غزل۔۔ سعید خان

جیسے فطرت کے نشانے پہ ہدف آتا ہے
کتنی آسانی سے دل تیری طرف آتا ہے

شہرِ امکان مہکتا ہے ترے آنے سے
جیسے جھونکا کوئی گلزار بکف آتا ہے

رنج کو سینچتے رہتے ہیں گُہر ہونے تک
عشق سینے میں بہ اندازِ صدف آتا ہے

کوئی وحشت ہے کہ دل اپنی طرف کھینچتی ہے
کوئی صحرا ہے کہ پہلو کی طرف آتا ہے

زندگی روز کے مقتل سے بھی کب رکتی ہے
ورنہ اب کس کو یہاں شوق و شغف آتا ہے

آپ کھُل جاتے ہیں دربارِ محبت کے رموز
سینہِ فکر میں جب شاہِ نجف آتا ہے

کون بدلے گا یہاں صورتِ حالات سعیدؔ
جو بھی آتا ہے وہ زنجیر بکف آتا ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے