میں اور میرے رفیق حیات (ابو الکلام قاسمی) ۔۔۔ پروفیسر دردانہ قاسمی

الحمد للہ، رب العزت کا بڑا کرم اور احسان ہے کہ میرے رفیق حیات ابو الکلام قاسمی تقریباً چالیس سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خدمت انجام دے کر دسمبر ۲۰۱۵ء میں یونیورسٹی کی خدمات سے سبک دوش ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ قاسمی صاحب صحت اور سلامتی کے ساتھ اپنے علمی منصوبوں کو آگے بڑھائیں اور مزید کامیابی حاصل کریں۔ ان چالیس سالوں میں جس طرح قاسمی نے علمی و ادبی کاوشوں کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا، یہ بات قابلِ تعریف اور قابلِ رشک ہے۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ درس و تدریس کے میدان میں اپنے آپ کو باخبر رکھا اور اپنے شاگردوں کے لیے گفتگو کے راستے ہمیشہ کھلے رکھے۔ بلکہ اپنے علمی اور تحریری کاموں سے کبھی غفلت نہیں برتی، نہ ہی تساہل برتا اور خود کو علمی کاموں کے لیے پوری طرح وقف کیے رکھا۔

میری شادی ابو الکلام قاسمی سے مارچ ۱۹۷۹ء میں ہوئی۔ اس کے بعد سے اب تک جیساکہ میں نے ان کو سمجھا اور جانا شروع سے ہی بہت اصولی، وقت کے پابند، فضول کاموں سے اپنے آپ کو الگ رکھنا، پڑھائی کا وقت مقرر، انھیں کہیں بھی کیسی ہی مصروفیت ہو، لکھنے پڑھنے کا وقت نکالنا طے ہوتا۔ شام کی مصروفیات میں عام طور پر مغرب کی نماز پڑھے بغیر گھر سے نہیں نکلتے ہیں۔ نو بجے تک گھر واپس آ کر کھانا کھانا اس کے بعد چہل قدمی کے لیے چلے جانا، واپس آ کر عشاء کی نماز اور اس کے بعد ۱۰ بجے سے ۱۲۔ ۱ بجے تک پڑھنے لکھنے کا کام کرنا، اس درمیان میں اٹھ کر تازہ ہوا کھانا ان کی زندگی کے معمولات میں شامل ہے۔

گھر، مہمان نوازی، بچے ان کی پڑھائی یا گھریلو ضروریات کی کسی چیز سے قاسمی کو زیادہ مطلب نہیں ہوتا۔ یہ سب ذمہ داری میری ہوتی کہ میں کس طرح ان سب چیزوں کا انتظام کروں۔ قاسمی کی پسند و ناپسند بہت سخت ہے، کوئی چیز جلدی پسند نہیں آتی اور جب پسند آتی ہے تو ایک ہی نظر میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ بچوں کے کپڑے یا گھرکی ضروریات کی چیزوں کی خریداری میں قاسمی کے ساتھ میں ہی کرتی ہوں کیوں کہ وہ ناپسندیدہ چیزوں کو بہت کم برداشت کرتے ہیں۔ گھر میں کیا پکنا ہے، کون مہمان آیا ہے، کس چیز کی ضرورت ہے وہ سب انتظام کرنا میری ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر زیادہ پریشانی ہوتی ہے تو سامان منگوا دیا کرتے ہیں یا خود لا کر دے دیتے ہیں۔

لکھنے پڑھنے کے لیے پُر سکون جگہ کا ہونا ان کی پہلی شرط ہے اور اس میں کسی قسم کی خلل اندازی یا شور شرابا بالکل پسند نہیں۔ کسی طرح کی بے جا مداخلت (disturbance) نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ بجلی بہت دیر سے غائب تھی، اِنورٹر کے ڈسچارج ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے کہا کہ سمیر کو بہت ضروری ہوم ورک کرانا ہے، میں بھی یہاں بیٹھ جاتی ہوں۔ فوراً بولے نہیں تم لوگ دوسرے کمرے میں جاؤ اور پنکھا چلا لو۔

جس زمانے میں سمینار ہوتے اور قاسمی کو مضمون تیار کرنا ہوتا اُس وقت بھی یہی حال ہوتا۔ کسی کام کے لیے فرصت نہیں، اگر بچے کہتے کہ پاپا سے فلاں کام کروا دیجیے تو میرا جواب یہی ہوتا کہ سمینار سے پہلے کسی قسم کی بات کرنا بے کار ہے، ورنہ اُلٹی ڈانٹ پڑے گی۔ ایک مرتبہ تو حد ہی کر دی۔ بچے چھوٹے تھے، میں ان کو لے کر اپنے والد کے گھر گئی ہوئی تھی۔ سمینار چل رہا تھا، انھیں پیپر پڑھنا تھا، جلدی میں گھر کھلا چھوڑ کر سمینار میں چلے گئے۔ شام کو جب گھر واپس آئے تو دیکھا کہ اپنے گھر میں کوئی دوسرا تالا لگا ہوا ہے۔ ایک منٹ کے لیے گھبرائے اور سناٹے میں آ گئے کہ دوسرا تالا کس کا ہے اور کیوں؟ اتفاق سے برابر والے گھر میں جو لوگ رہتے تھے انھیں معلوم تھا کہ میں ابا کے گھر گئی ہوں، لہٰذا انھوں نے ہمت کر کے گھر چیک کیا اور اپنا تالا لگا دیا اور ان کو اندازہ ہو گیا کہ قاسمی صاحب جلدی میں گھر کھلا چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ آج آپ کا گھر دن بھر کھلا پڑا تھا۔ جب ساری کہانی قاسمی کو معلوم ہوئی تو بولے، کیا ہو گیا کھلا رہ گیا ہو گا۔

قاسمی جب کہیں باہر سے آتے تو سب سے پہلے بچوں کو تلاش کرتے اور سامنے نہ دیکھ کر ہزاروں سوالات کرتے کہ بچے کہاں ہیں؟ میں حتی الامکان قاسمی کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھتی ہوں۔ چاہے وہ کھانے پینے کے معاملے ہو یا روزمرہ کے معمولات میں، اکثر یوپی اور بہار کی عادتیں ٹکراتیں لیکن فوراً ان کا حل نکل آتا اور کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنتا۔ مثلاً پورے بہار میں چائے میٹھی پی جاتی ہے اور میٹھا پھیکا کھایا جاتا ہے جو مجھے اور بچوں کو کبھی قابلِ قبول نہیں ہوتا، لیکن میں اس کا حل فوراً نکال لیتی۔ قاسمی کے لیے کم میٹھا بنا کر الگ کر دیتی اور پھر اپنے حساب سے میٹھا ڈال دیتی اور اپنے حساب سے سب کو کھانے کا موقع مل جاتا۔ ویسے عام طور پر کھانے کی عادتیں تاثیر اور سمیر کی مجھ سے الگ ہیں بلکہ اکثر یہ تینوں ایک ہو جاتے ہیں اور میں اکیلی پڑ جاتی ہوں۔ لیکن اب ماشاء اللہ بڑی بہو شمائلہ اور چھوٹی بہو نادیہ بھی میرے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ ایک مرتبہ نادیہ بولی پاپا مجھے سمیر کی آپ سے شکایت کرنی ہے۔ اس زمانے میں وہ لوگ دہلی میں رہتے تھے۔ میں بھی چونکی کیا ہو گیا۔ کہنے لگی کہ یہ سحری میں نہاری کھانے نظام الدین جاتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ تم نے کس سے شکایت کی ہے۔ اس پر قاسمی بولے ہاں بیٹا کہاں کھانے جاتے ہو، کبھی ہم کو بھی کھلاؤ۔ اس پر سب لوگ خوب ہنسے، تب نادیہ کی سمجھ میں آیا کہ اس بات کی شکایت کرنا بے کار ہے۔ کھانے میں دال اور سبزی کا ذکر آنا بے معنی ہے۔ گوشت کے تینوں شوقین ہیں، فرمائش کر کے بنواتے ہیں اور داد دیتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی دعوت ہوتی تو قاسمی گوشت کی طرح طرح کی چیزیں بنواتے اور خود خوش ہو کر کھاتے اور مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔

تعلقات کو نبھانا اور روا داری قاسمی کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بہت زیادہ سوشل اور ملنے جلنے والے آدمی ہیں جب کہ میں مزاجاً بالکل سوشل نہیں ہوں۔ میں گھر میں رہنا زیادہ پسند کرتی ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ شروع سے اپنے دادا کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہے ہیں۔ اس زمانے میں گھر کی لڑکیاں بہت کم باہر نکلتی تھیں، اس کے علاوہ میری والدہ کا بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا اس لیے ابا کو ہم لوگوں کا اکیلے آنا جانا پسند نہیں تھا۔ نتیجہ کے طور پر مزاج میں وہی سب باتیں رچ بس گئی تھیں۔ قاسمی کی طرف سے میرے اوپر کبھی بھی کسی قسم کی کوئی پابندی یا روک ٹوک نہیں رہی۔ لیکن میں اس کے بعد بھی کبھی اکیلی نہیں نکل پاتی تھی۔ وقت یا زمانے کے ساتھ یا ملازمت کی وجہ سے اکثر و بیش تر باہر جانا ہوتا ہے، لیکن میں اب بھی غیر ضروری طور پر کہیں نہیں جاتی ہوں اور اگر جاتی بھی ہوں تب بھی مزید وقت ضائع کیے بغیر گھر واپس آ جاتی ہوں۔

قاسمی اپنے والدین کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے خاص طور پر اپنے والد کا بہت احترام کرتے تھے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔ مجال نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام یا کوئی بات کریں۔ یہ صرف قاسمی کا ہی نہیں بلکہ ان کے اور بھائیوں کا بھی یہی حال تھا۔ گرمی کی چھٹیوں میں اکثر عید اور بقر عید ہوتی تو پابندی سے ہم سب لوگوں کو گھر لے جاتے، وہاں ان کے والدین بڑی بے صبری سے ہم لوگوں کا انتظار کرتے تھے، یہاں تک کہ بچوں کے کپڑے وغیرہ بھی سل کر تیار رہتے کیوں کہ اکثر دیر سے جاتے اور اس وقت کپڑے سلوانے کا وقت نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو تین چار دن ہی رُک پاتے تھے۔ جب چھٹی کم ہوتی تو طے کرتے کہ اب کی عید میں نہیں جائیں گے، لیکن ابا کے ایک خط سے فوراً جانے کا پروگرام بنا لیتے اور جیسے تیسے ریزرویشن کروا کے ہم لوگ گھر پہنچ جاتے تھے۔ پھر جب قاسمی کے بھائیوں کو پتا چلتا کہ بھائی جان آ رہے ہیں تو وہ سب لوگ بھی جلدی جلدی آنے کا پروگرام بنا لیتے۔

ایک مرتبہ عید دسمبر کے آخری زمانے میں ہوئی۔ ٹرین میں ریزرویشن نہیں مل سکا اس لیے پروگرام ملتوی کر دیا گیا، لیکن سب لوگوں کے اصرار پر غور کیا گیا اور یہ سوچاکہ کیوں نہ دن ہی دن کا سفر کیا جائے۔ رمضان کا زمانہ تھا، ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ لکھنؤ جا کر ایک دو دن رُک کر گھر چلے جائیں گے۔ میری بڑی بہن لکھنؤ میں رہتی ہیں، دو دن ہم لوگ ان کے گھر رُکے اس کے بعد وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ آپا نے ساتھ میں بہت ساری افطاری اور سحری کا سامان کر دیا تھا، ہم دونوں (قاسمی) اور دونوں بچے سبھی روزہ سے تھے۔ ساڑھے تین بجے دوپہر میں ٹرین تھی، ہم لوگ وقت پر اسٹیشن پہنچ گئے۔ اس زمانے میں کہرا بہت سخت ہو رہا تھا اس لیے ٹرین لیٹ ہونے کے سبب رد ہو گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ آپ لوگ اپنا اپنا ٹکٹ واپس کر دیں۔ ٹکٹ تو واپس ہو گیا، اب اس پس و پیش میں کہ آگے کیسے جائیں۔ دوسری ٹرین صبح ۶ بجے تھی لیکن اب وہ بھی یقینی نہیں تھی۔ روزہ تو ہم لوگ اسٹیشن پر ہی کھول چکے تھے۔ کہرے کی رات میں گھر جانا اور پھر صبح ۶ بجے واپس آنا ممکن نہیں تھا، اس لیے اسٹیشن پر ہی انتظار کرنے کو ترجیح دی گئی۔ میں تو سارے گرم کپڑے پہنے ہوئے تھی لیکن بچے ٹھنڈ سے پریشان، ان کو ایک ایک سوئٹر نکال کر اور پہنایا تب کہیں جا کر قدرے سکون آیا۔ اسی درمیان میرے بہنوئی صاحب کا فون آ گیا کہ آپ لوگ کہاں پہنچے، تو انھیں بتایا کہ ہم لوگ تو ابھی تک آپ کے شہر ہی میں بیٹھے ہیں۔ شدید کہرے کے باوجود ۱۰ بجے رات میں بیٹے کو ساتھ لے کر فوراً اسٹیشن آئے اور ہم لوگوں کے لیے ریلوے کا گیسٹ ہاؤس کھلوا کر وہاں شفٹ کرا دیا۔ میرے بہنوئی اس وقت D.R.M. Office میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے، اس لیے بہت عمدہ قسم کا گیسٹ ہاؤس مل گیا۔ ٹھنڈ سے راحت ملی، رات وہاں گزاری اور صبح سے پھر ٹرین کا انتظار شروع ہو گیا۔ بچے بہت پریشان ہو گئے تھے۔ میں نے کہا سوچ لو ابھی وقت ہے واپس علی گڑھ چلو ورنہ انھیں مشکل حالات میں سفر کو انجوائے کرو۔ غرض آگے جانے والی جس ٹرین میں ہمارا ریزرویشن تھا وہ ٹرین تو نہیں ملی، جب دوسری ٹرین میں پہنچے تو ٹی ٹی کو ساری روداد سنائی۔ بھلا آدمی تھا، چنانچہ اس نے ہم چاروں کے لیے برتھ کا انتظام کر دیا۔ اللہ اللہ کر کے ٹرین چلی اور ہم لوگوں کو راحت ملی۔ ہم سب لوگ سردی سے کانپ رہے تھے، خیر دھیرے دھیرے ٹرین کی گرمی سے ہم لوگوں کے حواس درست ہوئے۔ شام ہوتے ہی راستے میں روزہ کھولا، پھر سو گئے۔ سحری کے وقت گاڑی نے ہم لوگوں کو مظفر پور پہنچا دیا۔ اسٹیشن پر اُترتے ہی سب سے پہلے سحری کی فکر ہوئی۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر گئے، سحری کا سامان خرید کر لائے اور پھر ہم سب لوگوں نے سحری کھائی۔ اس کے بعد گھر جانے کے لیے ٹیکسی لی، سامان رکھا گیا، ہم لوگ بیٹھے۔ ابھی باہر نکلے ہی تھے کہ پتہ چلا گاڑی خراب ہے اور آگے نہیں جا سکتی۔ خیریت یہ تھی کہ زیادہ دور نہیں نکلے تھے۔ فوراً دوسری گاڑی لی، سامان شفٹ کیا اور روانہ ہوئے۔ آدھ گھنٹہ چلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ صبح سویرے کا وقت، آس پاس کے سارے پٹرول پمپ بند پڑے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر تو ٹیکسی گیس پر چلی پھر وہ بھی ختم ہو گئی۔ بڑی مشکل سے ایک جگہ پٹرول ملا، گاڑی میں پٹرول ڈلوایا تب جا کر جان میں جان آئی۔ غرض اس طرح تین دن کی صحرا نوردی کے بعد ہم لوگ الوداع کے دن گیارہ بجے گھر پہنچے۔ سب لوگ ہم لوگوں کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ ہم لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ قاسمی کی والدہ نے بچوں کو بلا کر خوب خوب بلائیں لیں اور پیار کیا۔ میں اب تین دن کے سفر سے پریشان ہو چکی تھی، اس لیے منزل پر پہنچنے کے بعد سب سے سلام دعا کر کے ایک موٹا لحاف اوڑھ کر سونے چلی گئی۔ الوداع تھا، اس لیے بچوں اور قاسمی کے کپڑے نکال کر رکھ دیے اور یہ تاکید کر دی کہ اب مجھے دو ایک گھنٹہ کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ غرض دو گھنٹے سونے کے بعد اُٹھی، بچے نہا دھوکر مسجد جانے کے لیے تیار تھے۔ میں بھی غسل کر کے فریش ہوئی اور نماز کی تیاری کرنے لگی۔ یہ تھا قاسمی اور ان کے بچوں کا یادگار سفر جو ان کے ابا کی خوشی کی خاطر کیا گیا تھا۔ گھر پہنچ کر والدین سے مل کر سفر کی ساری کلفتوں کو بھول چکے تھے اور نئے عزم کے ساتھ سب لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم اور احسان ہے کہ جس طرح قاسمی نے اپنے والدین اور خاندان کے بزرگوں کو عزت اور قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھا، آج ماشاء اللہ ہمارے بچے تاثیر اور سمیر بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ یوں تو ہم دونوں تقریباً ۱۵ سال سے اکیلے رہ رہے ہیں، پہلے بچے پڑھائی اور پھر معاش کی خاطر باہر چلے گئے لیکن اللہ کے فضل سے کوئی دن بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ لوگ ہماری خیر خبر نہ لیں۔ آج بھی تاثیر عید اور بقر عید پر اپنی بیوی شمائلہ اور بیٹی تمارا کو لے کر پابندی سے علی گڑھ آتے ہیں اور ہم سب لوگ ایک ساتھ عید کرتے ہیں۔ ہم لوگ بچوں اور تمارا سے ملنے کے اتنے ہی مشتاق ہوتے ہیں جیسے قاسمی کے والد تاثیر اور سمیر کے لیے اپنا پیار نچھاور کرنے کو تیار رہتے تھے۔ گھر کے تمام اہم کاموں میں تاثیر کی مدد اور مشورہ کو بہت دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح سمیر شروع سے ہی بظاہر بہت لا اُبالی مزاج کے تھے لیکن اب اتنی دور بیٹھ کر ہم لوگوں کی ذرا ذرا سی بات کی فکر کرنا اور بلا ناغہ کینیڈا سے فون کرنا اور خیریت معلوم کرنا ان کی عادت بن گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی بیوی نادیہ بھی برابر خیال رکھتی ہے اور وہاں رہنے کے باوجود ہر معاملے میں صلاح مشورے کرتی رہتی ہے۔

قاسمی کے والد بہت زیادہ غصہ کرنے والے انسان تھے اور یہی غصہ ان تینوں بھائیوں کو وراثت میں ملا ہے اور اس کا تھوڑا بہت اثر بچوں میں بھی آیا ہے۔ شروع شروع میں ہماری بہویں شمائلہ اور نادیہ قاسمی کے غصہ سے بہت ڈرتی تھیں لیکن میں نے بتایا کہ ابھی تھوڑی دیر میں دیکھنا غصہ بالکل غائب ہو جائے گا۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ بادل کہاں سے آئے اور برس کر چلے گئے، لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ قاسمی کے مزاج میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ بچوں کے معاملے میں جذباتی پہلے بھی تھے مگر اب بہت جذباتی ہو گئے ہیں اور پہلے سے زیادہ خبر گیری کرتے ہیں۔

قاسمی کے لیے وقت کی پابندی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جس طرح کلاس کے لیے ہوتی ہے۔ زندگی کے تمام معمولات بھی پابندی سے ادا کرتے ہیں۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے ڈپارٹمنٹ جانا، اگر کلاس ہے تو پڑھانا ورنہ بیٹھ کر اپنے لکھنے پڑھنے کے کاموں میں مصروف رہنا ان کا معمول ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ بجے دن میں گھر واپس آتے ہیں۔ دوسرے لوگ اس پابندیِ وقت پر تبصرے کرتے ہیں جب کہ وہ لوگ خود کبھی گیارہ بجے سے پہلے ڈپارٹمنٹ نہیں آتے اور کلاسیں بھی دیر کی لگوا رکھی ہوتی ہیں اور پھر دو تین بجے تک بیٹھ کر گویا شعبے پر احسان کرتے ہیں۔ اکثر صبح سویرے وائس چانسلر صاحب visit کرتے ہیں تو قاسمی کے علاوہ شاید ہی کوئی استاد انھیں موجود ملتا ہے۔

قاسمی کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا کہ جب کبھی بچوں کی یا میری طبیعت خراب ہوتی تو قاسمی ہم لوگوں کی پوری نگہ داشت کرتے۔ ڈاکٹر کے ہاں جا کر لمبی لمبی لائن میں انتظار کرنا قاسمی کو سخت ناگوار گزرتا، مگر وہ برداشت کرتے۔ ذاتی طور پر قاسمی ایلوپیتھی، حکیمی اور ہومیوپیتھی دواؤں کی کافی شُدبُد رکھتے ہیں۔ اپنی معلومات کے حساب سے اکثر دوائیں دیا کرتے ہیں اور ہم سب لوگوں پر اپنی ڈاکٹری چلاتے رہتے ہیں اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ مہتاب حیدر نقوی صاحب آئے، سخت نزلہ اور جکڑن کے شکار تھے۔ قاسمی گئے اور ایک معجون ہلکے گنگنے پانی میں بنا کر لائے اور نقوی صاحب کو پلا دیا اور کہا اب اس کا چمتکار دیکھیے گا۔ اگلی صبح جب ڈپارٹمنٹ میں نقوی صاحب کا حال دریافت کیا تو نقوی صاحب کہنے لگے، مجھے کیا ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں، انھیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ کل وہ نزلہ و جکڑن سے کتنے پریشان تھے۔ اسی طرح گھر کے ملازمین بھی دوا مانگتے کہ فلاں تکلیف ہے۔ میرا جواب ہوتا ابھی رُک جاؤ صاحب آتے ہوں گے، وہ دوا دے دیں گے اور قاسمی حال سن کر دوا دیتے۔ خواہ انگریزی ہو یا ہومیوپیتھی کی پڑیا بنا کر دیں جس سے ان کو اکثر کافی فائدہ ہوتا ہے۔

قاسمی کے ملنے جلنے والوں کا حلقہ خاصا وسیع رہا ہے۔ دوست، احباب سب رابطے میں رہتے ہیں، کسی کی طبیعت کے بارے میں سنا تو فوراً عیادت کے لیے پہنچ گئے یا ٹیلی فون کر کے خیریت معلوم کرتے ہیں۔ بزرگ اور خاص طورسے ریٹائرڈ دوستوں کے ساتھ ملنا جلنا، ان کی خیرخیریت دریافت کرنا قاسمی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ ریٹائر حضرات کے ہاں عام طور پر لوگوں کی آمدورفت کم ہو جاتی ہے لیکن قاسمی کو جہاں موقع ملا یا کوئی چھٹی ملی فوراً بزرگ دوستوں، ساتھیوں اور استادوں کی خیریت معلوم کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

قاسمی دورانِ ملازمت بہت بڑے اور اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ مثلاً کوآرڈی نیٹر جنرل ایجوکیشن سنٹر، ڈین فیکلٹی آف آرٹس، چیرمین ڈپارٹمنٹ آف اردو، اسٹیٹ آفیسر وغیرہ وغیرہ۔ قاسمی نے ہر جگہ پوری ایمان داری اور دیانت داری سے کام کیا۔ صدر شعبہ کی حیثیت سے شعبہ کے تمام ارکان کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی تاکہ کہیں کوئی بات کسی کی ناراضگی کا سبب نہ بنے۔ اصول و ضوابط کو بہت اچھی طرح جانتے، سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور کہیں بھی قانونی اڑچنوں کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں بلکہ انہی اصولوں پر آگے بڑھنا قاسمی کی اوّلین کوشش ہوتی ہے۔

آج بھی ڈپارٹمنٹ کے بارے میں سوچتے ہیں، قابل اور پڑھے لکھے لوگوں کی بہت ستائش کرتے ہیں اور ہر وقت اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ ان سے کچھ نہ کچھ حاصل کر لیں۔ اپنے ساتھیوں اور چھوٹوں کے لیے ان کا سب سے بڑا پیمانہ صلاحیت اور اہلیت ہے۔ باقی ساری چیزوں کو قاسمی بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ مارچ اور اکتوبر نومبر کے زمانے میں جگہ جگہ سمینار ہوتے ہیں، قاسمی ان میں مدعو کیے جاتے ہیں اور پھر پیپر لکھنے کے عمل سے مقالہ پڑھنے کے وقت تک کا زمانہ ہم لوگوں کے لیے بہت سخت گزرتا ہے، پھر گھر کی کسی چیز سے مطلب نہیں ہوتا۔ دیر رات تک ڈپارٹمنٹ میں بیٹھ کر پیپر لکھنا اور رات کے کھانے کے بعد ایک بجے رات تک بیٹھے رہنا، بہ مشکل پانچ گھنٹے کے لیے سونا اور پھر فجر کی نماز کے لیے اُٹھ جانا ان کے معمولات میں شامل ہے۔ میں آج بھی کہتی ہوں کہ آپ کتنا کم سوتے ہیں۔ میری جب آنکھ کھلتی ہے مجھے قاسمی جاگتے ہوئے ملتے ہیں۔ غرض اس طرح رات اور دن ایک کر کے پیپر مکمل کرنا اور اس بات کی کوشش کرنا کہ پیپر بہتر سے بہتر ہو۔ اللہ کا احسان ہے کہ آج قاسمی کی کاوشوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا ان کو کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ اس ستائش کا ثبوت ان کے وہ انعامات یا ایوارڈز ہیں جو ہندوستان کی مختلف تنظیموں نے قاسمی کو دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں جہاں اردو ہے وہاں کے لوگ قاسمی کو ان کے نام سے ان کی تحریروں سے خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور پڑھے لکھے طبقے کو ان کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس لیے قاسمی کی پذیرائی ہر جگہ ہوتی ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر قاسمی بیرون ملک خاص طور پر پاکستان، لندن، امریکہ، کناڈا، موریشس، رنگون، قطر وغیرہ اکثر و بیشتر کئی کئی سفر کر چکے ہیں۔ کہیں لکچرز دینے جاتے ہیں تو کہیں چیف گیسٹ، کہیں اکزامنر اور کہیں صدارت کے فرائض انجام دینے جاتے رہتے ہیں۔

قاسمی کی تقریباً دس بارہ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، ان میں زیادہ تر تنقید کی ہیں۔ ان کے علاوہ تین تراجم اور متعدد تالیفات اب تک نہ صرف شائع ہو چکی ہیں بلکہ عزت کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان کو جو اعزازات و انعامات مل چکے ہیں ان میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، امتیاز میر ایوارڈ، یوپی اکیڈمی کا لائف اچیومنٹ ایوارڈ، غالب ایوارڈ اور تقریباً ہر کتاب پر ملنے والے امتیازی انعامات کسی معمولی اہمیت کے حامل نہیں۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر معید الرحمن صاحب کی کتاب ’نذر ابو الکلام ‘ میں شامل ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں

https://adbimiras.com/mai-aur-mere-rafiq-hayat-by-prof-durredana-qasmi/

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے