نظمیں ۔۔۔ سلیم انصاری

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

 

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

لہو میں تر بہ تر نظمیں

مری سب بے اثر نظمیں

شکستہ آرزوؤں اور بنجر حسرتوں کی زرد نظمیں

اداسی، کرب اور افسردگی کی سرد نظمیں

بدن بیزار نظمیں

جنوں آثار نظمیں

بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کی عبرتناک نظمیں

برہنہ ساعتوں کے درمیاں بے باک نظمیں

نئی نسلوں کی مبہم، بے یقیں بے کار نظمیں

مری بے سمت سوچوں کی یہ دل آزار نظمیں

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

مری نظموں کے قاری مت بنو تم

وگرنہ اعتبارِ ذات بھی اک دن گنوا دو گے

مجھے رہنے دو اپنی نظم کا قاری

کہ میں تو نظم کی تخلیق کی لذت سے واقف ہوں

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

کہیں ایسا نہ ہو تم خود

مری نظموں کے اک کردار کی صورت

اداسی کے گھنے جنگل میں کھو جاؤ

تو پھر۔۔

بہتر یہی ہے

مری نظموں کے قاری مت بنو تم

مجھے رہنے دو اپنی نظم کا قاری

٭٭٭

 

 

 

 

خواہشیں

 

انوکھی خواہشیں دل میں پنپتی ہیں

ہے پنجرے کے پرندے سے تمنا چہچہانے کی

بجھے دل سے توقع مسکرانے کی

اداسی کے نگر میں مسکراہٹ کے گلابوں کو کھلانے کی

ہواؤں پر لکھے لفظوں کو

پھر سے گنگنانے کی

جو کب کے جا چکے ہیں،

پھر

انہیں واپس بلانے کی

کسی صورت جو ممکن ہی نہیں ہے اب

اسے ممکن بنانے کی

انوکھی خواہشیں دل میں پنپتی ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے