غزل۔۔۔ فاتح الدین بشیر

پاسِ وفا نہیں کیا، اس نے بجا، نہیں کیا
تُو نے بھی اپنے ساتھ کچھ کم تو برا نہیں کیا

اصلِ نصاب ایک شب، عمر لٹا دی سود میں
پھر بھی یہی گلہ رہا، قرض ادا نہیں کیا

حالتِ جبر میں عجب وصل کیا ہے اختیار
ذکرِ ترا تمام عمر خود سے جدا نہیں کیا

کوزہ گری کے نام پر مجھ کو گھڑا گیا تھا کیوں
کوزہ گری کے نام پر اُس نے بھی کیا نہیں کیا

حرصِ نجات کفر تھی، خاک میں خاک ہو گئے
شوقِ وصالِ حور میں ذکرِ خدا نہیں کیا

اوجِ ملال و رنج میں ہم کو انا رہی عزیز
درد بلند کر لیا دستِ دعا نہیں کیا

دل نے لہو کی آخری بوند بھی صدقہ وار دی
خاکِ شفا بنا گیا، ردِّ بلا نہیں کیا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے