ناول کی رفیقِ مطالعہ کتاب ۔ مصنّف: عبداللہ جاوید
Reader’s Companion، یعنی ’’رفیقِ مطالعہ کتاب‘‘ ایک ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں کسی ناول کا تجزیہ کیا جاتا ہے (ممکن ہے اس کے احاطے میں ناول کے علاوہ بھی اور تصانیف آتی ہوں)۔ ناول کے واقعات اور کرداروں کا یہ تجزیہ اس ترتیب میں نہیں ہوتا جس میں ناول لکھا ہوتا ہے۔ رفیقِ مطالعہ کتاب میں کہانی کے مختلف حصّوں کو مختلف زاویوں سے مختلف موقعوں پر دہرایا بھی جاتا ہے جس سے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے لہٰذا کچھ باتیں بار بار گھوم پھر کر آتی رہتی ہیں۔ واقعات، تاثر اور خیالات کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے مختلف کرداروں یا حوالوں کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح ایک بات کو مختلف فکری جہات سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس سے ایک قطعی تاثر کی جگہ مجموعی فضا بنتی ہے اور پڑھنے والا اس سے اپنے نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ کہانی کی وہ پیچیدگیاں جو ناول پڑھتے وقت نظر سے اوجھل ہوں، ان کی طرف اشارے ملتے ہیں اور بعض اوقات ان کے تانے بانے بھی جوڑے جاتے ہیں۔ اس عمل میں کبھی آپ ناول کے پچھلے حصّوں کی طرف جاتے ہیں، کبھی آگے، غرض کہانی یا کردار کا تجزیہ آپ کو ناول کے مختلف کمروں سے بار بار گزارتا رہتا ہے اور ساتھ میں ناول پڑھنے کا لطف بھی آتا رہتا ہے اگرچہ صبر ضروری ہے کہ یہ دہرانے کا عمل کچھ لوگوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔
اردو میں اس نوع کا کام کتنا ہوا ہے، ہوا ہے یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا۔ میرے لیے عبد اللہ جاوید صاحب کی یہ تصنیف جس کا عنوان ہے ’’دی جوک ۔ ایک مطالعہ ۔۔۔ ناول کی رفیقِ مطالعہ کتاب‘‘ اس کو پڑھنا ایک نیا تجربہ تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں میلان کنڈیرا (جنھیں وہ ملن کنڈیرا کہنا پسند کرتے تھے) کے ناول ’’دی جوک‘‘ کا مطالعاتی تجزیہ کیا ہے اور اس میں وہ ناول کے مختلف ادوار اور کرداروں سے آپ کو ملواتے ہیں اور ساتھ ہی مختلف سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے سوال بھی جو شاید آپ نے ناول پڑھتے وقت نہ سوچے ہوں۔ ناول خود ایک زبردست تحریر ہے اور کمیونزم، اس کے اسباب، اس کے نتائج، مسائل اور اس کا پیرو کاروں کا خود اپنے اصولوں کے متضاد نظام وغیرہ کی تصویر کشی ہے۔ جبر اور اس کے نتائج اور اس سے بیزاری کا احساس ملتا ہے۔ ان معاملات کو میلان کنڈیرا نے خوبصورتی سے دکھایا ہے اور عبداللہ جاوید نے اس کا بڑا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ ناول کے تجزیے کے بعد اس کتاب میں میلان کنڈیرا اور ناول سے متعلّق کچھ شخصیات کا ذکر ہے، فلسفے کے مختلف نظریات اور ان کے پیش کرنے والوں کا ذکر ہے، میلان کنڈیرا کے طرزِ تحریر پر مختلف ادبا اور نقّادوں کی رائے کے علاوہ خود عبد اللہ جاوید صاحب کا رائے موجود ہے اور آخر میں میلان کنڈیرا کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے۔
عبد اللہ جاوید صاحب شاعر، افسانہ نگار اور نقّاد تو تھے ہی مگر ان کا یہ تنقیدی کام روایت سے ذرا ہٹ کر ہے اور بہت قابلِ توجّہ ہے۔ اس پر بات کرنے اور شاید اس طرح کے مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوچیے کہ ’آگ کا دریا‘ کی رفیقِ مطالعہ کتاب ہمارے ذہنوں میں اس سے متعلّق جو سوالات ہیں، ان کے جواب ڈھونڈنے میں کتنی مدد کر سکتی ہے۔ کتنے ہی اسرار ہیں جن کے بارے میں ہم جاننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے اسے کس حد تک صحیح سمجھا ہے۔ ایسی کتاب ہمیں اس جہاں کی کیسی اچھی سیر کرا سکتی ہے جسے ہم مزید دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا کام اردو کے ان تمام ناولوں کے لیے ضروری ہے جو تہ در تہ پیچیدگی رکھتے ہیں۔
شہناز خانم عابدی صاحبہ جو خود بہت اچھی افسانہ نگار ہیں، ان کا کس قدر شکریہ ادا کروں جن کی عنایت سے مجھے ان کے شوہر جناب عبداللہ جاوید کی یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا اور اس تجربے سے میری آنکھوں پر ایک نئی دنیا کے منظر کھلنا شروع ہوئے۔ میرے خیال میں یہ کتاب اردو نثر سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو پڑھنا چاہیے۔
٭٭٭