پانیوں کو منجمد ہونا تھا آخر ہو گئے
رت بدلنے پر پرندے پھر مسافر ہو گئے
دور تک گہری سفیدی بچھ گئی ہے شہر میں
ایک جیسے آنکھ کے سارے مناظر ہو گئے
پھیر دی چونے کی کوچی موسموں کے ہاتھ نے
جو مکاں ہوتے تھے لوگوں کے مقابر ہو گئے
کھڑکیاں جیسے مزاروں پر دئیے جلتے ہوئے
چمنیاں جیسے کئی آسیب ظاہر ہو گئے
٭٭٭