عصرِ حاضر کی رِیت کے مطابق آسمان نے اپنے رخِ روشن پہ اسموکی میک اپ کر لیا تھا۔ ستارے کسی دوشیزہ کی نتھنی کے مانند تاباں تھے۔ ماہ نے مہر سے ایک ماہ کا اضافی نور مستعار لے لیا تھا۔ اسے شعور تھا کہ شامِ وصل عُرس کی دیوی ہے۔ ہوا میں خنکی پاؤں پھیلا کر سو رہی تھی۔ باغ میں گھاس شرابی کے مانند خراماں خراماں چلنے کی ناکام کوشش میں محو تھی۔ شور کی آلودگی ابدی نیند سو رہی تھی۔ محبت کی سوندھی خوشبو عالم کو مہکا رہی تھی۔ وہ عطرِ محبت ایک عاشق اور محبوبہ کے وصال کا نتیجہ تھی۔ عالمِ ارواح کے بجائے انھیں عالمِ موجود پر یقین تھا۔ عاشق حسِ لمس کا جائز استعمال کرتا تو محبوبہ کی حسِ شامہ متحرک ہو جاتی۔ بسترِ زمرد پر لیٹے فلک کو تکتے ہوئے ایک دوسرے کی سانسین گن رہے تھے۔ کانچ کی بنی گڑیا نے حسرت بھری نگاہوں سے آسمانی نورانی موتیوں کو دیکھا اور انھیں اپنے قدموں کی زینت بنانا چاہا۔ عاشق سے مرادِ من کا اظہار کیا:
’’اے سلطانِ من! کیا یہ انجم و کواکب میرے تلووں کو چومنا نہیں چاہتے‘‘
عاشق بسترِ زمرد سے اٹھا اور اپنا مضبوط ہاتھ محبوبہ کی طرف بڑھا دیا اور اس کے زمین سے اٹھنے کے بعد فولادی بانہوں میں تھام کر تھوڑے فاصلے پر رکھے جھولے کے قریب لے گیا۔ وہ جھولا جسے دنیا والے پینگ کا نام دیتے ہیں۔ محبوبہ کو آرام سے اس پر بٹھایا اور اس کا نوری لہنگا پورے جھولے پر پھیلا دیا۔ جھولے کے پیچھے آ کر اس نے اسے جھلایا۔ جھولے نے بڑے فخر سے بلندی کا سفر طے کیا۔ رفتہ رفتہ جھولے کی بلندی میں اضافہ محبوبہ کی کلکاریوں کا باعث بنا۔ بالکل ویسے جیسے صراحی کی کلکاریوں نے مے خانے میں ایک سماں باندھ دیا ہو۔ ماہ و ستارہ کے نور میں اضافہ ہو گیا۔ عاشق نے فولادی ہاتھوں سے ایسا جھولا جھلایا کہ محبوبہ کو جھولا آسمان کی بلندیوں تک لے گیا۔ انجم و کواکب کو اس نے اپنے سشیل ہاتھوں سے چھُوا اور اپنے سنگ واپس دھرتی پر لے آئی۔
’’سلطانِ من! جانِ من! انھیں کتنا غرور تھا اپنے نور پر‘‘
’’اے رشکِ انجم و فلک! غرور کا مقام خاک ہے۔ انھیں زمین پر رکھ دو‘‘
اس کے بعد محبوبہ نے عاشق کو اپنے سنگ جھولے میں نوری لہنگے پر لٹا دیا اور اس کے سر پر عقیدت سے سر رکھ کر سو گئی۔
٭٭٭