……………………………………………
پاؤں پاؤں چلتے آؤ
……………………………………………
پرسوں نرسوں سوچتا تھا
بطنِ فردا میں کوئی دن اُخروی ایسا بھی ہو گا
جس میں ما معنیٰ مرا ماضی پلٹ کر ساعتِ امروز ہو گا؟
اب پس ِپردہ بالآخر حال، ماضی اور مستقبل اکٹھے ہو گئے ہیں
تو مجھے کہنے میں قطعاً کوئی پیش و پس نہیں ہے
آنے والے دن کسی مستقبل ِ امکاں کا دعوےٰ کیا کریں گے؟
میں خود ایسا حالِ حاضر باش تھا جو
رہ نوردوں
رفتگان و قائماں کو
ماضئ مطلق کی اڑتی گرد میں ملبوس
پیچھے چھوڑ کر امکاں کی جانب
برسوں پہلے چل چکا تھا
!
آج جب یہ آنے والے کل کا امکاں
میری مٹھّی میں ہے، تو میں
اپنے پیچھے آنے والے
رہ نوردوں سے فقط اتنا کہوں گا
راستہ سیدھا ہے یارو
پیچھے مڑ کر دیکھنا
پتّھر کا بُت بننے کی خواہش کا اعادہ ہے ….
کہیں ماضی میں گُم ہونے کی خواہش!
(یہ سمجھ لو)
اس لیے بہتر یہی ہے
پاؤں پاؤں چلتے آؤ
…………………………………………
(چار دہائیاں پہلے نئی نظم اور رن۔آن لائینز کی شائعیت کے سیاق میں آج کی میری سوچ کا اعلامیہ)
٭٭٭
بہ ایں لطیفہ دماغ ِ خرد معطر کُن(عرفی)
……………………………………………
کیوپڈ
……………………………………………
سترہ برس کی عمر میں مجھ کو
اک اندھے لڑکے نے چلّہ تان کے اپنا
تیر جو مارا تھا، وہ دل کو چھید گیا تھا
زخم بہت کاری تھا، لیکن
دھیرے دھیرے، اچھا ہوتے ہوتے آخر
اک دھندلا سا داغ ہی باقی چھوڑ گیا تھا
لیکن نصف صدی تک اس کے
میٹھے میٹھے درد کو سہتے سہتے اب میں سوچ رہا ہوں
مجھ کو اگر وہ اندھا لڑکا
پھر اک بار نظر آ جائے
تو اس سے یہ پوچھوں۔۔۔۔ لڑکے
یہ تو بتا کیا تیری بصارت لوٹ آئی ہے
کیا تجھ کو اب سب کچھ صاف نظر آتا ہے
جو تو نے اب
میرے دل پر تیر چلانا چھوڑ دیا ہے؟
٭٭٭
……………………………………………
بایَٔ ِ ذنب ِ قُتلت
(کس جرم کی پاداش میں مارا گیا ہوں؟)
……………………………………………
اک سر جو معلق ہے سوا نیزے پر
اک سر جو کسی جسم سے کاٹا گیا تھا
اک سر کہ ٹپکتے ہیں ابھی تک جس سے
لو دیتے ہوئے گرم لہو کے قطرے
اک سرجو مزین تھا بدن پر اپنے
اک سر جو کبھی موتی جڑے تاج سا تھا
یہ سر کئی صدیوں سے معلق کھڑا ہے
اور رفتہ و آئندہ کی سب نسلوں سے
آقاؤں سے، ملّاؤں سے، جرنیلوں سے
اسکندروں ، داراؤں سے،چنگیزوں سے
یورپ کے ہوس کار عناں گیروں سے
کرتا ہے فقط ایک سوال، ایک ہی بات
میں تو فقط اک عام سا شہری تھا، مجھے
کس جرم کی پاداش میں مارا گیا ہے؟
٭٭٭