مشرف عالم ذوقی کی کہانیوں اور جبلت ۔۔ رضا صدیقی

کہانی کہنے کا فن بلاشبہ قدیم تہذیبوں کے دریافت ریکارڈ سے بھی پرانا فن ہے۔ادیب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، کہانیاں معاشرے کے مشاہدے سے ہی جنم لیتی ہیں۔ ایک پلاٹ اور چند کرداروں کے مابین تعلق پیدا کرتی ہوئی خاص اسلوب میں لکھی گئی تحریر مختصر افسانے کے ضمن میں آتی ہے۔ناول کی نسبت افسانہ کم گنجلک ہوتا ہے۔۔ سماجی شعور کو بیدار کرنے کی غرض سے جو افسانہ نگار منظرِ عام پر آئے انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جسے اس وقت کے تہذیبی رویوں کے مطابق فحش سمجھا گیا ان افسانہ نگاروں میں ایک نام سعادت حسن منٹو کا تھا جبکہ عصمت چغتائی اسی سلسلے کا دوسرا اہم نام ہے۔ایسے موضوعات کو افسانوی رنگ دینا جو کسی بھی معاشرے میں  ناسور کی طرح پل رہے ہوں۔  منٹو اور عصمت چغتائی جیسے افسانہ نگاروں نے کھلے الفاظ یا علامتی انداز میں معاشرے کو سدہار کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔ایک اور نام کرشن چندر کا ہے جن کا فن اور فنی تصورات بے رحم حقیقت نگاری کی نیابت میں سماجی شعور اور ادراک کو حقیقی تجربے میں متشکل کر کے واقعہ و تحلیل کے عمل سے گزارتے ہیں۔ چنانچہ وہ قدرتِ بیان، اسلوب کی بالیدگی،سلاستِ اظہار، سوچ و فکر کے امتزاج، متحارب و متضاد رویوں کو ممکنات میں داخل کرتے ہوئے افسانے کو اجتماعی شعور کے نئے رجحانات سے رو شناس کراتے ہیں۔  آج کے دور میں ہم ایک اور نام کو اسی رو میں شامل کرتے ہیں اور وہ  نام ہے ہندوستان کی ادبی دنیا کا معروف نام مشرف عالم ذوقی،ناول لکھنے پر آتے ہیں تو کئی معرکہ الآرا ناول ان کے نام سے منسوب ہیں ،وہ چاہے،، لے سانس بھی آہستہ،، ہو یا،،  آتشِ رفتہ کا سراغ، ،۔مشرف عالم ذوقی نے  ناول ہو یا افسانہ  عریاں بے رحم حقیقت نگاری کی ہے۔اپنے ناول،،لے سانس بھی آہستہ،، میں مسلمانوں کی ہندوستان میں حالتِ زار کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جبلت کے عنوان تلے انسان کو انسانیت کی معراج سے اتار کر ذلت کی پستیوں اور حیوانی سطح پر لا کھڑا کیا ہے، جنس کا کاروبار کرنے والوں نے انسان کو حیوان بنا ڈالا ماں باپ، بہن بھائی،خالہ، ممانی، چچا، سب رشتے مٹی میں ملا کر انہیں غلاظت میں لا پھینکا۔سعادت حسن منٹو جتنا بڑا فن کار ہے اتنا ہی متنازع شخصیت ہے منٹو کو پڑھنے والوں کا ایک طبقہ سیدھے الفاظ میں اسے فحش نگار کہتا ہے اس کے ہر اس عمل کو جس میں وہ حقیقی زندگی کا پرتو پیش کرتا ہے وہ اس طبقے کے لئے قابلِ گرفت ہے۔ منٹو آزادی کی تحریک سے جنسی نفسیاتی مسائل تک بے ساختہ، بلا خوف بلند آواز میں وہ سب کچھ کہہ گذرتا ہے جو وہ کہنا  چاہتا ہے۔ایک جگہ وہ کہتا ہے،، زمانے کے جس دور سے ہم گذر رہے ہیں۔  اگر آپ اس سے واقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے، اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کرتے۔تو اس کا مطلب  یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے،میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ، جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ  نظام کا ایک نقص ہے۔،،منٹو کی طرح مشرف عالم ذوقی سب کچھ کہہ دینا چاہتا ہے لیکن منٹو کی طرز پر نہیں  وہ عریاں بے رحم حقیقت نگاری کرتا ہے۔ان کے افسانوں میں انسانی نا آسودگیوں کے معاملات و مسائل اور ان کے پسِِ پردہ عمل اور ردِ عمل  کے طور پر فطری آسودگی کے لئے سیاہ کاریوں میں ہوتے عوامل کی آگہی  ملتی ہے۔ جبلت کے بیان کا جو سلسلہ ان کے ناول،،لے سانس بھی آہستہ،، میں ملتا ہے وہی سلسلہ ان  کے بیشتر افسانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ان کے افسانوں کے انتخاب،،   نفرت کے دنوں میں۔ ،، کے ایک افسانے،،اصل واقعہ کی زیروکس کاپی،، سے یہ دو اکتساب ہندوستانی معاشرے کی بے راہروی کی انتہا کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔

،،سموئل یہ بھی آدمی ہے …  وہ بے اختیار ہو کر ہنسا ____جیسے اس دبلے پتلے سے آدمی کو ہتھکڑیوں میں دیکھتے ہوئے ہنسنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔

’’آدمی …  تم کیا سمجھتے ہو سموئل، اس نے کوئی جرم کیا ہو گا۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہو۔ یہ آدمی ایک مکھی بھی نہیں مارسکتا۔

’’آپ کا دعویٰ صحیح ہے یور آنر، سموئل نے قدرے کھل کر اس کی طرف دیکھا____‘‘

’’یہ مکھی بھی نہیں مار سکتا۔ مگر پچھلے دنوں آپ نے وہ چرچا سنا ہو گا۔ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ …  اپنی سگی دو بیٹیوں کے ساتھ … ‘‘

’’کیا یہ شخص … ‘‘

سموئل نے سر کو جنبش دی۔ ’’یور آنر، یہ وہی شخص ہے۔‘‘

اب اسی کہانی کا آخری حصہ دیکھیئے۔

،،وہ جبر، کشمکش کا ٹوٹ جانے والا لمحہ اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتا ہے سموئل___ ایک بچی___ ’چھوٹی ہے …  باپ اسے دلار کر رہا ہے___ پیار کر رہا ہے، بڑی ہوتی ہے___ اسکول جاتی ہے …  بیل کی طرح بڑھتی ہے___ کونپل کی طرح پھوٹتی ہے___ گاہے بہ گاہے باپ کی نظریں اس پر پڑتی ہیں ___ وہ اس سے بچنا چاہتا ہے …  بچنے کے لئے وہ شادی کی بات چھیڑتا ہے___ وہ کئی کئی طرح سے اسے رخصت کرنے کی بات سوچتا ہے___ اور بس چھپنا چاہتا ہے …  بچنا چاہتا ہے ____پھر ڈرنے لگتا ہے اپنے آپ سے …  جیسے ایک نئی صبح شروع کرنے والے اخبار اور اخبار کی خون اگلتی سرخیوں سے … ‘‘

’’تم ایک گناہ کی وکالت کر رہے ہو____‘‘ سموئل پھر چیخا۔

’’نہیں ، اس نے جھرجھری بھری____‘‘ جنگ ہمیں تباہ کر رہی ہے سموئل …  اور کنڈوم ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں  … ‘‘

وہ جیسے ہی چپ ہوا، کچھ دیر کے لئے دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔

اختتام

معزز قارئین! اگر آپ اسے سچ مچ کہانی مان رہے ہیں تو اس کہانی کا اختتام بہت بھیانک ہے …  بہتر ہے آپ اسے نہ پڑھیں اور صفحہ پلٹ دیں۔

مقدمہ ختم ہوا تو دونوں اپنے معمول میں لوٹ آئے …

اس کے چہرے پرمسکراہٹ تھی …  بدلی بدلی سی مسکراہٹ …  ’’سموئل، ہر مقدمے کا ایک فیصلہ بھی ہوتا ہے …  میں سمجھتا ہوں ، تمہیں فیصلہ ابھی اسی وقت سنانا چاہئے … ‘‘

’’یس یور آنر … سموئل بے دردی سے ہنسا۔ ذرا توقف کے بعد اس نے ایک بوتل کھول لی۔ اس کی طرف دیکھ کر بولا …  ’’دوپیگ بناؤں یور آنر …

’’فیصلہ کا کیا ہوا … ؟‘‘ اس کی آنکھوں میں مدہوشی چھا رہی تھی …

سموئل نے دو پیگ تیار کر لئے۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چیز نکالی۔ وہ اسے دکھا کر مسکرایا۔یہ امریکن کمپنی کا بنا ہوا کنڈوم کا پیکٹ تھا۔ وہ مسکرایا …  تو یہ ہے فیصلہ یورآنر …  وہ آ چکی ہے …  آواز لگاؤں  … ‘‘

’’تم ایسے ہر معاملے میں ، بہت دیر کرتے ہو سموئل …  کہاں ہے وہ … ؟‘‘

اس نے گلاس ٹکرائے …  سموئل نے دروازہ کی طرف دیکھا۔ منہ سے سیٹی بجانے کی آواز نکالی۔ اسی کے ساتھ دروازے سے ایک لڑکی

 برآمد ہوئی …

معزز قارئین! ذرا ٹھہر جائیے۔اس انجام کے لئے میرا دل سو سوآنسو رو رہا ہے مگر …  اس لڑکی کو آپ بھی پہچانتے  ہیں  … !

 مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانوں کے لئے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے ان میں سے بیشتر ایسے تجربات ہیں جو اس سے قبل نہیں کئے گئے۔ ان مسائل کا زمینی، علاقائی، نفسیاتی  اور بنی نوع  انسان کے شعوری، لا شعوری اور تحت الشعوری مسائل سے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فردیت کے عجیب و غریب  الجھے ہوئے تصورات سے بھی ہے۔

مشرف عالم ذوقی نے زندگی میں ایسے کرداروں کا غور سے مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے،ان کے کرداروں اور واقعات میں بعض مکروہ ہونے کے باوجود حقیقت کی پوری اور بھرپور تصویریں پیش کرتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند برسوں یورپی  تسلط میں رہا ہے۔نوآبادیات کی لعنتوں میں ریڈ لائٹ ایریا ایک مکروہ لعنت ہے،یہ قابلِ  غور بات ہے کہ یورپی جارحیت پسند جہاں کہیں گیا وہاں ریڈ لائٹ ایریا قائم کرتا گیا اس سے وہ دو باتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔اول یورپی  یلغار کنندگان کے لئے جنسی غذا، دوسرے شہریوں خاص طور پر نوجوان نسل کی توجہ اس جانب مبذول کر کے اخلاق باختہ تہذیب کی تخصیص۔ غلامی کے دور میں چکلوں اور ناچ گانے کے بازاروں کو قانونی تحفظ  تو حاصل تھا ہی مقامی بردہ فروشوں کو بھی سرکاری تحفظ ملا ہوا تھا، ہر رنگ و نسل کی بچیوں کو اغوا کر کے اپنے آقا کی خوشنودی کے بعد کوٹھوں کی زینت بنا دیا جاتا تھا،جہاں منٹو کے قلم نے ان بازاروں میں جاتے باپ  بیٹے کو روشنی کے ایک چھناکے سے بے نقاب کیا،وہیں مشرف عالم ذوقی نے نوآبادیات کی اس مکروہ لعنت کے معاشرے میں پھیل جانے والے ناسور کو اپنی کہانیوں میں ایسے رشتوں کے حوالے سے مصور کیا ہے جو محرم کہلاتے ہیں ،ہندو کلچر میں محرم کا تصور اس انداز سے نہیں ہے جس انداز سے مسلمان کلچر میں موجود ہے،یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے واقعات ہمارے ہاں نہیں ہوتے،جنس ایک جبلت ہے کہیں بھی کبھی بھی سر اٹھا سکتی ہے لیکن اسلام کی تعلیمات اسے ایک حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتی لیکن ہندو معاشرے پر  موجودہ یورپی جنسی آزادی کے اثرات نمایاں ہیں۔ ہندوستانی معاشرت میں رہتے ہوئے مشرف عالم ذوقی نے جبلت کو خاص طور پر اپنی کہانیوں میں جگہ دی ہے۔یہ نہیں ہے کہ ان کی کہانیوں پر صرف اسی کا غلبہ ہے،انہوں نے اپنے اس مجموعے میں شامل کرنے کے لئے 25کہانیوں کا خود انتخاب کیا ہے۔جس کی پہلی کہانی تو وہی ہے جس کی بنیاد پر اس مضمون کی عمارت کھڑی ہے،اس کے علاوہ باپ بیٹا،دادا پوتا،انکوبیٹر،لینڈسکیپ کے گھوڑے،فزکس کیمسٹری الجبرا،فرج میں عورت،بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت،کاتیائن بہنیں ،مرد،صدی کو الودع کہنا،ڈریکولا،بیٹی،بازار کی ایک رات،غلام بخش، بوڑھے جاگ سکتے ہیں ،نفرت کے دنوں میں اور شاہی گلدان،وغیرہ،یہ تمام کہانیاں بڑی مضبوط اور توانا  ہیں ،اپنے مخصوص  مکالماتی اور ڈرامائی اسلوب میں مختلف تیور دکھاتے ہوئے کہانیوں کی بنت ہوئی ہے۔کہانی پر اپنی گرفت کی بنا پر مشرف عالم ذوقی قاری کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں اور کہانی کے اختتام پر کہانی اچانک قاری کو چونکا دیتی ہے بالکل اسی طرح جیسے منٹو قاری کو چونکا دیتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کی  کہانی کی ایک اور بات جو ہمیں یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ ان کی کہانی پر ڈرامہ حاوی ہے اور وہ ہے ان کا مکالماتی انداز اور  ڈرامے کے ہر سین کے منظر نامے کی طرح کہانی کے ہر حصے کو سرخیوں سے سجانا، کہانی کا ایک ابتدائیہ اور اختتامیہ بھی تحریر کرنا۔مشرف عالم ذوقی کے کہانی لکھنے کے اس انداز نے ہمیں بچپن کا وہ وقت یاد دلا دیا جب ہم کہانی کے اختتام پر کہانی سے حاصل ہونے والا درس بھی پڑھا کرتے تھے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے