔ ہر سفنا بیچ میں ہلکا سا ابھرا ہوا، کناروں پر دھنسا ہوا اور دوسرے سفنوں میں پھنسا ہوا نظر آتا تھا۔ مچھلی کی آنکھ کی جگہ ایک گول سوراخ تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مچھلی منھ کھولے ہوئے مجھے گھور رہی ہے۔ میں نے اس پر سے نظر ہٹا لی۔
دوسری مچھلی کا سارا اوپری مسالا توڑ دیا گیا تھا اور اب اس کے نیچے کی پتلی پتلی اینٹیں نیم دائرے کی شکل میں ابھری رہ گئی تھیں، لیکن ان ابھری ہوئی اینٹوں سے بھی ایک مچھلی کا خاکہ بنتا تھا۔ داہنی طرف والی مکمل مچھلی کے مقابل اس خاکے کی وجہ سے محراب کی پیشانی کچھ ٹیڑھی اور کچھ شکن آلود معلوم ہونے لگی تھی۔ بلّیاں اسی طرح لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک بلّی کو پکڑ کر آہستہ سے ہلایا۔ اس کی اوپری سرے پر آڑی بندھی ہوئی بلّی ہلکی آواز کے ساتھ محراب سے ٹکرائی۔ یہ آواز بھی مجھے مچھلی کے کھلے ہوئے منھ سے آتی محسوس ہوئی۔ پھر یہ آواز ایک انسانی آواز میں بدل گئی جو دہقانی بولی میں میرے باپ کی خیریت دریافت کر رہی تھی۔ اسی وقت میری نظر محراب کے نیچے کھڑے ہوئے ایک شخص پر پڑی۔ یہ انھیں مزدوروں میں سے ایک تھا جو میرے باپ کو گھر لائے تھے۔ میں نے اس کے سوال کا مختصر جواب دیا اور وہ دیر تک میرے باپ کی کاریگری کی تعریفیں کرتا رہا۔ اس میں اس نے معماری کی کئی ایسی اصطلاحیں استعمال کیں جن کے مفہوم سے میں واقف نہیں تھا۔ پھر اس نے شہر کی بعض مشہور تاریخی عمارتوں کے نام لیے جن کی مرمت اور درستی میں وہ میرے باپ کے ماتحت کام کر چکا تھا۔ اس نے اپنا نام بھی بتایا اور تاکید کی کہ میں اپنے باپ کو بتا دوں کہ اس نام کا مزدور اسے پوچھ رہا تھا۔ پھر مجھے ٹھہرے رہنے کا اشارہ کر کے وہ پاس کی ایک کوٹھڑی میں داخل ہوا اور میرے باپ کا تھیلا لیے ہوئے باہر آیا۔ تھیلا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس نے لمبی سانس کھینچی۔ وہ میرے باپ سے بہت زیادہ عمر کا معلوم ہوتا تھا۔ ایک اور لمبی سانس کھینچنے کے بعد وہ کچھ کہنے ہی کو تھا کہ درس گاہ کے اندرونی حصوں سے کسی نے اس کو آواز دی۔ میں نے اسے محراب میں داخل ہوتے اور بائیں طرف مڑتے دیکھا۔ تھیلے کے اوزاروں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور اگرچہ میری نظریں زمین پر تھیں لیکن مجھے پھر محسوس ہوا کہ داہنی طرف والی مچھلی منھ کھولے ہوئے اپنی آنکھ کے سوراخ سے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر اوزاروں کو تھیلے میں ٹھیک سے رکھا اور درس گاہ کے کٹہرے دار پھاٹک سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ گھر پہنچ کر تھیلا میں نے استاد والے کمرے میں کتابوں کے ایک ڈھیر پر رکھ دیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
دوہرے دالان میں بستر پر میرا باپ اسی طرح چپ چاپ لیٹا ہوا اور استاد اسی طرح چپ چاپ اس کے سرھانے بیٹھا ہوا تھا۔
3
درس گاہ میں گرنے کے بعد میرا باپ پھر کام پر نہیں جا سکا بلکہ بستر سے اٹھ بھی نہ سکا۔ کچھ دن تک وہ اس طرح گم سم پڑا رہا کہ خیال ہوتا تھا اسے دماغی چوٹ آئی ہے اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہے، لیکن ایک بار جب میں نے چاہا کہ اس کا بستر کتابوں والے کمرے میں کر دوں تو اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگا کہ وہ اس دوہرے دالان سے ہٹنا نہیں چاہتا جہاں ابھی تک اس نے ہر موسم گذارا تھا۔ آخر رفتہ رفتہ اس نے دھیمی آواز میں بولنا شروع کیا۔ ایک دن اس نے مجھ کو اشارے سے اپنے قریب بلایا اور استاد جو اس کے سرھانے بیٹھا ہوا تھا، اٹھ کر کتابوں والے کمرے میں چلا گیا۔
’’میرا کام ختم ہو گیا ہے‘‘ وہ مجھے بستر پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ مجھے اس کا گردن موڑ کر اپنے دن بھر کے کام کو دیکھنا یاد آیا اور میں نے اس کے سرھانے بیٹھ کر اس کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔
’’ایک مچھلی ابھی باقی ہے‘‘ میں نے گردن جھکا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ بولے بغیر میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں اپنے چہرے کے ساتھ چھت کی کڑیوں سے جھولتی ہوئی سجاوٹ نظر آئی، یا شاید یہ میرا صرف وہم تھا۔ اسی وقت اس نے اپنی گردن موڑ لی اور بولا:
’’مجھے بٹھا دو۔‘‘
کئی تکیوں کے سہارے بیٹھنے کے بعد وہ کسی خیال میں ڈوب گیا۔ اس سے پہلے وہ مجھے سوچنے والا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا، لیکن اس وقت کئی تکیوں سے ٹیک لگائے، قاعدے کا صاف ستھرا لباس پہنے وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اور اس وقت پہلی بار مجھے خفیف سا شبہ ہوا کہ وہ میرا حقیقی باپ ہے۔
’’جب صرف یہ مکان اور تم باقی رہ گئے‘‘ اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تو میں نے سوچا اب مجھے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔‘‘
مجھے یقین تھا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی سنانے والا ہے، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ چھت کو گھورتا اور کچھ سوچتا رہا۔ پھر دوسری طرف گردن موڑ کر بولا:
’’جاؤ، کہیں گھوم آؤ۔‘‘
’’جی نہیں چاہتا‘‘ میں نے کہا۔
اس نے میرا شانہ پکڑ کر آہستہ سے اپنی طرف کھینچا۔ اس کی گرفت کم زور اور ہاتھ میں لرزش تھی۔
’’سامان کم رہ گیا تھا‘‘ اس نے تقریباً سرگوشی میں کہا، ’’میں نے اسے اور کم نہیں ہونے دیا۔ تمھیں وہ بہت معلوم ہو گا۔‘‘
مجھے زنگ آلود قفلوں والے بند دروازے یاد آئے۔ میں نے کہا:
’’سامان مجھ کو نہیں چاہیے۔‘‘
’’میں نے اس میں کچھ بڑھایا بھی ہے۔‘‘
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’اسی میں کہیں وہ بھی ہے‘‘ اس نے کہا، ’’میں نے اسے تلاش نہیں کیا۔ تم ڈھونڈھ لینا‘‘ پھر کچھ رک کر بولا، ’’وہ کتابوں میں بھی ہو گا‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی حالت کچھ بگڑ گئی۔ میں دوڑتا ہوا استاد کے کمرے میں گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور میں اسے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا باپ کے بستر تک لایا۔ اس نے گردن گھما کر استاد کو دیکھا، پھر مجھے۔ میری طرف دیکھتے دیکھتے اس نے اپنی ناہموار سانسوں پر قابو پایا اور بولا:
’’اُسے الگ مت کرنا، وہ ہمارا نشان ہے۔‘‘
میں نے استاد کی طرف دیکھ کر اشارے سے پوچھا کہ میرا باپ کس چیز کا ذکر کر رہا ہے، لیکن استاد اس طرح گم سم بیٹھا تھا جیسے نہ کچھ سن رہا ہو، نہ دیکھ رہا ہو۔ البتہ میرے باپ کی آنکھیں، جن کی چمک ماند پڑ گئی تھی، کچھ دیکھتی معلوم ہو رہی تھیں۔
’’وہ کیا چیز ہے ؟‘‘ میں نے اس پر جھک کر پوچھا۔
’’اس کی خاطر خاندان میں خون بہا ہے‘‘ وہ دھیمی آواز میں بولا اور اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ اس کی سانس جو ہموار ہو چلی تھی، پھر ناہموار ہو گئی۔
استاد اسی طرح گم سم بیٹھا تھا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس موقعے پر مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے باپ کے دونوں کندھے پکڑ لیے۔ اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں اس کا حقیقی بیٹا ہوں، اور میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا کہہ کے پکاروں، اس لیے میں اس کے کندھے پکڑے خاموشی کے ساتھ اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس کی حالت اپنے آپ سنبھل گئی اور وہ بالکل ٹھیک معلوم ہونے لگا۔ اس نے بہت صاف اور معتدل آواز میں کہا:
’’جاؤ، گھوم آؤ۔‘‘
اس بار میں انکار نہیں کر سکا اور اس کے کندھے چھوڑ کر مکان سے باہر نکل آیا۔
میرا باپ بہت دن زندہ نہیں رہا۔ آخری دنوں میں وہ زیادہ تر خاموش پڑا رہتا تھا، صرف کبھی کبھی آہستہ آہستہ کراہنے لگتا لیکن پوچھنے پر بتاتا نہیں تھا کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ ایک بار جب میں نے بہت اصرار سے پوچھا اور اس کے خاموش رہنے پر خود کو غصے میں ظاہر کیا تو اس نے صرف اتنا بتایا:
’’کچھ نہیں۔‘‘
اس کے دوسرے یا تیسرے دن دو پہر کے وقت میں سو رہا تھا کہ استاد نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ آنکھ کھلتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ میرا باپ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن جب میں دوڑتا ہوا اس کے بستر کے پاس پہنچا تو وہ مجھے زندہ ملا۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس نے ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا شانہ پکڑ کر جلدی جلدی کچھ کہنے لگا۔ اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔ میں ٹھیک سے سننے کے لیے اس پر جھک گیا، پھر بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ بہت جھک کر سننے پر صرف اتنا سمجھ میں آیا کہ وہ تتلا کر بول رہا ہے۔ اسی وقت وہ بے ہوش ہو گیا، اور اسی بے ہوشی میں کسی وقت اس کا دم نکل گیا۔
باپ کے مرنے کے بعد دیر تک میں بالکل پرسکون رہا۔ میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کے آخری انتظامات کے سلسلے میں استاد سے صلاح مشورہ کیا اور ہر بات کا خود فیصلہ کیا۔ لیکن جب وہ انتظام شروع ہو گئے تو میرے سر کے اندر کوئی چیز ہلی اور مجھ پر ایک جوش طاری ہو گیا۔ میں نے اسی جوش میں فیصلہ کر لیا کہ موت میرے باپ کی نہیں، میری ہوئی ہے ، پھر یہ فیصلہ کیا کہ باپ بھی میں خود ہی ہوں۔ پھر مجھ کو یہ دونوں فیصلے ایک معلوم ہونے لگے اور میں نے عجب واہیات حرکتیں کیں ، صحن سے اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر دوہرے دالان میں پھینکے اور خود کو مخاطب کر کے تتلانا شروع کر دیا، میرے باپ کا مردہ نہلانے کے لیے جو پانی بھرا گیا تھا اس میں سے کچھ اپنے اوپر انڈیل لیا اور باقی میں کوڑا کرکٹ ملا دیا، اس کے بدن پر لپیٹنے کے لیے جو سفید کپڑا منگایا گیا تھا اسے کھول کر خود کو اس میں لپیٹ لیا، اور جب اسے لے کر جانے لگے تو اس میں بھی ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ کئی بار اس کی میت زمین پر گرتے گرتے بچی۔ میں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ لوگ اس کے مرنے پر افسوس ظاہر کرنا بھول گئے۔ آخر مجھے زبردستی پکڑ کر واپس لایا گیا اور گھر میں بند کر دیا گیا جہاں سوتی ہوئی خستہ حال بڑھیوں کی تسلی آمیز باتیں سن کر مجھے اتنا غصہ آیا کہ کچھ دیر کے لیے میں اپنے باپ کی موت کو بھول گیا۔ لیکن میں نے ان بڑھیوں پر اپنا غصہ ظاہر نہیں ہونے دیا اور توقع کے بالکل خلاف مجھے نیند آ گئی۔
میں دوسرے دن تک سوتا رہا۔ میں نے کئی خواب بھی دیکھے لیکن ان کا میرے باپ یا اس کی موت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تین دن تک میں کھویا کھویا سا رہا۔ استاد دن میں کئی بار آتا اور کچھ دیر تک مجھے خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہنے کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔ چوتھے دن مجھے یاد آیا کہ میرے باپ نے مجھ سے کچھ ڈھونڈھنے کو کہا تھا، اور میں نے بے سمجھے بوجھے گھر بھر میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اسی تلاش میں پھرتا ہوا میں مچھلیوں والے دروازے میں داخل ہوا اور مچانوں پر سجی ہوئی کتابیں کھینچ کھینچ کر زمین پر گرائے اور پڑھے بغیر ان کے ورق پلٹنے لگا۔ فرش پر غبار پھیل گیا اور کاغذ خور روپہلی مچھلیاں کتابوں کے اندر سے نکل نکل کر زمین پر اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں۔ اسی میں میری نظر چٹائی کے قریب کتابوں کے ڈھیر پر رکھے ہوئے اوزاروں کے تھیلے پر پڑی۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا، دیر تک بیٹھا رہا اور رات ہوئی تو وہیں سو گیا۔
اس رات میں نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا کہ درس گاہ کی محراب کے آگے کھڑا ہوا ہے اور گردن موڑ کر اپنی درست کی ہوئی مچھلی کو دیکھ رہا ہے اور مچھلی کی آنکھ چمک رہی ہے اور وہ بھی میرے باپ کو دیکھ رہی ہے۔
دوسرے دن میں نے اوزاروں کا تھیلا اٹھایا، گھر سے نکلا اور بازار میں اپنے باپ کی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ دیر ہو گئی تھی اور سب لوگ وہاں سے جا چکے تھے، پھر بھی میں بہت دیر تک اسی جگہ کھڑا رہا اور کسی نے میری طرف توجہ نہیں کی، یہاں تک کہ میرا استاد مجھے ڈھونڈھتا ہوا وہاں آ پہنچا اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھر واپس لے آیا۔ راستے میں جب اس نے مجھ کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو میں نے اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔
کئی روز تک اسی طرح استاد سے میرا جھگڑا چلتا رہا، آخر اس نے میرے یہاں آنا چھوڑ دیا، لیکن میرا کھانا وہ دونوں وقت پابندی سے بھجواتا رہا۔ میلی کچیلی آوارہ گرد چھوکریاں اور ہلتی ہوئی گردنوں والی بوڑھی عورتیں مکان کا صدر دروازہ کھٹکھٹاتیں اور کھانے کی پوٹلی میرے ہاتھ میں تھما کر چپ چاپ لوٹ جاتیں۔ مگر ایک دن میں نے دیکھا کہ کھانا لانے والی ایک چھوکری کے پیچھے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے میرا استاد کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھ آیا، کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ میری طرف دیکھتا رہا، پھر اپنے سینے کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے بولا:
’’اب میں ختم ہو رہا ہوں !‘‘
اس دن میں نے روشنی میں پہلی بار اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا اور وہ ہمیشہ سے زیادہ فقیر معلوم ہو رہا تھا۔ دیر تک ہم دونوں بغیر کچھ بولے آمنے سامنے کھڑے رہے اور اس کے ساتھ کی چھوکری دونوں ہاتھوں سے اپنا سر کھجاتی رہی۔ الجھے ہوئے بالوں میں اس کے بڑھے ہوئے ناخنوں کی رگڑ سے کھرکھراہٹ کی ایسی آواز پیدا ہو رہی تھی جسے سن کر مجھے بہت سی انگوٹھیوں والا وہ شخص یاد آ گیا جو میرے باپ کو بازار سے اپنے ساتھ لے گیا تھا، پھر مجھے باپ کے اوزار لے کر اپنا بازار جانا اور استاد کا مجھ کو واپس لانا یاد آیا۔
’’میں نے تمھارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
اس نے میری بات یا تو سنی نہیں، یا سن کر اَن سنی کر دی اور میری طرف اس طرح دیکھتا رہا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع کر رہا ہو۔ اس طرح وہ میری طرف پہلے بھی کبھی کبھی دیکھنے لگتا تھا جس پر مجھے خواہ مخواہ غصہ آ جاتا تھا۔ اس وقت بھی مجھے الجھن سی محسوس ہوئی اور میں نے اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا لیں۔ میں اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اس نے مڑ کر چھوکری کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’اب طاہرہ بی بی‘‘ اس نے چھوکری کو بتایا اور اس کے پیچھے دھیرے دھیرے چلتا ہوا واپس ہو گیا۔
جب وہ دونوں میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تو مجھے خیال آیا کہ میں نے استاد سے گھر کے اندر چلنے کو نہیں کہا۔
مجھے اس کا گھر نہیں معلوم تھا۔ پڑوس کی بڑھیوں نے محض اندازے سے اس کے الگ الگ پتے بتائے، لیکن جب میں ان پتوں پر پہنچا تو وہاں کوئی استاد کا جاننے والا نہ نکلا۔ میں نے اس تلاش میں کئی دن ضائع کیے، البتہ اس طرح ایک بار پھر میں نے قریب قریب پورے شہر کا چکر لگا لیا۔ اس گردش میں اپنے شہر کی تاریخی عمارتوں کو میں نے خاص طور پر دیکھا۔ میں نے ان عمارتوں کے مرمت شدہ حصوں کا غور سے جائزہ لیا اور ان میں کئی جگہ مجھے اپنے باپ کا ہاتھ نظر آیا۔ ان عمارتوں کے کسی نہ کسی دروازے یا داخلے کے پھاٹک پر مجھے مچھلیاں ضرور بنی ہوئی نظر آئیں۔ شہر کے پرانے گرتے ہوئے مکانوں کے دروازے بھی مچھلیوں سے خالی نہیں تھے اور ہر مچھلی مجھے اپنے باپ کی بنائی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور ہر شکستہ مچھلی کو دیکھ کر مجھے اپنی درس گاہ کی محراب پر بنی ہوئی مکمل مچھلی یاد آتی تھی۔
انھیں سیروں میں مجھے یقین ہوا کہ مچھلی میرے شہر کا نشان ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے مبہم سے معمے کا حل دریافت کر لیا ہے، لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ حل اصل معمے سے بھی زیادہ مبہم ہے۔ اپنے باپ کا خیال مجھ کو بار بار آنے لگا، یہاں تک کہ ایک گم نام تاریخی عمارت کے کھنڈر کی طرف بڑھتے بڑھتے میں پلٹ پڑا۔ گھر پہنچ کر میں نے استاد کے کمرے والی چٹائی اٹھائی اور دوہرے دالان میں اپنے باپ کے آخری بستر کی جگہ بچھا دی۔ چٹائی کے عین اوپر چھت کی کڑیوں میں سرخ سبز کاغذ کی سجاوٹ جھول رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس دالان کی بھی مرمت ہوئی ہے اور چھت میں جگہ جگہ نیا مسالا بھرا گیا ہے۔ لیکن چھت کا وہ حصہ جہاں پر یہ سجاوٹ تھی، بے مرمت رہ گیا تھا اور اس کے پرانے پھو لے ہوئے مسالے کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہ بہت جلد گرنے والا ہے۔ میں نے خواہش کی کہ یہ ابھی گر جائے، اور چٹائی پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسی وقت مکان کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔
آخری بار استاد کے ساتھ آنے والی چھوکری دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے سر کھجائے جا رہی تھی، دوسرے ہاتھ میں ایک بڑا سا فصلی پھل تھا جس پر وہ اِدھر اُدھر دانت لگا رہی تھی۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر تک پھل پر منھ مارنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرتی رہی، پھر بولی:
’’طاہرہ بی بی نے کہلایا ہے، آپ کے استاد نہیں رہے۔‘‘
ایک لمحے کے لیے مجھے وہم ہوا کہ استاد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ میں دیر تک چھوکری کی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ شرمانے لگی۔
’’کب؟‘‘ آخر میں نے پوچھا۔
’’کئی دن ہو گئے۔ ہم تین بار آئے، آپ ملے نہیں۔‘‘
’’ان کے گھر میں کون کون ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’استاد کے گھر میں ؟ کوئی بھی نہیں۔‘‘
’’ان کی دیکھ بھال کون کرتا تھا؟‘‘
’’طاہرہ بی بی آ جاتی تھیں۔‘‘
’’طاہرہ بی بی ان کی کون ہیں ؟‘‘
’’پتا نہیں ۔‘‘
’’وہ رہتی کہاں ہیں ؟‘‘
’’طاہرہ بی بی؟ پتا نہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ واپس جانے کے لیے مڑ گئی۔ کچھ دیر بعد میں نے صدر دروازہ بند کر لیا اور مڑ رہا تھا کہ پھر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھول دیا۔ چھوکری سامنے کھڑی تھی۔ اب اس کے ہاتھ میں پھل کی جگہ سرخ کپڑے کا گولا سا تھا۔
’’ہم بھول گئے تھے‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا اور گولا میری طرف بڑھا دیا، ’’یہ رکھ لیجیے، کنجیاں ہیں۔‘‘
’’کیسی کنجیاں ؟‘‘
’’پتا نہیں، طاہرہ بی بی نے دی ہیں۔‘‘
میں نے صدر دروازہ بند کر لیا۔
چٹائی پر کھڑے ہو کر میں نے گولے کو کھولا۔ یہ کسی دبیز مگر بہت نرم کپڑے کا پارچہ تھا جس کے ایک کونے میں پرانی وضعوں کی کنجیاں بندھی ہوئی تھیں۔ پارچے میں سے فصلی پھل کی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے کنجیاں کھول کر اسے چٹائی کے پائینتی زمین پر ڈال دیا اور کنجیوں کو گننے لگا۔ ان میں سے کچھ کا رنگ حال ہی میں صاف کیا گیا تھا۔ سب سے بڑی کنجی، جس کے پورے حلقے پر باریک باریک ہندسے کھدے ہوئے تھے، مجھے استاد کے چہرے سے مشابہ نظر آئی لیکن مشابہت کا سبب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کنجیاں چٹائی کے نیچے رکھ دیں اور ایک بار پھر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے اسی جگہ پر اپنے باپ کا مرنا یاد آیا اور میں نے اپنا بدن اکڑا کر پیر پھیلا دیے۔ میری ایڑی کو نرم کپڑے کا لمس محسوس ہوا۔ میں نے آنکھیں بند کیے کیے خم ہو کر سرخ پارچے کو اٹھا لیا اور اس کا گولا بنا کر پھینکنے کو تھا کہ مجھے احساس ہوا اس میں سے پھل کی خوشبو غائب ہو گئی ہے۔ میں اسے اپنے نتھنوں کے قریب لایا اور مجھے شبہ ہوا کہ اس میں کوئی اور خوشبو موجود ہے۔ میری آنکھیں میری خواہش کے بغیر کھل گئیں۔ میں نے پارچے کو پورا کھول کر دونوں ہتھیلیوں پر پھیلا لیا۔ یہ ایک بڑا رو مال تھا جس کے بیچ میں بہت ہلکے سبز رنگ کے ریشمی دھاگے سے ایک مچھلی کڑھی ہوئی تھی۔ اس کے سفنوں کا جال چھوٹے چھوٹے پھندوں سے بنایا گیا تھا اور جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میری توجہ مچھلی سے زیادہ اس مدھم خوشبو کی طرف تھی جو پورے رو مال میں گشت کرتی معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے رو مال کا پھر سے گولا بنا لیا اور پوری سانس کھینچ کر اسے سونگھا۔ خوشبو بہت آہستہ آہستہ ابھرتی اور پھر ڈوب جاتی، جیسے کوئی سوتے میں سانس لیتا ہو۔ مجھے خوشبوؤں سے دلچسپی اور عطریات کی اچھی پہچان تھی مگر اس مرکب خوشبو کا کوئی بھی جز میری شناخت میں نہ آ سکا۔ میں نے اسے دیر تک اور بڑے دھیان سے سونگھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ بڑی آہستگی کے ساتھ رو مال سے نکل کر میرے سینے میں اتر گئی ہے۔ میں اسے پہچان تو نہ سکا لیکن مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ ذرا بھی تیز ہوتی تو اسی وقت میرا دم گھٹ جاتا۔
جب نیند سے میری آنکھیں بند ہونے لگیں تو مجھے دھندلا سا خیال آیا کہ میں اپنے باپ کے مرنے کی جگہ پر لیٹا ہوا ہوں اور ابھی ابھی میں نے اپنے استاد کے مرنے کی خبر سنی ہے۔ لیکن اس خیال کا کوئی اثر ظاہر ہونے سے پہلے ہی میں سو گیا۔
میں نے اپنے استاد کو دیکھا، لیکن خواب میں وہ مجھے ایک نوجوان لڑکی نظر آیا اور اس پر، جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہوتا ہے، مجھ کو ذرا بھی تعجب نہیں ہوا۔
٭٭٭