باپ نے چوری چوری اپنے بیٹے کے کمرے میں جانا شروع کیا۔ وہ وہاں گھنٹوں بیٹھا رہتا، صرف اس وقت اٹھتا جب اسے اپنی ہر روز کی تلاش اور چھان بین کے سلسلے میں کوئی نئی چیز یا کوئی نیا سراغ ملتا۔ اسے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ علی روز بروز صفائی پسند اور سلیقہ مند ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا کمرہ جس میں ہمیشہ اس کے کپڑے، کتابیں، کرکٹ کے بلے اور وڈیو گیمز اِدھر اُدھر بکھرے پڑے رہتے تھے، اب صاف ستھرا اور نہایت قرینے سے سجا سجایا نظر آنے لگا تھا۔ وہ کمرہ جس میں اتنا اُلٹا سیدھا انبار پڑا ہوتا تھا کہ پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی، وہاں اب جگہ ہی جگہ تھی۔ کمرہ خوب کھُلا کھُلا نظر آتا تھا۔
شروع میں تو پرویز کو خوشی ہوئی کہ اس کا بیٹا بالغ ہو گیا ہے اور لڑکپن کا لا اُبالی پَن پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ لیکن ایک دن کوڑے دان کے پاس پرویز کو ایک پھٹا ہوا پلاسٹک کا تھیلا نظر آیا۔ تھیلے میں پرانے کھلونوں کے ساتھ بہت سی کمپیوٹر ڈسکیں، وڈیو ٹیپس، نئی کتابیں اور نئے فیشن کے وہ کپڑے بھی تھے جو علی نے ابھی دو تین مہینے پہلے ہی خریدے تھے۔ علی نے کوئی وجہ بتائے بغیر ہی اپنی اس انگریز گرل فرینڈ سے بھی ملنا چھوڑ دیا تھا جو اکثر ان کے گھر بھی آتی رہتی تھی۔ اس کے پرانے دوستوں نے اسے ٹیلی فون کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
ان عجیب و غریب حرکتوں کے بارے میں پرویز ابھی تک علی سے بات نہیں کر پایا تھا۔ بات کیوں نہیں کر پایا تھا۔ یہ پرویز خود بھی نہیں جانتا تھا۔ ہاں اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے ڈرتا ہے۔ بیٹا جہاں اکثر خاموش رہتا تھا وہاں وہ زبان دراز بھی ہوتا جا رہا تھا۔ ایک بار پرویز نے یونہی پوچھ لیا، ’’تم اب گٹار نہیں بجاتے؟‘‘ اس پر اسے ایک پراسرار لیکن منھ توڑ جواب ملا۔ ’’اس سے بھی زیادہ اہم کام ہیں کرنے کو۔‘‘
پرویز محسوس کرتا تھا اس کے بیٹے کا یہ سنکی پن اس کے اپنے ساتھ نا انصافی ہے۔ وہ جو اس کا باپ ہے اور اس کے اچھے برے کا ذمہ دار۔ وہ ان خرابیوں سے خوب واقف تھا جن کا شکار دوسرے لوگوں کے بچے ہو گئے تھے۔ وہ دن رات علی کے لیے ہی تو محنت کرتا تھا۔ اس نے علی کو اکاؤنٹنٹ بنانے کے لیے اس کی تعلیم پر بے تحاشا رقم خرچ کی تھی۔ اس نے علی کو نیا سے نیا سوٹ خرید کر دیا۔ جتنی بھی کتابوں کی ضرورت ہوئی اس نے خرید کر دیں، اتنا مہنگا کمپیوٹر خرید کر دیا اس کو۔ ۔ اور یہ صاحب زادے ہیں کہ یہ سب کچھ کوڑے میں پھینک رہے ہیں۔ پہلے گٹار گیا، اس کے بعد ٹیلی وژن، وڈیو پلیئر اور پھر اسٹیریو سسٹم۔ اب تو دیواروں پر بھی پیلے پیلے دھبے دکھائی دینے لگے تھے۔ وہاں پہلے علی کی تصویریں ٹنگی تھیں۔
پرویز کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ اب وہ کام کے وقت بھی شراب پینے لگا تھا۔ وسکی کی بوتل اب اکثر اس کے ہاتھ میں ہوتی۔ آخر اس نے سوچا اب تو کسی ایسے آدمی سے مشورہ کرنا ضروری ہو گیا ہے جسے اس کے ساتھ ہمدردی ہو۔
پرویز بیس سال سے ٹیکسی چلا رہا تھا۔ دس سال سے وہ ایک ہی فرم میں کام کر رہا تھا۔ اس کی طرح اکثر ڈرائیور پنجابی تھے۔ وہ رات ہی کو کام کرتے تھے جب ساری سڑکیں خالی ہوتیں اور کرایہ زیادہ ملتا۔ وہ دن کو سوتے تھے اور اپنی بیویوں سے دور دور ہی رہتے تھے۔ وہ سب چھڑے چھانٹ لڑکوں کی سی زندگی گزارتے تھے۔ تاش کھیلتے، ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے، گندے لطیفے سناتے قریب کے ہوٹلوں سے بالٹی گوشت منگا کر کھاتے، سیاست پر باتیں کرتے اور اپنی پریشانیاں بانٹتے۔
لیکن پرویز کو علی کے بارے میں اپنے دوستوں سے باتیں کرتے شرم آتی تھی۔ وہ ڈرتا تھا کہ علی کی ان حرکتوں کا ذمہ دار اسی کو ٹھہرایا جائے گا۔ وہ بھی ان ماں باپ کو برا بھلا کہتا تھا جن کے لڑکے الٹی سیدھی لڑکیوں کے پیچھے بھاگے پھرتے تھے۔ اسکول نہیں جاتے تھے اور آوارہ لڑکوں کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے۔
برسوں سے پرویز اپنے ساتھیوں پر رعب گانٹھتا آ رہا تھا کہ علی کتنی اچھی کرکٹ کھیلتا ہے، تیراکی اور فٹ بال میں اس کا کتنا نام ہے اور پھر پڑھائی میں کتنا اچھا ہے۔ ۔ اکثر مضمونوں میں A لیتا ہے۔ اب اگر وہ علی سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ کوئی اعلیٰ ملازمت کرے، اچھی سی لڑکی سے شادی کرے اور اپنا گھربار بنائے تو کیا یہ غلط ہے؟ ایسا ہو جائے تو وہ دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہو گا۔ اس کا وہ خواب پورا ہو جائے گا جو اس نے انگلستان میں ہنسی خوشی زندگی گزارنے کے لیے دیکھا ہے۔ آخر اس سے کہاں غلطی ہوئی؟
ایک رات وہ ٹیکسیوں کے دفتر میں اپنے دو بے تکلف دوستوں کے ساتھ بیٹھا سلویسٹر اسٹالون کی فلم دیکھ رہا تھا تو اس نے زبان کھولی۔
’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا!‘‘ وہ پھٹ پڑا۔ ’’اس کے کمرے سے ایک ایک چیز غائب ہوتی جا رہی ہے اور میں اس سے بات بھی نہیں کر سکتا۔ ہم تو باپ بیٹا نہیں، بھائی بھائی تھے۔ اسے کیا ہو گیا ہے؟ مجھے کیوں تنگ کر رہا ہے وہ؟‘‘ پرویز نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔
وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا تو اس کے دوست سر ہلا رہے تھے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔
’’تمھارا کیا خیال ہے، کیا ہوا ہے اسے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
اس سوال کا جواب اسے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ملا۔ وہ دوست جیسے سب کچھ سمجھ گئے تھے۔ معاملہ صاف تھا۔ علی نشہ کرنے لگا ہے اور نشے کے لیے اپنی تمام چیزیں بیچ رہا ہے۔ اسی لیے اس کا کمرہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔
’’میں کیا کروں؟‘‘
پرویز کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ علی کی حرکتوں کی نگرانی کرے اور اس کے ساتھ سختی کرے۔ ورنہ وہ لڑکا زیادہ نشیلی چیزیں کھا کر مر جائے گا یا کسی کو قتل کر دے گا۔
صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پرویز وہاں سے لڑکھڑاتا ہوا نکلا۔ یہ لوگ سچ کہتے ہیں۔ وہ خوف سے کانپنے لگا۔ اس کا بیٹا اور نشئی۔ قاتل؟
اسے یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ اس کی گاڑی میں بیٹینا بیٹھی تھی۔
عام طور پر رات کے پچھلے پہر میں اس کے آخری گاہک محلے کی آوارہ عورتیں یا طوائفیں ہوتی تھیں۔ ٹیکسی ڈرائیور ان عورتوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور انھیں ان کے دلالوں تک پہنچا دیتے تھے۔ رات گئے فارغ ہونے کے بعد وہ عام طور پر تو گھروں کو چلی جاتی تھیں لیکن کبھی کبھی ان میں سے کوئی عورت ان کے ساتھ پینے پلانے ان کے دفتر میں بیٹھ بھی جاتی تھی۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی لڑکی کسی ڈرائیور کو بھی خوش کر دیا کرتی تھی۔ اسے وہ کہتے: سواری کے بدلے سواری۔
بیٹینا پرویز کو تین سال سے جانتی تھی۔ وہ شہر سے باہر رہتی تھی اور اپنے گھر جاتے ہوئے کار میں وہ پرویز کے ساتھ ہی بیٹھتی تھی۔ اس لمبے راستے میں پرویز نے اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ کون ہے، اس کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ بیٹینا نے بھی اسے اپنے بارے میں بتایا تھا۔ وہ راتوں کو اکثر ملتے رہتے تھے۔
پرویز بیٹینا سے وہ باتیں بھی کر لیتا تھا جو وہ اپنی بیوی سے نہیں کر سکتا تھا۔ بیٹینا بھی اسے اپنی راتوں کی کار گزاریاں سنایا کرتی تھی۔ پرویز بھی جانتا تھا کہ وہ رات اس نے کس کے ساتھ گزاری۔ ایک مرتبہ پرویز نے اسے ایک جھگڑالو گاہک سے بچایا بھی تھا۔ اس کے بعد ہی وہ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھنے لگے تھے۔
بیٹینا علی سے کبھی ملی تو نہیں تھی مگر اس کے بارے میں اتنا سنا تھا کہ وہ اسے خوب جانتی تھی۔ اس رات جب پرویز نے اس سے کہا کہ علی شاید نشہ کرنے لگا ہے تو اس نے نہ تو علی کو برا بھلا کہا اور نہ پرویز پر کوئی الزام لگایا، بلکہ نرمی سے بولی، ’’یہ تو آنکھوں سے پتا چل سکتا ہے۔ آنکھیں لال رہتی ہوں گی، پتلیاں پھیلی پھیلی ہوں گی، علی تھکا تھکا سا لگتا ہو گا، اسے پسینہ آتا رہتا ہو گا، جلدی جلدی مزاج بدل جاتا ہو گا۔ بس تم یہ دیکھ لو۔‘‘ یہ باتیں سن کر پرویز کو جیسے تسلی سی ہو گئی۔
اب پرویز نے علی پر نظر رکھنا شروع کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ کن چیزوں پر غور کرنا ہے۔ وہ دیکھ رہا تھا اور اسے اطمینان ہو رہا تھا کہ حالات ابھی زیادہ خراب نہیں ہوئے ہیں۔
علی کے منھ میں جو بھی نوالہ جاتا پرویز اس پر نظر رکھتا۔ وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھتا اور تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھتا۔ کسی نہ کسی بہانے لڑکے کا ہاتھ پکڑ لیتا اور دیکھتا کہ اس کے ہاتھ گرم تو نہیں ہیں۔ علی گھر پر نہ ہوتا تو پرویز کو موقع مل جاتا اور وہ قالین کے نیچے علی کی درازوں میں اور خالی وارڈ روب کے پیچھے کھکھوڑتا رہتا۔ ہر چیز کو سونگھتا، ہر چیز کو غور سے دیکھتا اور پتا لگانے کی کوشش کرتا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ کیا تلاش کر رہا ہے۔ بیٹینا نے کیپسول، سرنج، گولیوں، پاؤڈر اور وکس کی تصویریں بنا دی تھیں۔
ہر رات بیٹینا انتظار کرتی کہ پرویز کیا خبر لایا ہے۔ آخر کئی دن کی دیکھ بھال کے بعد پرویز نے اسے بتایا کہ علی نے کھیلوں میں حصہ لینا تو بند کر دیا ہے مگر وہ بالکل صحت مند ہے۔ اس کی آنکھیں صاف صاف شفاف ہیں۔ پرویز کو تو بتایا گیا تھا کہ جرم کے احساس سے علی اس سے آنکھیں چرائے گا مگر وہ بالکل ایسا نہیں کرتا تھا۔ بلکہ ایسا لگتا تھا کہ لڑکا پہلے سے بھی زیادہ چاق و چوبند ہو گیا ہے اور اس کے اندر ذرا سا بھی چڑچڑا پن نہیں ہے۔ وہ ہر بات پر زیادہ توجہ دینے لگا ہے۔ وہ اپنے باپ کی ٹٹولتی نظروں کا جواب اس سے بھی زیادہ شکایت بھری نظروں سے دیتا۔ ایسی نظروں سے جن میں ملامت بھی شامل ہوتی۔ حتی کہ پرویز کو محسوس ہونے لگتا کہ اس کا بیٹا نہیں وہ خود غلطی پر ہے۔
’’اور جسمانی طور پر بھی اس کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی؟‘‘ بیٹینا نے پوچھا۔
’’بالکل نہیں۔‘‘ پرویز نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’مگر وہ داڑھی بڑھا رہا ہے۔‘‘
ایک رات پرویز بہت دیر تک کافی شاپ میں بیٹھا بیٹینا سے باتیں کرتا رہا۔ وہ کافی شاپ رات بھر کھلی رہتی تھی۔ بیٹینا اور پرویز کو یقین کرنے کو جی تو نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ علی نشہ نہیں کرتا، کیونکہ پرویز کو علی کے کمرے میں ایک بھی چیز ایسی نہیں ملی تھی جو نشے والی لگتی ہو۔ اس کے علاوہ علی اپنا سامان بیچ نہیں رہا تھا بلکہ وہ اسے پھینک دیتا تھا، کسی کو دے دیتا تھا یا خیرات والی دکانوں پر رکھ آتا تھا۔
پرویز نیچے ہال میں کھڑا تھا کہ علی کے کمرے سے ٹائم پیس کا الارم بجنے کی آواز آئی۔ وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ اس کی بیوی بستر پر بیٹھی کوئی کپڑا سی رہی تھی۔ اس نے اس سے کہا، ’’خاموشی سے بیٹھی رہو، اٹھنا نہیں۔‘‘ حالانکہ وہ بالکل نہیں اٹھ رہی تھی اور نہ اس نے ایک لفظ بھی بولا تھا۔ پرویز دروازے کی جھری میں سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی حیران پریشان اسے دیکھ رہی تھی۔
لڑکا غسل خانے میں گیا۔ پرویز اس وقت تک جھانکتا رہا جب تک لڑکا غسل خانے سے واپس نہیں آ گیا۔ وہ باہر نکلا تو پرویز نے اس کے دروازے سے کان لگا دیے۔ اندر سے کچھ پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔ پرویز کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا مگر اسے تسلی ہوئی کہ کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ پتا چل گیا تو اس نے یقین کرنے کے دوبارہ پھر کان لگا کر سنا۔ لڑکا نماز پڑھ کر دعا مانگ رہا تھا۔ جب بھی وہ گھر پر ہوتا، پانچوں وقت کی نماز پڑھتا۔
پرویز لاہور میں پلا بڑھا تھا جہاں تمام بچوں کو قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ مولوی صاحب پرویز کے بالوں میں رسی باندھ کر رسی کا ایک سرا چھت سے باندھ دیتے تھے کہ اسے نیند آئے تو رسی کے جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل جائے اور وہ اپنا سبق یاد کر لے۔ پرویز پر اس کا ایسا اثر ہوا تھا کہ وہ مذہب سے ہی بھاگنے لگا تھا۔ دوسرے ڈرائیور بھی اس کے ہم خیال تھے بلکہ وہ تو ان مولویوں کا مذاق اڑاتے تھے جو ٹوپیاں پہنے اور لمبی لمبی داڑھیاں رکھے ادھر سے گزرتے تھے۔ وہ کہتے، یہ مولوی سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیک پاک زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھارہے ہیں حالانکہ خود ان کی نظریں ان لڑکوں اور لڑکیوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں، جو ان کے پاس پڑھنے آتی ہیں۔
پرویز نے جو دیکھا تھا وہ سب بیٹینا کو بتا دیا۔ ٹیکسی آفس میں اپنے ساتھیوں کو بھی بتایا کہ اس نے کیا دیکھا اور کیا سنا۔ اس کے دوست جو ہر وقت ٹوہ میں لگے رہتے تھے اب خاموش ہو گئے۔ وہ محض اس لیے تو علی کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ مذہبی ہو گیا ہے۔
ایک دن پرویز نے فیصلہ کیا کہ ایک رات چھٹی کی جائے اور بیٹے کے ساتھ لمبی سیر کی جائے۔ سیر کرتے وقت اس کے ساتھ کھل کر باتیں کی جا سکتی ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سے اس کے کالج کے بارے میں باتیں کرے۔ اس کی پڑھائی کسی ہو رہی ہے؟ کون کون دوست ہیں، اس کے؟ اور وہ کیا کرتا ہے؟ وہ پاکستان میں رہنے والے اپنے رشتے داروں کے متعلق بھی اسے بتانا چاہتا تھا۔ سب سے زیادہ تو وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ علی مذہب کی طرف راغب کیسے ہوا۔ بیٹینا اسے روحانی شعور یا زندگی کا روحانی پہلو کہتی تھی۔ کہ علی نے زندگی کا یہ روحانی پہلو کیسے دریافت کیا؟
لیکن لڑکے نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ پرویز کو شدید صدمہ ہوا۔ علی نے کہہ دیا، ’’مجھے کام سے جانا ہے۔‘‘ پرویز نے بہت اصرار کیا۔ اسے سمجھایا کہ باپ کی بات ماننے سے زیادہ اہم کوئی کام نہیں ہو سکتا۔۔ مگر علی نہیں مانا۔
دوسرے دن پرویز سیدھا گلی کے اس نکڑ پر پہنچا جہاں بیٹینا کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھی۔ اس نے اونچی ایڑی کے جوتے اونچا اسکرٹ اور لمبی برساتی پہن رکھی تھی۔ وہ آتے جاتے لوگوں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور جو بھی اس کے قریب سے گزرتا وہ جلدی سے اپنی برساتی سامنے سے کھول دیتی۔
’’جلدی بیٹھو، جلدی بیٹھو۔‘‘ پرویز نے کہا۔
وہ جھاڑیوں بھرے کھلے میدان کی طرف نکل گئے اور ایسی جگہ گاڑی کھڑی کر دی جہاں اچھے دنوں میں میلوں چٹیل میدان ہوتا تھا اور جنگلی ہرنوں اور گھوڑوں کے سوا انھیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ وہ وہاں آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتے اور سوچتے، ہاں، زندگی اسی کا نام ہے، لیکن اس دن پرویز کانپ رہا تھا۔ بیٹینا نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’مجھے اپنی زندگی کا سب سے خوفناک تجربہ ہوا ہے۔‘‘
بیٹینا پرویز کا سر سہلانے لگی۔ وہ بتانے لگا کہ کل شام وہ علی کے ساتھ ہوٹل گیا۔ ابھی وہ کھانے کا مینو دیکھ ہی رہا تھا کہ ویٹر، جو پرویز کو جانتا تھا، اس کی پسند کی وسکی لے آیا۔ وہ شراب دیکھ کر پہلی بار اپنے بیٹے کے سامنے ایسا بوکھلایا کہ اس سے الٹے سیدھے سوال کرنے لگا۔ وہ پوچھنے لگا تھا کہ کیا علی اس لیے پریشان ہے کہ اس کے امتحان ہونے والے ہیں۔ لیکن زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ گھبراہٹ میں اس نے اپنی ٹائی ڈھیلی کی جلدی جلدی پوپوڈوم کھانے لگا۔ پھر وہسکی کا لمبا گھونٹ لیا۔
ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ علی نے برا سا منھ بنایا۔ ’’آپ جانتے نہیں شراب پینا حرام ہے؟‘‘
’’اس نے میرے ساتھ بد تمیزی سے بات کی تھی۔‘‘ پرویز نے بیٹینا سے کہا۔ ’’مجھے اتنا غصہ آیا کہ جی چاہا میں اسے وہیں ڈانٹوں کہ اپنے باپ سے اس طرح بات کرتے ہیں؟ مگر میں خاموش رہا۔‘‘
پرویز نے علی سے کہا کہ وہ برسوں سے دس دس بارہ بارہ گھنٹے کام کر رہا ہے۔ آرام یا تفریح کے لیے بھی مشکل سے ہی وقت ملتا ہے۔ ’’میں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ اگر کبھی کبھی شراب پی لیتا ہوں تو کونسا گناہ کرتا ہوں؟‘‘
’’مگر یہ حرام ہے۔‘‘ بیٹے نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ پرویز نے کندھے اچکائے۔
’’اور جوا کھیلنا بھی حرام ہے۔‘‘
’’مگر ہم بھی آخر انسان ہیں۔‘‘
پرویز جب بھی وسکی کا گھونٹ لیتا لڑکا برا سا مجھ بناتا اور تیوری چڑھا لیتا۔ پرویز بھی چڑ گیا تھا۔ علی جتنا منھ بناتا وہ اور بھی لمبی چسکی لیتا۔ ویٹر نے انھیں خوش کرنے کے لیے وسکی کا ایک اور گلاس لا کر رکھ دیا۔ پرویز جانتا تھا کہ اس پر نشہ چڑھ رہا ہے لیکن وہ پیئے جا رہا تھا۔ علی کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا۔ وہ گھن اور کراہیت کے ساتھ اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے وہ اپنے باپ سے نفرت کرتا ہے۔
کھانا کھاتے ہوئے اچانک پرویز کا غصہ ابل پڑا۔ اس نے طیش میں آ کر پلیٹ فرش پر پٹخ دی۔ وہ میز پوش بھی کھینچ کر پھینکنے والا تھا لیکن ویٹر اور دوسرے لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے اس لیے اس نے اپنے اوپر قابو پا لیا۔ وہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس کا اپنا بیٹا سے اچھے برے کا فرق بتائے۔ وہ جاتا تھا کہ وہ برا آدمی نہیں ہے، اسے اچھے برے کی تمیز ہے۔ ہاں کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر وہ خود بھی شرمندگی محسوس کرتا ہے لیکن اس نے عزت اور شرافت کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔
’’تم بتاؤ۔ مجھے برائیاں کرنے کا وقت ہی کب ملا؟‘‘ اس نے علی سے سوال کیا۔
بیتے نے دھیمی آواز میں آہستہ آہستہ باپ کو سمجھایا کہ آپ زندگی میں کبھی نیکی کی راہ پر نہیں چلے۔ آپ نے ہمیشہ شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔
’’مثلاً؟‘‘ پرویز نے چیخ کر پوچھا۔
مثالوں کے لیے علی کو زیادہ سوچنا نہیں پڑا۔ لگتا تھا جیسے وہ اس سوال کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ اس نے کہا، ’’کیا آپ سور کی پائی شوق سے نہیں کھاتے؟‘‘
بھلا پرویز انکار کیسے کر سکتا تھا کہ اسے وہ خستہ کرارا بیکن بہت پسند ہے جس پر بہت سے مشروم رکھے ہوں، ساتھ میں سرسوں کی چٹنی اور تلی ہوئی ڈبل روٹی کے سلائسوں میں اس کا سینڈوچ بنا ہو۔ بلکہ وہ تو ہر روز اسی کا ناشتہ کرتا تھا۔
علی نے پرویز کو یاد دلایا کہ آپ نے تو امی سے بھی زبردستی سور کے ساسج پکوائے تھے۔ انھوں نے انکار کیا تھا تو آپ نے انھیں ڈانٹا تھا کہ تم اپنے گاؤں میں نہیں ہو۔ یہ انگلینڈ ہے۔ ہمیں ویسے ہی رہنا ہو گا جیسے یہاں لوگ رہتے ہیں۔
پرویز غصے میں کانپنے لگا اور اس نے طیش میں ایک اور وسکی منگا لی۔
’’اصل مسئلہ یہ ہے۔‘‘ علی بولا۔ وہ میز پر اور آگے کو جھک آیا۔ اس رات پہلی بار اس کی آنکھیں بھی بول رہی تھیں۔ ’’کہ آپ پوری طرح مغربی تہذیب میں رنگ گئے ہیں۔‘‘
شراب کا گھونٹ پرویز کے حلق میں اٹک گیا۔ اسے لگا کہ اس کا دم گھٹ جائے گا۔ ’’مغربی تہذیب میں رنگ گیا ہوں؟‘‘ پرویز روہانسی آواز میں بولا۔ ’’مگر ہم یہیں تو رہتے ہیں۔‘‘
’’مغرب کے یہ مادہ پرست ہم سے نفرت کرتے ہیں پاپا۔‘‘ علی نے کہا۔ ’’آپ ان لوگوں سے کیسے محبت کر سکتے ہیں جو آپ سے نفرت کرتے ہوں؟‘‘
’’پھر‘‘ پرویز نے زچ ہو کر کہا۔ ’’تمہارے خیال میں اس کا حل کیا ہے؟‘‘
علی کو شراب کے نشے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنے باپ کو ایسے مخاطب کر رہا تھا جیسے کسی مشتعل مجمعے سے خطاب کر رہا ہو اور اپنی باتوں کی روانی سے اس ہجوم کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتا ہو۔ اسے قائل کرنا چاہتا ہو کہ ساری دنیا میں اسلام کا پرچم ہی لہرائے گا، کافر جہنم کی آگ میں جلیں گے اور یہودیوں اور عیسائیوں کا صفایا ہو جائے گا۔ مغرب ریا کاروں، بدکاروں، ہم جنس پرستوں، نشیوں اور طوائفوں کا نابدان ہے۔
علی بول رہا تھا تو پرویز کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا کہ وہ واقعی لندن میں ہی بیٹھا ہے۔
’’ہم لوگ اب تک بہت برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اب اگر یہ ظلم و ستم نہ ہوا تو پھر اس کے خلاف جہاد ہی ہو گا۔‘‘
’’مگر کیوں، آخر کیوں؟‘‘ پرویز بولا۔
’’اس کا اجر ہمیں جنت میں ملے گا۔‘‘
’’جنت؟‘‘
پرویز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کا بیٹا اس سے کہہ رہا تھا۔ ’’اب بھی آپ توبہ کر لیجئے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ پرویز نے کہا۔
’’آپ توبہ کریں۔ اپنے لیے دعا مانگیں۔ میرے ساتھ عبادت کریں۔‘‘ علی نے زور سے کہا۔
پرویز نے جلدی سے بل ادا کیا اور بیٹے کو لے کر باہر نکل گیا۔ وہ اس سے زیادہ نہیں سن سکتا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے علی کے اندر کسی اور کی آواز سما گئی ہے۔ اس کے اندر کوئی اور بول رہا ہے۔
راستے میں علی کار میں پیچھے بیٹھا جیسے وہ سواری ہو۔ ’’ایسی کون سی چیز تھی جس نے تمھیں ایسا بنا دیا؟‘‘
پرویز نے سوال کیا لیکن اس کے اندر ایک خوف بھی تھا کہ شاید اس کا ذمہ دار وہ خود بھی ہے۔ ’’کیا کوئی خاص واقعہ ہوا ہے جس سے تم متاثر ہوئے ہو؟‘‘
’’اس ملک میں رہنا ہی کافی ہے اس کے لیے۔‘‘
’’مگر مجھے انگلینڈ پسند ہے۔‘‘ پرویز نے کہا اور سامنے آئینے میں سے علی کو دیکھا۔ ’’یہاں تمھیں ہر کام کرنے کی آزادی ہے۔‘‘
’’یہی تو مشکل ہے۔‘‘ علی نے جواب دیا۔
برسوں کار چلانے کے بعد اس وقت پرویز کو محسوس ہوا کہ وہ سیدھا نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے کار کو ایک لاری کے ساتھ ٹکر دیا۔ اس کی کار کا سائیڈ مرر ٹوٹ گیا۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس والے نے انھیں روکا نہیں ورنہ پرویز اپنے لائسسنس سے محروم ہو جاتا اور اس کے ساتھ ہی اس کی نوکری بھی جاتی۔
گھر پہنچے تو کار سے اترتے ہوئے پرویز لڑکھڑایا اور سڑک پر گر گیا۔ اس کے ہاتھوں میں کھرونچے لگ گئے اور پتلون پھٹ گئی۔ وہ بڑی مشکل سے خود ہی کھڑا ہوا۔ بیٹے نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
پرویز نے بیٹینا سے کہا کہ وہ نماز پڑھنے کو تیار ہے اگر اس کا بیٹا اس سے خوش ہوتا ہے۔ ’’اگر میری نماز سے اس کی بے رحم نظریں میرے چہرے سے ہٹ سکتی ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ میرا اپنا بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ تو جہنم میں جائے گا۔‘‘
اس دن تو پرویز بالکل ہی پاگل ہو گیا جب علی نے اسے بتایا کہ اس نے اپنی پڑھائی ختم کر دی ہے۔ پرویز نے سوال کیا، ’’کیوں؟‘‘ تو نہایت حقارت کے ساتھ جواب ملا، ’’مغربی تعلیم مذہب سے دشمنی سکھاتی ہے۔ اور ایک اکاؤنٹنٹ کی زندگی میں عورتوں سے ملنا، شراب پینا اور سود کھانا عام بات ہے۔‘‘
’’مگر اس میں بہت اچھی تنخواہ بھی تو ملتی ہے۔‘‘ پرویز نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ ’’کئی سال سے تم اس کے لیے محنت کر رہے ہو۔‘‘
علی کہنے لگا کہ اب وہ جیلوں میں جا کر رضاکارانہ کام کرے گا۔ ’’وہاں غریب مسلمان قیدی غلاظت اور گناہوں کے ماحول میں اپنا ایمان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
اپنے کمرے میں جانے سے پہلے علی نے اپنے باپ سے سوال کیا کہ وہ داڑھی کیوں نہیں رکھتے۔ کم سے کم مونچھیں ہی رکھ لے۔
’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا کھو 7دیا۔‘‘ پرویز نے بیٹینا سے کہا۔ ’’میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا اپنا بیٹا میری طرف ایسے دیکھے جیسے میں مجرم ہوں۔ اب میں نے بھی سوچ لیا ہے مجھے کیا کرنا ہے‘‘
’’کیا کرنا ہے؟‘‘
’’میں اس سے صاف صاف کہہ دوں گا کہ اپنی جانماز لپیٹے اور نکل جائے گھر سے۔ یہ کام میرے لیے بہت مشکل تو ہو گا مگر آج رات میں یہ کر کے رہوں گا۔‘‘
’’تم اتنی جلدی مایوس کیوں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔‘‘ اس نے کہا پرویز کو چاہیئے کہ علی کو اپنے ساتھ ہی رکھے۔
پرویز بھی مان گیا کہ وہ ٹھیک کہتی ہے۔ حالانکہ وہ سمجھتا تھا کہ اب وہ اپنے بیٹے سے زیادہ پیار نہیں کر سکتا۔ پہلے بھی وہ جو پیار کرتا رہا ہے اس کے لیے ہی بیٹا کب اس کا ممنون ہوا ہے۔
اگلے دو ہفتے پرویز اپنے بیٹے کی زہریلی نظریں اور جلی کٹی باتیں برداشت کرتا رہا۔ اس نے علی سے اس عقیدے کے متعلق بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھی اس کے منھ سے کوئی ایسی بات نکلتی جس میں ذرا سی بھی نکتہ چینی ہوتی تو علی نہایت دُرشتی کے ساتھ اس کا جواب دیتا۔ ایک بار علی نے پرویز سے کہا، ’’آپ تو گوروں کے آگے گڑگڑاتے ہیں، ناک رگڑتے ہیں ان کے سامنے، مگر میں اپنے آپ کو ذلیل نہیں کروں گا۔ آپ کو معلوم ہے مغرب کے باہر بھی دنیا ہے، حالانکہ مغرب اپنے آپ کو سب سے برتر سمجھتا رہا ہے۔‘‘
’’تمھیں کیسے پتا؟ تم تو کبھی انگلینڈ سے باہر گئے ہی نہیں۔‘‘
علی نے اس کا جواب حقارت بھری نظروں سے دیا۔
ایک رات، یہ یقین کر لینے کے بعد کہ اس کے منھ سے شراب کی بو نہیں آ رہی ہے پرویز کھانے کی میز پر علی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ علی یہ دیکھ کر ضرور خوش ہو گا کہ اس نے داڑھی رکھ لی ہے۔ لیکن علی ایسے بیٹھا رہا جیسے اس نے اس کی داڑھی دیکھی ہی نہیں۔
اس سے ایک دن پہلے پرویز نے بیٹینا سے کہا تھا کہ اس کے خیال میں مغرب کے لوگ کبھی کبھی اپنے آپ کو ضرور اندر سے خالی محسوس کرتے ہوں گے۔ انسان کو زندہ رہنے کے ہے بہرحال کسی فلسفے کی ضرورت ہوتی ہے۔
’’ہاں، یہ اچھا جواب ہو سکتا ہے۔‘‘ بیٹینا نے کہا تھا۔‘‘تم اسے ضرور بتاؤ کہ تمھارا زندگی کا فلسفہ کیا ہے۔ پھر اسے پتا چلے گا کہ دنیا میں دوسرے عقیدے بھی موجود ہیں۔‘‘
بہت سوچنے کے بعد پرویز نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا۔ لڑکا اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس سے کسی بات کی توقع ہی نہیں کر رہا ہے۔ لرزتی آواز میں پرویز نے کہنا شروع کیا: ’’انسان کو دوسروں کی عزت کرنا چاہیے۔ خاص طور سے بچوں کو اپنے ماں باپ کی ضرور عزت کرنا چاہیئے۔‘‘
لمحہ بھر کے لیے اسے ایسا لگا جیسے علی پر اس کی باتوں کا اثر ہو رہا ہے۔ اس سے اس کی ہمت بندھی اور وہ بولتا رہا۔ ’’اس دنیا میں یہی ایک زندگی ہے۔ میں جب مروں گا تو مٹی میں گل سڑ جاؤں گا۔ میری قبر سے گھاس اور پھول پودے اگیں گے۔ لیکن میری کوئی نہ کوئی چیز بہرحال زندہ رہے گی۔‘‘
’’وہ کس طرح؟‘‘
’’میں دوسرے لوگوں میں زندہ رہوں گا۔ مثلاً تمھارے اندر۔‘‘
یہ سن کر لڑکے کے چہرے پر کرب ناک کیفیت نمودار ہوئی۔
’’اور تمھارے بچوں اور تمھارے پوتوں پوتیوں میں۔‘‘ پرویز نے جلدی جلدی کہا۔ ’’لیکن جب تک ہم اس دنیا میں ہیں ہمیں اس زندگی سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔‘‘
’’فائدہ اٹھانے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔
’’مطلب یہ ہے کہ تمھیں زندگی کا مزہ لینا چاہیئے۔ مزہ لینا چاہیئے، دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر۔‘‘
علی بولا: ’’عیاشی تو ایسا گڑھا ہے جس کی کوئی تہہ نہیں ہے۔‘‘
’’میں ایسی عیاشی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو خوبصورت زندگی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’ساری دنیا میں ہمارے لوگ جبر و استبداد کا شکار ہیں۔‘‘ علی نے جواب دیا۔
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ پرویز بولا۔ حالانکہ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ ہمارے لوگوں سے علی کا کیا مطلب ہے۔ ’’پھر بھی زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے۔‘‘
’’اس دنیا میں حق اور صداقت کا ایک ہی سچا راستہ ہے۔ ہمیں اس راستے پر چلنا چاہیئے۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ میرے ہم عقیدہ ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، آپ سچے ہیں اور وہ سب چھوٹے ہیں؟‘‘ اس کے ساتھ ہی علی نے ایسی شعلہ بار نظروں سے پرویز کو دیکھا کہ وہ آگے کچھ نہ بول سکا۔
کئی شاموں کے بعد بیٹینا ایک گاہک کو بھگتانے کے بعد پرویز کے ساتھ کار میں بیٹھی جا رہی تھی کہ ایک گلی میں ایک لڑکا نظر آیا۔ وہ پیدل جا رہا تھا۔
’’وہ ہے میرا بیٹا۔‘‘ پرویز نے اپنا چہرہ کرخت کرتے ہوئے کہا۔ وہ شہر کے ایک غریب محلے سے گزر رہے تھے۔ جہاں دو مسجدیں تھیں۔
بیٹینا لڑکے کو دیکھنے مڑی۔ ’’آہستہ چلو۔ آہستہ چلو۔ لڑکا پیاری شکل کا ہے۔ تم پر گیا ہے لیکن اس کے چہرے پر اعتماد تم سے زیادہ ہے۔ ہم یہاں رُک نہیں سکتے؟‘‘
’’کس لیے؟‘‘
’’میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
پرویز نے کار موڑی اور لڑکے پاس جا کر کھڑی کر دی۔
’’گھر جا رہے ہو؟‘‘ پرویز نے پوچھا۔ ’’کافی فاصلہ ہے۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔‘‘ لڑکے نے سر جھٹکا اور پیچھے بیٹھ گیا۔ بیٹینا آگے بیٹھی تھی۔ پرویز کو احساس ہوا کہ بیٹینا نے خاصی اونچی اسکرٹ پہنی ہوئی ہے۔ بھڑکیلی سی انگوٹھیاں بھی اس نے انگلیوں میں ڈال رکھی ہیں اور ہلکا نیلا آئی شیڈ لگا رکھا ہے۔ اسے بیٹینا کے لباس پر لگی تیز خوشبو کا احساس بھی ہوا جسے وہ بہت پسند کرتا تھا۔ وہ خوشبو پوری کار میں بھری ہوئی تھی۔
پرویز تیزی کے ساتھ کار چلا رہا تھا۔ بیٹینا نے لڑکے سے پوچھا۔ ’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’مسجد سے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اور پڑھائی کیسی ہو رہی ہے؟ خوب محنت کر رہے ہو نا؟‘‘
’’تم کون ہوتی ہو مجھ سے پوچھنے والی؟‘‘ علی نے یہ کہا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ پھر وہ بھیڑ میں پھنس گئے اور کار رک کر کھڑی ہو گئی۔ بیٹینا نے بے خیالی میں پرویز کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’تمھارے والد بہت اچھے آدمی ہیں۔ بہت پریشان رہتے ہیں تمھاری وجہ سے۔ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ تم سے پیار کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا؟ تمھارا خیال ہے یہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔
’’ہاں، بالکل‘‘ بیٹینا بولی۔
’’تو پھر یہ تم جیسی عورت کو اپنے کندھے پر ہاتھ کیوں رکھنے دے رہے ہیں؟‘‘
بیٹینا نے غصے میں سرخ ہو کر لڑکے کی طرف دیکھا۔ لڑکا طیش میں ابلتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔
’’مجھ جیسی عورت سے کیا مطلب ہے تمھارا؟ اور تم مجھ سے ایسے بات کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا۔
’’تم جانتی ہو تم کیسی عورت ہو۔‘‘ لڑکے نے کہا، اور اپنے باپ کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’مجھے نیچے اتار دیجیئے۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو میں اتر رہی ہوں۔‘‘ بیٹینا نے کہا۔
’’نہیں۔ تم بھی نہیں اتر سکتیں۔‘‘ پرویز بولا۔ لیکن اسی وقت بیٹینا نے چلتی کار سے چھلانگ لگا دی۔ وہ پہلے بھی ایسا کرتی رہی تھی۔ پھر وہ سڑک سے اٹھی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ پرویز نے کار روک کر اسے بہت آوازیں لگائیں لیکن وہ سڑک کے دوسری طرف جا چکی تھی۔
پرویز علی کو لے کر گھر پہنچا۔ راستے میں وہ ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ گھر پہنچتے ہی علی سیدھا اپنے کر کے میں گھس گیا۔ اب پرویز کے لیے اخبار پڑھنا یا ٹیلی وژن دیکھنا بھی مشکل ہو گیا تھا حتی کہ وہ ایک جگہ بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ شراب پیے جا رہا تھا۔
آخر اس سے رہا نہیں گیا اور وہ اوپر چلا گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ علی کے کمرے کے سامنے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ٹہلنے لگا۔ پھر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ علی نماز پڑھ رہا تھا۔
علی کو اس سکون کے ساتھ نماز پڑھتا دیکھ کر پرویز آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے ٹھوکر ماری۔ پھر علی کا گریبان پکڑ کر اسے زور سے گھسیٹا اور منھ سے خون بہنے لگا تھا۔ پرویز بھی ہانپ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کے قابو سے باہر نکل چکا ہے، پھر بھی وہ اسے مارتا رہا۔ لڑکا اپنے آپ کو بچانے کی بالکل کوشش نہیں کر رہا تھا اور نہ اس کا مقابلہ کر رہا تھا۔ وہ خاموشی سے مار کھا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔
پھر اس نے اپنے خونم خون ہونٹ کھولے اور بولا۔ ’’دیکھ لو کون جنونی ہے۔‘‘
Original Title: My Son the fanatic
Written by: Hanif Kureishi, CBE (born 5 December 1954) is a British playwright, screenwriter, filmmaker and novelist of Pakistani and English descent. In 2008, The Times included Kureishi in their list of‘‘The 50 greatest British writers since 1945‘‘. (Wikipedia)
نوٹ: حنیف قریشی کے اس افسانے پر 1997ء میں ایک انگلش مووی‘‘My Son the fanatic’’ بنی۔ جس کا اسکرین پلے بھی حنیف قریشی نے ہی لکھا تھا۔ اس مووی میں پرویز کا کردار مشہور بھارتی اداکار ’’اوم پوری‘‘ نے ادا کیا۔ علی کے کردار کا نام تبدیل کر کے فرید رکھا گیا۔ یہ فلم باکس آفس پر بہت کامیاب بھی رہی۔
٭٭٭