’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘ ڈاکٹر صادقہ نواب سحرؔ کا پہلا ناول ہے جو ۲۰۰۸ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک اس کی مقبولیت بڑھتی ہی گئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ ناول ۲۰۱۰ئ میں کراچی سے اور اس کے بعد ۲۰۱۴ء میں تلگو میں بھی شائع ہو کر انعام سے نوازا گیا ہے۔ ناول واحد متکلم میں متاشا کے ذریعہ یعنی سوانحی انداز میں بیان ہوا ہے جو اپنے بچپن کی دھندلی یادوں سے لے کر حال تک کے بہت سے واقعات سناتی ہے۔ اس لیے کوئی واقعہ غیر ضروری نہیں لگتا سب ایک دوسے سے مربوط نظر آتے ہیں۔
ناول کے پہلے پیراگراف میں متاشا نے اپنے پر دادا کے پر دادا کا ذکر کیا ہے جو بہت بڑے شاستری تھے۔ مندر میں پجاریوں سے بھی اونچے عہدے پر تھے اور انھیں راجا کے دربار میں بھی بہت عزت حاصل تھی۔ ان کا لباس اور جنیوؤ سونے کے تاروں اور ہیرے موتیوں سے بنا ہوا تھا۔ ان کے بیٹے نے اپنی پسند سے کسی انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی اور وہ لڑکی ہندو مذہب کے مطابق خود کو نہ ڈھال سکی بلکہ وہ تو چوکھٹ لانگھنے سے پہلے ہی بیزار ہو گئی۔ ان کے بیٹے درگا پرسادشادی کر کے پہلی بار گھر آئے تو شاستری جی جگدمبا پرساد نے اپنی شریک حیات کو دونوں پر گوبر اور پانی چھڑکنے کا حکم دیا۔ تبھی وہ انگریز لڑکی وہاں سے فوراً واپس لوٹ گئی اور ساتھ میں درگا پرساد بھی۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’بہو نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ پھر گرجدار آواز سنائی دی۔
رک جاؤ۔ پہلے ان پر گوبر پانی ڈالو پھر لاؤ۔
ماں اس کے سر پر چہرے پر، فراک پر تیزی سے پانی چھڑکنے لگیں۔ انھیں بڑی جلدی تھی، کہیں موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے لڑکی نے جھک کر فراک پر دیکھا۔ انگلی سے چھو کر باس لی۔
ناک سکوڑی۔
چھی…ای…ای کاؤ ڈنگ۔ ‘‘ ۱ ؎
اس اقتباس کا بظاہر تو متاشا سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے دادا پر دادا کے زمانے کا واقعہ ہے لیکن بتانا مقصود یہ ہے کہ ناول نگار نے دو تہذیبوں کے ٹکراؤ کو کس خوبی سے پیش کیا ہے۔ بہر کیف اس شادی کے بعد جو نسل وجود میں آئی وہ نہ تو پوری طرح برہمن تھی اور نہ ہی کرسچن بلکہ ایک Mash-up تھی، لیکن براہمن گوتر کی پاسدار تھی۔ یہاں پر ایک بات اور بطور خاص عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ شاید ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں مذہب تبدیل ہونے کے بعد بھی گوتروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’بچوں کی شادیوں میں برادری کے دوسرے لوگ آتے تو تھے، لیکن اپنا گڑ چوڑا ساتھ کھانے کے لئے لاتے۔ شادی میں پروسا ہوا کھانا وہ بالکل نہیں کھاتے۔ پھل اور دودھ ضرور لے لیتے تھے۔ ان شادیوں میں، بلکہ آج تک ایسا رواج ہے کہ یہاں برہمن گوتر کے عیسائی لڑکا اور لڑکی ڈھونڈ کر شادی کی جاتی ہے۔ ریت رواج بھی کھچڑی ہو گئے ہیں۔ ‘‘ ۲ ؎
ناول کی Settingکئی شہروں پر مبنی ہے جن میں بن متر پور، رڑکیلا، کولکاتہ، علی گڑھ اور ممبئی بطور خاص ہیں۔ جن میں ممبئی کا حصہ زیادہ موثر ہے بلکہ متاشا کی زندگی کی نئی شروعات اسی شہر میں ہوتی ہے، لیکن منظر نگاری کے ذیل میں بن متر پور کا منظر جہاں متاشا کا بچپن گزرا تھا بڑا ہی خوب صورت ہے، جسے مصنفہ نے ’’پاپا کا گھر‘‘ کے عنوان سے رقم کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’بن متر پور میں ہمارے پاپا کا گھر تھا گھر کے آس پاس پہاڑیاں تھیں۔ رڑکیلا سے آگے بیس تیس منٹ کے فاصلے پر جو چونے اور تانبے کی کانوں کا علاقہ تھا۔ جہاں ٹاٹا، ٹیلکو کی بڑی فیکٹریاں تھیں۔ ہمارا گھر فارم ہاؤس جیسا تھا۔ کل سات کمرے تھے۔ دو گائیں، ان کے بچھڑے، پندرہ بکریاں، چار سو مرغیاں اور ایک مور، جو مینو، مینو پکارنے پر دوڑتا چلا آتا اور اس کے ساتھ ہی میں بھی دوڑی چلی جاتی۔ ایک چھوٹا سا حوض تھا، جس میں پچیس بطخ اور تین راج ہنس اکثر اپنے پنکھوں سے پانی چھترایا کرتے میں گیٹ کے پاس تین کتے ہوتے۔ ایک طرف چھوٹا سا خوبصورت گارڈن تھا جس میں طرح طرح کے پھول اور سبزیاں لہلہایا کرتیں۔ گھر میں سبزیاں باہر سے بہت کم آیا کرتیں۔ گیراج میں لینڈ ماسٹر گاڑی کھڑی رہتی۔ یہاں کام کرنے والے نوکر گارڈن کی دیوار کے پیچھے اپنے جھونپڑے بنا کر رہتے تھے۔ وہاں سے ایک چھوٹا سا گیٹ اندر آنے کے لئے تھا۔ ‘‘ ۳ ؎
صفحہ ۴۷پر بعنوان’ ڈاکٹر پربھاکر ‘میں بھی کٹک کے میلے کا دل کش منظر پیش کیا گیا ہے۔ اسی صفحہ پر اگلا عنوان ’ایڈن گارڈن، کولکاتہ‘ میں کولکاتہ کی چہل پہل، گلیاں، سڑکیں اور ٹراموں کی منظر نگاری بھی مصنفہ نے کمال فن کے ساتھ کی ہے کہ قاری کچھ وقت کے لیے تخیل میں ان جگہوں پر پہنچ جاتا ہے۔
ناول ’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘تانیسیت کا علمبردار ہے یا نہیں یہ کہنا تھوڑا مشکل ہے۔ ایک بات یہ ہے کہ مصنفہ نے از خود ناول کا انتساب متاشا اور اس جیسی بے شمار متاشاؤں کی نذر کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صفحہ ۱۹ پر جوTitle paragraph ’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘ ہے اس کو پڑھنے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں کی دبی کچلی آواز کو بلند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صفحہ ۳۵ پر متاشا کی عصمت دری کا واقعہ، وہ بھی اس کے پڑوس کے موریشور کاکا کے ذریعہ۔ اس کے سگے چاچا نے بھی علی گڑھ میں اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ ان واقعات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ متاشا ایک مظلوم لڑکی ہے اور اس کے حق میں فیصلہ ہونا چاہئے۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اگر کسی تخلیق کے مؤنث کردار پر ظلم ہوا ہو تو اس تخلیق کو سیدھے Feminism سے جوڑ دیا جائے۔ اس طرح سے مصنفہ کادوسرا ناول ’’جس دن سے …!‘‘میں جیتیش نامی لڑکے کی بھی حمایت نظر آتی ہے تو کیا ہم اسے Andro یا Masculinism کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں …؟اگر نہیں …تو کیوں ؟یہ سوچنے کی بات ہے۔ اگر کسی کردار کے ساتھ برا سلوک یا برا رویہ ہوتا ہے تو فطری طور پر ہمیں اس سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اس میں Feminism یا Masculinism کا دخل نہیں رہتا بلکہ انسانیت (Humanism)کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
ناول میں ’ متاشا‘ کے جو معنی بتائے گئے ہیں مِیت کی آشا یعنی محبوب کی امید وہ ناول کا احاطہ کرنے پر صادق آتے ہیں۔ متاشا کی زندگی میں کمسنی سے ہی کئی لڑکے یا مرد آئے لیکن کوئی اس کا میت نہ بن سکا۔ بعد میں اس کی ملاقات گوتم شاہ نامی شخص سے ممبئی میں ہوئی جو متاشا سے عمر میں ۲۲ سال بڑا اور پانچ بچوں کا باپ تھا۔ متاشا اسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتی ہے اور بڑے ہی سلیقے سے آخری سانس تک اس کی خدمت کرتی ہے۔ شوہر کے گزرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے نے بدتمیزی شروع کر دی تھی اور متاشا کا اپنا بیٹا ابھی چھوٹا تھا۔ گوتم شاہ کے بڑے بیٹے نے باپ کے بزنس اور جائداد کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا تھا۔ ناول کے اخیر میں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ متاشا کی زندگی پریشانیوں سے شروع ہوئی اور تمام عمر پریشانیوں میں گھری رہی۔ بس گوتم شاہ کے ساتھ اس نے کچھ سال آرام سے گزارے ہوں گے۔ اس کی موت کے بعد وہ پھر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئی۔ گیارہ سال کی عمر میں ماں باپ کا رویہ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے متاشا نے Nun بننے کے بارے میں سوچا تھا شوہر کی موت کے بعد بھی وہ کچھ ایساہی سوچنے لگتی ہے۔ ساری زندگی مشکلات میں گزارنے کے بعد جب متاشا کا اپنا بیٹا جوان ہوا اور بمشکل پڑھائی کر سکا اور کسی طرح سیلس میں بن کر اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسے ایک لڑکی سے پیار ہو گیا ہے اور لڑکی حاملہ بھی ہو گئی۔ متاشا جو کہ زندگی سے بیزار ہو کر خدمت خلق کے لیے کسی آشرم کا رخ کرنا چاہتی تھی لیکن اپنے آنے والے پوتا یا پوتی کی وجہ سے خود کو روک لیتی ہے وہ ایک اور زندگی برباد نہیں ہونے دینا چاہتی ہے اور آنے والے بچے کی پرورش کے لیے کمربستہ ہو جاتی ہے۔
ناول میں بہت سے کردار ہیں ان کی عمر بلکہ یہ کہنا چاہئے مصنفہ نے کئی پیڑھیوں کو ناول میں شامل کیا ہے لیکن اس خوبی اورCalculation کے ساتھ کہ کہیں بھی کسی کی عمر اور اس کے عہد میں گڑبڑی معلوم نہیں ہوتی۔ یہ ایک باریک کام ہے جس میں غلطی ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں لیکن صادقہ نواب سحرؔ نے اسے بخوبی انجام دیا ہے۔
مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ متاشا جو زندگی کی تلخیوں سے عمر بھر دو چار ہوتی رہی اور شوہر کی رفاقت بھی تا دیر قائم نہ رہ سکی۔ وہ مِیت کی آشا میں ہی رہی اور ساری زندگی گزار دی لیکن اس کی آشا پوری نہ ہو سکی اوراسے ناول کا مرکزی خیال سے عبارت کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ متاشا کے کردار سے یہ بھی سیکھنے کو ملتا ہے کہ زندگی لاکھ تلخ سہی لیکن اسے دیدہ دلیری سے تو کبھی در گزر کر کے گزارا جا سکتا ہے۔ زندگی ایک مکڑ جال ہے انسان جب اس میں پھنستا ہے تو نکلنا دشوار ہوتا ہے۔
حواشی: –
۱-کہانی کوئی سناؤ، متاشا، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۸ء، ص-۱۴
۲-ایضاً، ص-۱۵
۳-ایضاً، ص-۱۸
٭٭٭