مجذوب۔۔۔ نسترن فتیحی

"کون اتنی دیر سے دروازہ پیٹ رہا ہے ؟”

"وہی مجذوب ہے اماں۔ ”

"اففف !! نہ دن دیکھتا ہے نہ رات !جب دیکھو منھ اٹھائے چلا آتا ہے، پاگل کہیں کا۔۔ ”

میں نے بالکنی سے سر ذرا نکال کر نیچے دیکھا، گیٹ پر وہی مجذوب سا شخص کھڑا تھا میں چند ماہ قبل اوپر کے کمرے میں کرائے دار کے طور پر آیا تھا اور بار ہا یہ منظر دیکھ چکا تھا، مگر جب تک وہ چلا نہ جاتا میری دلچسپی بنی رہتی۔۔۔۔ قدموں کے تیز اور غصے سے پر پٹک پٹک کر چلنے کی آواز آئی، دھڑاک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا سے اور دو روپے کا سکہ تقریباً پھینک کر ڈھیروں صلواتوں کے ساتھ دیا گیا جو کھٹ سے زمین پر گرا اور لڑھکتا ہوا نالی میں جا گرا –

"کمبخت ہاتھ میں سکت نہیں کہ دی ہوئی چیز ڈھنگ سے تھام سکے۔۔۔ ”

مجذوب شان بے نیازی سے مڑا اور سامنے والے مکان کے گیٹ پر ایک دستک کے بعد

زمین پر آرام سے بیٹھ کر پیر کھجانے لگا –”

” دماغ تو دیکھو جیسے کہیں کا شہنشاہ ہو۔۔۔۔ ہنھ سامنے جلدی نہیں رہتی۔۔۔۔ آرام سے بیٹھ کر خیرات کا انتظار کرتا ہے۔ ” بڑ بڑا ہٹ دور ہوتی گئی۔۔۔

"اماں مجذوب ہے پر سمجھتا ہے کہ تم خیرات کم اور صلوات زیادہ دیتی ہو۔ ”

"اچھا رہنے دے۔۔۔ کیا سامنے اس کی خاطر داری ہوتی ہے ؟۔۔۔ جو۔۔۔۔ ”

"وہاں اسے کھانا ضرور ملتا ہے۔۔ اسی کا انتظار کرتا ہے۔ ”

میں نے دیکھا سامنے کا گیٹ کھلا اور ایک لڑکی کا غذ کی پلیٹ میں اسے کھانا دینے آئی۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ خوش نہیں ہوا اور اشارے سے پانی اور کچھ اور دینے کا اشارہ کیا۔۔۔ آ ں۔۔۔ آں ں۔۔۔ کی آواز احتجاج میں بلند ہوئی۔۔۔ لڑکی نے ناگواری سے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ اور پانی کے لئے قریب کے خالی پلاٹ میں لگے نلکے کی طرفا شا رہ کر کے اندر چلی گئی۔ وہ اٹھا اور لڑ کھڑا تا ہوا نل کی طرف گیا۔ وہاں پر اچھل کود کرتے کچھ بچوں نے اسے پریشان کرنے کی کوشش کی اور اس پر پانی پھیکا مگر وہاں موجود ایک بہت ضعیف بھکارن نے انہیں ڈانٹ کر بھگا دیا۔ مگر مجذوب ان سا ری باتوں سے بے پروا نظر آ رہا تھا۔ وہ آرام سے اس چبوترے پر جا کر بیٹھ گیا -میں اپنا سارا کام بھول کر اس کے حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا۔ اس نے روٹی توڑ کر نوالہ منھ میں ڈالا، ایک کتا سامنے آ کر بھوکی نظروں سے اسے دیکھنے لگا، مجذوب نے ہاتھ میں پکڑی روٹی اس کی طرف اچھال دی، اور پلیٹ میں پڑی آخری روٹی اٹھائی اس کے علاوہ ذرا سا چاول بھی تھا اس نے ضعیفہ کی طرف دیکھا اور اس کے قریب کھسک آیا، آ ں۔۔ آں۔۔ کر کے اس سے چا ول کھانے کے لئے کہا۔۔۔ اب ضعیفہ، مجذوب اور کتا تینوں کھا رہے تھے۔ مگر بڑی بڑی حویلیوں کے دروازے مضبوطی سے بند تھے، اور اب میں حیرت سے سوچ رہا تھا اس منظر میں سخی کون ہے، صحیح الدماغ کون اور مجذوب کون؟

٭٭٭

 

One thought on “مجذوب۔۔۔ نسترن فتیحی

  • اچھا موضوع کمزور برتاؤ کی نذر ہوتا نظر آتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے افسانہ کہیں سے کہیں پہنچ سکتا ہے۔ داؤد کاکڑ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے