ہو جائے کسی طور جو تکمیلِ تمنا
لہجوں میں اتر آئے گی تفضیلِ تمنا
سنتا رہا تاویلِ جفا اُس کی زباں سے
بہتا رہا آنکھوں سے مری نیلِ تمنا
اُس صورتِ مریم کو سرِ بام جو دیکھا
سینے میں اتر آئی اِک انجیلِ تمنا
مدھم ہوئی آنکھوں میں تو پھر دل میں جلا لی
پر بجھنے نہیں دی کبھی قندیلِ تمنا
اُس عہدِ اذیت میں اتارا گیا مجھ کو
جس عہد میں ہوتی رہی تذلیلِ تمنا
غزل
محمد بلال اعظم
اب تو ہر سمت فرشتے نظر آتے ہیں مجھے
کیا مرے دیس میں بستا کوئی انسان بھی ہے
مجھ کو صحرا کا گماں ہوتا ہے جس گھر پہ، وہی
میرے ماں باپ کے ہونے سے گلستان بھی ہے
ایک تو چاند فلک پر نہیں آیا جاناں
اور پھر آج ہی خالی مرا دالان بھی ہے
اے رفو گر! ترے اِس فعل پہ حیرت ہے مجھے
صرف دامن پہ رفو! چاک گریبان بھی ہے
آج اِس گھر کے نئے طرزِ حکومت سے بلال
میں بھی افسردہ ہوں، خائف مرا مہمان بھی ہے
٭٭٭