منصف ۔۔۔ داؤد کاکڑ

 

کچہری کی گہماگہمی عروج پر تھی۔ بھانت بھانت  کے لوگ با گ کچہریوں کی پر شکوہ عمارتوں کے برآمدوں، سیڑھیوں اور درمیانی راستوں میں آ جا رہے تھے۔ جگہ جگہ وکلاء بھی اپنے روایتی کالے کوٹوں میں ملبوس بغلوں میں فائلیں دابے عدالتوں کی سیڑھیاں ناپ  رہے تھے۔  پولیس اور گاہے  گاہے پیشیاں بھگتنے کے لئے آنے والے ہتھکڑیوں میں جکڑے پریشان حال مبّینہ ملزمان کی بھی آمدورفت جاری تھی۔ جا بجا لگے کھوکھوں اور ٹھیلوں کے ساتھ ساتھ کندھوں اور بازوؤں پر بنیانیں، جرابیں اور ازار بند لٹکائے چلتے پھرتے دوکاندار بھی اس میں افراتفری میں شامل تھے۔

عزت مآب جج خواجہ اظہار الحق کی عدالت کے باہر لوگوں کا خاصا ہجوم تھا۔ ہائی پروفائل (High Profile)مقدمات کی سماعت کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی ایک معمول تھا لیکن عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری اور میڈیا کا میلہ خلاف معمول تھا جس سے اس کیس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا تھا۔

کیس کا فیصلہ ہونے والا تھا لیکن مٹھائیاں پہلے ہی سے بانٹی جا رہی تھیں۔ کچھ لوگ پھولوں سے بھی لدے ہوئے تھے یوں جیسے انھیں حسب منشاء فیصلہ ہونے کا یقین ہو۔ لیکن ابھی کافی تعداد میں لوگ پھولوں کے ہار اٹھائے بے چینی کے ساتھ بار بار کمرہ عدالت کی طرف دیکھ رہے تھے۔

نواب بہادر حاکم الملک بھی اپنے  محافظوں اور وفاداروں  کے جلو میں کمرہ عدالت میں موجود تھے اور بڑی بے قراری کے ساتھ اپنے اکلوتے بیٹے نواب زادہ مظفر الملک کا انتظار کر رہے تھے۔ دراز قد، ترشی ہوئی سفید داڑھی، سرخ و سفید رنگت ، ستر کے پیٹے میں بھی انکی صحت قابلِ رشک تھی۔ وہ بلاشبہ ایک دبنگ شخصیت کے مالک تھے اور بھری عدالت میں  کرسی پر بیٹھے ہوئے بھی سب سے نمایاں لگ رہے تھے۔ گاہے گاہے ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو جاتی۔

یوں تو یہ ایک سیدھا سادھا قتل کا کیس تھا اور چشم دید گواہان کے بیانات کی روشنی میں قاتل پر جرم بھی ثابت ہو چکا تھا لیکن اسکے باوجود کیس کا  فیصلہ ہونے میں کئی سال بیت گئے اور اس تاخیر کی وجہ وہ تنازعات تھے جو ابتدا ہی سے مقدمے کا مقدر رہے۔ پہلے تو یکے بعد دیگرے دو ججوں نے اس وقت ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا جب مقدمہ آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا۔ دوئم نواب صاحب نے دارالحکومت کی عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس دوسرے شہر میں ٹرانسفرکروالیا تھا۔ تیسرا اہم واقعہ ایک جج کی اس وقت اچانک موت تھی جب وہ فیصلہ دینے والا تھا۔۔ عام تاثر یہی تھا کہ ان سارے حالات کے پیچھے نواب صاحب بہادر کا ہی ہاتھ تھا، واللہ عالم بالصواب۔

نواب صاحب کی زندگی کا کوئی بدترین دور تھا تو وہ یہی چند سال تھے۔ بیٹے کی ایک چھوٹی سی غلطی نے انھیں ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ اس بات سے انھیں انکار نہیں تھا کہ ان کے بیٹے نے غلط کیا تھا۔ لیکن اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی اور وہ  ناسمجھ تھا۔ اور پھر قتل تو آئے دن  ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تو کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ اور اگر وہ مزارعے کا بیٹا جو کہ  ان کے بیٹے کا ہی ہم عمر تھا اور جوانی کی اکڑ اس میں بھی تھی ، بد تمیزی پر نہ اتر آتا اور بھری محفل میں ان کے بیٹے کے منہ نہ لگتا تو ان کا بیٹا کوئی پاگل تھوڑے تھا جو اس پر کتے چھوڑ دیتا۔ نواب صاحب  نے  اپنا نوابی اثر رسوخ استعمال کر کے اور بے تحاشا دولت لگا کر ایڑی چوٹی کا زور لگا یا کہ ان کا بیٹا بری ہو جائے لیکن بات بڑھتی ہی گئی۔

گزشتہ کئی سالوں کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات ا ور اس پر نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کی بد انتظامی  اور لوٹ مارنے عوام الناس کی نفسیات ہی بدل کر رکھ دی تھی اور لوگوں میں قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی۔ ان کا سیاسی شعور اور قومی احساس ذمہ داری اس عروج کو پہنچ چکا تھا کہ کیا مجال جو کوئی سرکاری ملازم اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرسکے۔ اب وہ جاگیردارانہ اور نوابانہ  ٹھاٹھ باٹھ بھی قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ نے پوری کر دی جب کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت ہونے پر ملک کے طاقتور لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ ان حالات میں نواب بہادر کو سخت مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا۔ مقدمہ جس قدر  طول پکڑتا گیا ، نواب صاحب نروس ہوتے گئے۔ آخر میں جب کیس عزت مآب جج خواجہ اظہار الحق کی عدالت میں پہنچا تو نواب صاحب حقیقتاً خوفزدہ ہو گئے اور اس کی وجہ جج کی  شہرت تھی۔ یہ جج نہ صرف یہ کہ بکاؤ نہیں تھا بلکہ کسی کو خاطر میں بھی نہیں لاتا تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ فاضل جج ریٹائر ہونے والا تھا اور کیس ملتے ہی جج نے عندیہ دے دیا تھا کہ وہ اس کیس کا فیصلہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کر دیں گے۔

اب صورت حال نہایت گھمبیر ہو چکی تھی۔ نواب صاحب کے پاس بیٹے کی زندگی بچانے کا یہ آخری موقعہ تھا۔ انھوں نے بھی سب کچھ داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا اور بہت سوچ بچار کے بعد آنر ایبل جج کو پہلا اور آخری پیغام بھیج کر مزید گفت و شنید کے دروازے بند کر دیئے تھے۔ انھوں نے جج صاحب کو کھلے اور واشگاف الفاظ میں پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ بیٹے کی جان بخشی کے عوض تین ارب روپے کا نظرانہ پیش کرنے پر تیار تھے لیکن اگر ان کے بیٹے کو سزا ہوئی تو اس کو تو وہ کسی نہ کسی طور بچا ہی لیں گے لیکن  جج کا پورا خاندان جن میں ان کی بیوی، بیٹا ، بہو اور پوتا شامل تھے ، زندہ جلا دیا جائے گا۔ نواب صاحب یہ پیغام بھیج کر خاصے مطمئن ہو گئے تھے اور انھیں پورا یقین تھا کہ جج چاہے کتنا بھی ایماندار کیوں نہ ہو اپنے پورے خاندان کی بربادی نہیں چاہے گا لیکن اس وقت نواب صاحب کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی تھی جب انہیں اطلاع ملی کہ جج صاحب کا پورا خاندان اچانک انگلینڈ چلا گیا تھا۔ اور یہ سب کچھ مقدمے کا فیصلہ ہونے سے تین دن پہلے ہوا۔ نواب صاحب جنہیں ساری زندگی خدا یاد نہ آیا اچانک اس کے وجود کا احساس ہو گیا اور وہ  سجدے میں گر کر گڑگڑائے اور اللہ سے اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگی۔

اور پھر آج کمرہ عدالت میں چند منٹ پہلے فاضل جج نے ایک ایسا غیر معمولی اور غیر متوقع  قدم  اٹھایا جس نے جہاں نواب صاحب کو حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیات سے دوچار کر دیا تھا وہی اس اقدام نے استغاثہ اور دفاع کی پوری ٹیم کو بھی حیرت کے سمندر میں دھکیل دیا تھا۔ عدالت کے باہر موجود میڈیا اور وہ سب جن تک خبر پہنچ چکی تھی الگ سے انگشت بدنداں تھے۔ عزت مآب جج خواجہ اظہار الحق نے مجرم کو فیصلہ صادر کرنے سے پہلے اپنے چیمبر میں آنے کی دعوت دی اور اس کے لئے محترم جج نے نواب صاحب بہادرسے بھی اجازت چاہی۔ نواب بہادر کو اس میں اپنے بیٹے کی عافیت نظر آئی اور انھوں نے بغیر کسی حیل و حجت بیٹے کو جج سے ملاقات کی اجازت دے دی۔

اوراس وقت جب کمرہ عدالت میں موجود باقی لوگ چہ میگوئیوں میں مصروف تھے نواب صاحب  سر جھکائے گہری سوچوں میں گم تھے۔ نواب صاحب دراصل اپنا آئندہ کا لائحہ عمل سوچ رہے تھے کیونکہ جج کی ان کے بیٹے سے اپنے چیمبر میں ملاقات سے وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جج اب ان کے بیٹے سے ان کی دی ہوئی آفر کی ادائیگی کے معاملات طے کریں گے۔ اب نواب صاحب کو ان کے خاندان کی انگلینڈ نقل مکانی بھی سمجھ میں آ رہی تھی کہ جج صاحب جو ریٹائر ہونے والے تھے انگلینڈ میں آباد ہونا چاہتے تھے۔

نواب بہادر انہی تانوں بانوں میں الجھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کے آس پاس ایک عجیب شور شرابہ اٹھا۔ عدالت کے اندر اور باہر تعینات پولیس میں بھگدڑ مچ گئی۔ عدالت میں موجود لوگوں میں بھی افراتفری کا سا عالم پیدا ہو گیا۔ نواب بہادر چند لمحوں کے لئے کچھ سمجھنے سے قاصر رہے لیکن پھر اچانک ان کے بوڑھے لیکن تنومند جسم میں جیسے بجلی بھر گئی۔ وہ اپنے جوان بیٹے کی سر تیزی سے بخوبی واقف تھے۔ وہ ایکدم سے اٹھے اور بڑی تیزی کے ساتھ  جج کے چیمبر کی طرف بڑھے لیکن پولیس نے انھیں نہ صرف آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ عدالت میں موجود سب لوگوں کے ساتھ انھیں بھی باہر دھکیل کر عدالت کا دروازہ محفوظ کر لیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کی کئی گاڑیاں عدالت کی سیڑھیوں کے ساتھ آ کر رکیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران بڑی عجلت میں گاڑیوں سے نکلے اور کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے اور اس سے پہلے کہ کوئی اس ہنگامے کی تہہ تک پہنچ سکتا ، پولیس کے اعلیٰ افسران اور بھاری نفری کے درمیان جج اکرام الحق ہتھ کڑیوں میں جکڑے کمرہ عدالت سے برآمد ہوئے اور گاڑیوں میں سواریہ جا ۔۔۔ ۔۔ وہ جا۔ یہ سب کچھ اس قدر آناً فاناً میں ہوا کہ کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ لوگ حیرت اور الجھن کا شکار ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ کمرہ عدالت سے  آنے والی خبر سے پریشان ہجوم  پر موت کا سا سناٹا چھا گیا۔

عزت مآب جج خواجہ اکرام الحق نے نے اپنے چیمبر میں نہ صرف یہ کہ نواب زادہ مظفر الملک کو سزائے موت سنائی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کر دیا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے