فٹزجیرلڈ کا مخمصہ ۔۔۔ بورخے لوئیس بورخیس / زیف سید

عمر بن ابراہیم نامی ایک شخص گیارہویں صدی کے فارس میں پیدا ہوتا ہے (اس کے لیے یہ پانچویں صدی ہجری ہے) اور حشاشین کے فرقے کے بانی حسن بن صباح اور قفقاز کے فاتح الپ ارسلان کے وزیر نظام الملک کے ہمراہ قرآن اور اس کی روایت کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ تینوں دوست ہنسی مذاق میں قسم کھاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی پر ایک دن قسمت مہربان ہو جائے تو وہ دوسروں کو نہیں بھولے گا۔

کئی سال گزر جاتے ہیں۔ نظام وزیر بن جاتا ہے، عمر اس کی خوشحالی کے ٹھنڈے سائے کا صرف ایک گوشہ مانگتا ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے دوست کے مال و دولت میں ترقی کی دعا کرے اور ریاضی پر غور و فکر کر سکے۔ (حسن ایک اعلیٰ عہدہ مانگتا ہے اور آخر کار وزیر کو خنجر کے گھاٹ اتروا دیتا ہے۔)

عمر کو نیشاپور کے خزانے سے دس ہزار دینار سالانہ وظیفہ ملتا ہے، اور وہ خود کو علمی کاموں کے وقف کر دیتا ہے۔ وہ علمِ نجوم پر یقین نہیں رکھتا اور اس کی بجائے فلکیات کا مطالعہ کرتا ہے اور سلطان کے تقویم تیار کرنے کے منصوبے میں حصہ لیتا ہے۔ وہ الجبرا پر ایک مشہور کتاب تحریر کرتا ہے جس میں وہ پہلے اور دوسرے درجے کی مساواتوں اور اقلیدس کا ہندسی حل، اور تیسرے درجے کی مساواتوں کا مخروطی تقاطع کے ذریعے حل بیان کرتا ہے۔

ہندسوں اور ستاروں کے بھید اس کی توجہ مکمل طور پر جذب نہیں کر پاتے اور وہ اپنے کتب خانے کی تنہائی میں فلاطینوس کا مطالعہ کرتا ہے جو اسلامی روایت میں مصری افلاطون یا یونانی استاد کہلاتا ہے۔ وہ اخوان الصفاء کے رسائل کے نصف صد کے قریب ملحدانہ اور صوفیانہ مکتوبات پڑھتا ہے جن میں بحث کی گئی ہے کہ کائنات واحد کا ظہور ہے اور دوبارہ واحد کے ساتھ مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت وہ اپنا عقیدہ بدل کر فارابی کا معتقد ہو گیا تھا، وہی فارابی جو سمجھتا تھا کہ آفاقی اشیا کا اشیا سے الگ وجود نہیں ہے۔ وہ ابنِ سینا کا بھی مرید تھا جو یہ درس دیتا تھا کہ دنیا ابدی ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ عمر روح کے انسانوں سے حیوانوں میں حلول پر یقین رکھتا ہے، یا ظاہر کرتا ہے کہ یقین رکھتا ہے، اور یہ کہ اس نے ایک بار ایک گدھے سے گفتگو کی تھی، ایسے ہی جیسے فیثاغورث نے کتے سے گفتگو کی تھی۔ وہ ملحد ہے، مگر قرآن کی مشکل ترین آیات کی تشریح روایت کے مطابق کر سکتا ہے، کیوں کہ ہر پڑھا لکھا شخص دینیات کا ماہر ہے اور اس کے لیے عقیدہ شرط نہیں۔ فلکیات، الجبرا اور مذہب کے دفاع کے علم کے علاوہ عمر بن ابراہیم الخیامی رباعی لکھنے میں بھی مشغول ہے، وہ صنف جس میں پہلا، دوسرا اور آخری مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ سب سے ضخیم مخطوطہ اس سے پانچ سو رباعیاں منسوب کرتا ہے۔ یہ تعداد اس کی شہرت کے شایانِ شان نہیں ہے کیوں کہ فارس میں (یا لوپے دے ویگا اور کالدرون کے ہسپانیہ میں) شاعر کے لیے بسیارگوئی لازمی وصف ہے۔

517 ہجری میں ’واحد اور کثیر‘ نامی تصنیف پڑھتے پڑھتے عمر کو بے چینی محسوس ہوتی ہے یا ایک اندیشہ اس کا دامن گیر ہو جاتا ہے۔ وہ اٹھتا ہے، اس صفحے کو نشان زد کرتا ہے جسے اس کی آنکھیں آئندہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی، اور خدا سے مصالحت کر لیتا ہے، وہ خدا جو شاید موجود ہے اور جس کی رحمت سے اس نے الجبرا کے ادق مقامات پر مدد مانگی تھی۔ وہ اسی دن شام کے وقت مر جاتا ہے۔

اسی دور میں شمال اور مغرب میں ایک جزیرے پر، جو مسلمان نقشہ سازوں کے لیے نامعلوم ہے، ایک سیکسن بادشاہ، جس نے ناروے کے بادشاہ کو شکست دی تھی، ایک نارمن ڈیوک سے شکست کھا جاتا ہے۔

اپنی روشن خیالیوں اور اندوہوں اور تبدیلیوں کے ساتھ سات صدیاں گزر جاتی ہیں کہ انگلستان میں ایک آدمی پیدا ہوتا ہے، فٹزجیرلڈ، عمر سے کم دانا، لیکن شاید زیاد حساس، زیادہ اداس۔ فٹزجیرلڈ جانتا ہے کہ اس کی اصل منزل ادب ہے، اور وہ اسے سُستی اور ہٹ دھرمی سے اپناتا ہے۔ وہ ڈان کیہوتے بار بار پڑھتا ہے جو اسے تقریباً تمام کتابوں میں بہترین کتاب لگتی ہے (لیکن وہ شیکسپیئر اور ’عزیزم ورجل‘ سے بھی نا انصافی نہیں کرنا چاہتا)، اور اس کی محبت لغت تک پھیلی ہوئی ہے جس میں وہ لفظوں کے معنی دیکھتا رہتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ ہر وہ آدمی جس کی روح میں موسیقی ہو، اپنی زندگی میں دس یا بارہ دفعہ شاعری کر سکتا ہے، بشرطیکہ ستارے موافق ہوں، مگر وہ اس معمولی سے حق کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔ وہ مشہور لوگوں کا دوست ہے (ٹینی سن، کارلائل، ڈکنز، تھیکری) جن سے وہ اپنے انکسار، اور شائستگی کے باوجود خود کو کمتر محسوس نہیں کرتا۔ اس نے ایک مرصع مکالمہ ’یوفرینر‘ کے نام سے تصنیف کر رکھا ہے، اور کالدرون اور عظیم یونانی المیوں کے عامیانہ ترجمے بھی کیے ہیں۔ پہلے اس نے ہسپانوی پڑھی، پھر وہ فارسی کی طرف مائل ہو گیا، اور ’منطق الطیر‘ کا ترجمہ شروع کر دیا۔ منطق الطیر، پرندوں کے بارے میں صوفیانہ رزمیہ جس میں وہ اپنے بادشاہ سیمرغ کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں، اور آخرکار جب سات سمندر پار اس کے محل تک جا پہنچتے ہیں تو ان پر منکشف ہوتا ہے کہ وہ خود سیمرغ ہیں، اور سیمرغ ان میں سے ہر کے اندر الگ الگ اور سب کے اندر مشترکہ طور پر موجود ہے۔

1854 کے قریب عمر خیام کی رباعیوں کا ایک مخطوطہ اس کے ہاتھ لگتا ہے جسے قافیوں کی الف بائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے۔ فٹزجیرلڈ ان میں سے چند کا لاطینی میں ترجمہ کرتا ہے اور ان میں ایک مسلسل اور نامیاتی کتاب کے امکان کی جھلک دیکھتا ہے جو صبح، گلاب اور بلبل کے پیکروں سے شروع ہو اور رات اور قبر پر ختم ہوتی ہے۔ اس بعید از قیاس بلکہ ناقابلِ یقین منصوبے کے لیے فٹزجیرلڈ اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے۔ ایک سست، تنہا اور پاگل انسان کی زندگی۔ 1859 میں رباعیات کا پہلا ایڈیشن شائع ہوتا ہے، پھر دوسرے، ہر ایک پہلے سے زیادہ نکھارا، سنوارا ہوا۔

ایک معجزہ رونما ہوتا ہے: ایک ایرانی فلکیات دان جو شاعری کو کمتر سمجھتا ہے، اور ایک سنکی انگریز، جو شاید انہیں مکمل طور پر سمجھے بغیر مشرقی اور ہسپانوی کتابیں کھنگالتا ہے، کے قران السعدین سے ایک غیر معمولی شاعر ابھرتا ہے جو ان دونوں سے مختلف ہے۔ سوائن برن نے لکھا ہے کہ فٹزجیرلڈ نے ’عمر خیام کو بڑے انگریز شاعروں میں مستقل مقام بخش دیا ہے‘ اور چیسٹرٹن، جو اس غیر معمولی کتاب کے رومانوی اور کلاسیکی عناصر سے آگاہ ہے، کہتا ہے کہ اس میں ’ایک گریزاں نغمگی کے ساتھ ساتھ دوامی پیغام بھی موجود ہے۔‘

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ فٹزجیرلڈ کا ترجمہ در اصل ایک انگریزی نظم ہے جس میں فارسی کنائے موجود ہیں کیوں کہ اگرچہ فٹزجیرلڈ نے ملاوٹ، تبدل و تغیر، اور ایجاد سے کام لیا ہے، مگر اس کی ’رباعیات‘ یہی مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اسے قدیم فارسی شاعری کے طور پر پڑھیں۔

یہ معاملہ ایک مابعد الطبیعیاتی نوعیت کے غور و فکر کا متقاضی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خیام روح کے مختلف جسموں میں حلول کے افلاطونی اور فیثاغورثی عقیدے کا قائل تھا۔ صدیوں بعد شاید اس کی اپنی روح نے انگلستان میں دوسرا جنم لیا۔ لاطینی سے لتھڑی ہوئی ایک دور افتادہ جرمانی زبان میں وہ ادبی مقدر چمکا جسے نیشاپور میں ریاضی نے دبا کر رکھا ہوا تھا۔ آئزک لوریا شیر دل کی تعلیمات تھیں کہ کسی مردہ انسان کی روح کسی بدقسمت روح میں داخل ہو کر اسے تقویت دے سکتی ہے یا اسے سکھا پڑھا سکتی ہے۔ شاید 1857 کے لگ بھگ خیام کی روح نے فٹزجیرلڈ کی روح میں گھر بنا لیا۔

ہم ’رباعیات‘ میں پڑھتے ہیں کہ کائنات کی تاریخ ایک ایسا تماشا ہے جسے خدا نے سوچا، کھیلا اور اب بیٹھا اسے دیکھ رہا ہے۔ یہ اصلاح (جس کا تکنیکی نام ’ہمہ اوست‘ ہے) ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ انگریز فٹزجیرلڈ ایرانی خیام کو اس لیے باز تخلیق کر سکا کہ در اصل دونوں خدا تھے، یا خدا کے لمحاتی چہرے تھے۔

اس سے زیادہ قرینِ قیاس یہ مابعد الطبعیاتی تصور ہے کہ یہ ایک مبارک اتفاق ہے۔ بعض اوقات بادل پہاڑوں یا شیروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح سے مغموم ایڈورڈ فٹزجیرلڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے کسی شیلف پر پیلے کاغذ اور ارغوانی لکھائی پر مشتمل ایک فراموش کردہ مخطوطے نے مل کر ہمارے فائدے کے لیے ایک نظم کی شکل اختیار کر لی۔

تمام شراکتیں پراسرار ہوتی ہیں۔ انگریز فٹزجیرلڈ اور ایرانی خیام اور بھی زیادہ پراسرار تھے کیوں کہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے، اور شاید ایک دور میں ہوتے تو ایک دوسرے کے دوست بننا بھی پسند نہ کرتے، لیکن موت اور وقت کے نشیب و فراز نے ایک کو دوسرے سے روشناس کروایا اور انہیں ایک شاعر بنا دیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے