اشکوں سے بہ رنگِ آب ہم نے
دریا کو لکھا سراب ہم نے
ہم خود سے سوال کر رہے تھے
لو۔ ڈھونڈ لیا جواب ہم نے
دیکھا نہیں اس کو کتنے دِن سے
انگلی پہ کیا حساب ہم نے
اب اپنی نگاہ درمیاں ہے
دیکھا تجھے بے نقاب ہم نے
کیا کیا نہ ہمارے جی میں آئی
کچھ تم کو دِیا جواب ہم نے
جگنو بھی نہ دے سکے نہ دے وہ
مانگا نہیں آفتاب ہم نے
اِک غم ہے۔ اُسے بھی بھول جائیں
پی رکھّی ہے کیا شراب ہم نے
ایسے کہ سنو تو ہنس پڑو تم
دیکھے ہیں عجیب خواب ہم نے
٭٭٭