ڈیڑھ سال سے پریشان کن خبریں تواتر سے مل رہی ہیں، اور حال ہی میں تو ایسے قریبی لوگوں کے بچھڑنے سے دل دہل گیا ہے جن سے قریبی روابط رہے تھے۔ پچھلی بار شمیم حنفی، ذوقی اور تبسم وغیرہ کے بچھڑنے کی خبر تھی، تو اس بار ابو الکلام قاسمی اور بیگ احساس نے بھی ہمیں مایوس کرتے ہوئے الوداع کہہ دیا ہے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے، اس بار ان دونوں احباب کی یادوں پر مبنی ان کے گوشے پیش کئے گئے ہیں۔ ابو الکلام قاسمی کے مضامین کے لئے ہم ادبی میراث ڈاٹ کام کے ممنون ہیں۔
ادھر افسانچے اور نثری نظمیں خوب لکھی جا رہی ہیں۔ بطور صنف مجھے ان دونوں اصناف پر کچھ تحفظات ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے نثری نظم کے بارے میں دھند دور ہوتی جا رہی ہے۔ افسانچے اس لحاظ سے ابھی اس مرحلے تک نہیں پہنچ سکے کہ یہ صنف نسبتاً نئی ہے، لیکن نثری نظم تو اب کافی قدیم کہی جا سکتی ہے، کہ اس میں تیس، چالیس کی دہائی کی ’ادبِ لطیف‘ بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں ’قلم‘ ممبئی (مدیر: الیاس شوقی) کے تازہ ترین شمارے (شمارہ ۱۵) میں عبد السمیع کا ایک دلچسپ مضمون ’نثری نظم کی تنقید اور لطف الرحمٰن‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں اگرچہ عبد السمیع نے محض لطف الرحمٰن کی شاعری کے مجموعوں کے دیباچوں میں نثری نظم کے جواز اور اس کی اہمیت کا ذکر کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ (لطف الرحمٰن) نثری نظم سے کس قسم کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود لطف الرحمن نے اپنے مجموعے ‘راگ براگ‘ کی شاعری کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ ’یہ آزاد نظم اور ’نثری نظم کے تجربوں’ پر مشتمل ہے!!
ہمیں بھی اتفاق سے زیادہ تر نثری نظمیں ہی حاصل ہوئی ہیں۔ اور اس بار یہ بھی کسی مبتدی کی نہیں، بلکہ سینئر ادیبوں کی ہیں۔ بطور خاص نصیر احمد ناصر (مدیر ’تسطیر‘، پاکستان) اور نجمہ منصور کی نظمیں شائع کر کے مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ آپ کو بھی یہ نظمیں پسند آئیں گی۔
کویتا کادمبری کے نام اور ان کی نظم ’میرے بیٹے‘ سے میں فیس بک سے واقف ہوا۔ جہاں اردو میں اس نظم کے کچھ اقتباس دئے گئے تھے جس سے میں متاثر ہوا، پھر ان کی نظمیں حاصل کر کے رسم الخط بدلا ہے۔ امید ہے پسند آئیں گی یہ نظمیں بھی۔
’سَمت‘ نے عرصے سے کوئی خاص نمبر شائع نہیں کیا ہے۔ اس بار سوچا جا رہا ہے کہ ایک شمارہ ہند و پاک کی ہی دوسری زبانوں کے ادب پر مشتمل رکھا جائے تو کیسا رہے؟ قارئین کا اس ضمن میں کیا خیال ہے؟ اپریل تا جون ۲۰۲۲ء کا شمارہ خاص نمبر کے طور پر شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ اپنی آراء سے نوازیئے۔
فی الحال اتنا ہی، اب اجازت دیں۔
ا۔ ع۔
٭٭٭