کام مُشکل تھا مگر چھوڑ آیا
مَیں محبت کا نگر چھوڑ آیا
خواب تو زادِ سفر ہوتے ہیں
اور مَیں زادِ سفر چھوڑ آیا
خود کو لے آیا مَیں اُس منظر سے
اور وہاں دیدۂ تر چھوڑ آیا
لُو بچاتا تو یہ دن کب آتے
رات کی تیغ پہ سَر چھوڑ آیا
آشیاں میں غمِ ہجرت کا نِشاں
ایک ٹوٹا ہُوا پر چھوڑ آیا
ایک دہلیز پہ کُچھ پھُول دھرے
اِک دریچے میں سحر چھوڑ آیا
٭٭٭