تو مجھے خط لکھنا
جب میری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا
تم کو جب نیند نہ آئے تو مجھے خط لکھنا
نیلے پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں ہنستا ساون
پیاسی دھرتی میں سمانے کو ترستا ساون
رات بھر چھت پہ لگاتار برستا ساون
دل میں جب آگ لگائے تو مجھے خط لکھنا
جب پھڑک اٹھے کسی شاخ پہ پتہ کوئی
گدگدائے تمہیں بیتا ہوا لمحہ کوئی
جب میری یاد کا بے چین سفینہ کوئی
جی کو رہ رہ کے جلائے تو مجھے خط لکھنا
جب نگاہوں کے لیے کوئی نظارا نہ رہے
چاند چھپ جائے گگن پر کوئی تارا نہ رہے
بھرے سنسار میں جب کوئی سہارا نہ رہے
لوگ ہو جائیں پرائے تو مجھے خط لکھنا
٭٭٭
مجبوری
مجبوری کے موسم میں بھی جینا پڑتا ہے
تھوڑا سا سمجھوتہ جانم کرنا پڑتا ہے
کبھی کبھی کچھ اِس حد تک بڑھ جاتی ہے لاچاری
لگتا ہے یہ جیون جیسے بوجھ ہو کوئی بھاری
دِل کہتا ہے روئیں، لیکن ہنسنا پڑتا ہے
کبھی کبھی اتنی دھندلی ہو جاتی ہیں تصویریں
پتا نہیں چلتا، قدموں میں کتنی ہیں زنجیریں
پاؤں بندھے ہوتے ہیں، لیکن چلنا پڑتا ہے
روٹھ کے جانے والے بادل، ٹوٹنے والے تارا
کس کو خبر کن لمحوں میں بن جائے کون سہارا
یار جیسا بھی ہو، رشتہ نبھانا پڑتا ہے
٭٭٭
تو مجھے خط لکھنا ایک اچھی نظم ہے۔خصوصا اس دور میں جب بچوں کو خط کے بارے میں بتانا پڑتا ہے۔خط کی ثقافت بھی کیا خوبصورت ثقافت تھی۔