جام و سُبو شراب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
مخمور، خواب خواب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
دیکھا بس ایک پل، کہ مری عمر کٹ گئی
بے پایاں، بے حساب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
دیکھا کریں وہ، ماہِ مکمل کو ناز سے
سہہ لے گا ماہتاب، اُن آنکھوں کا دیکھنا؟
وہ دیکھتے ہیں یوں کہ مجھے دیکھتے نہ ہوں
دھوکہ ہے یا سراب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
کرتی ہے آنکھ جذبِ دروں آشکار یوں
کرتا ہے بے حجاب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
دیتا ہے وہ سکوں جو مٹا ڈالے ہر جلن
سایہ ہے یا سحاب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
مہکے ہے تن بدن، جو پڑے وہ نگاہِ ناز
مہکائے یوں گلاب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
ہوش و خرد کہاں، جو نظر بھر کے دیکھ لیں
دیکھا نہیں جناب، اُن آنکھوں کا دیکھنا؟
دیکھیں وہ جس گھڑی، میں ثنائے خدا کروں
میرے لیے ثواب، اُن آنکھوں کا دیکھنا
نسرینؔ کہہ دیا۔ ۔ ۔۔ جو سرِ بزم حالِ دل
ہو کیوں نہ پُر حجاب اُن آنکھوں کا دیکھنا
٭٭٭
سکھلاتے ہیں، اظہار کے آداب ترے خواب
وا کرتے ہیں الفت کے نئے باب، ترے خواب
بے تاب ہیں یوں صورتِ سیماب ترے خواب
کرتے ہیں مجھے ماہیِ بے آب، ترے خواب
سیراب کیے رہتے ہیں آنکھیں مری شب بھر
رکھتے ہیں انہیں خطہ شاداب، ترے خواب
نیندوں پہ مری , ایسے تسلط رہے ان کا
آتے ہیں تواتر سے پسِ خواب، ترے خواب
نرمی سے اتر کر، یہاں بسرام کریں گے
آنکھوں کی مری جھیل میں سُرخاب ترے خواب
آنکھوں کی مری، تشنہ لبی کا ہیں مداوا
مے کش کے لیے جیسے مئے ناب ترے خواب
جی اٹھتی ہوں، دیدار ترا خواب میں پا کر
سچ ہے، مرے جینے کے ہیں اسباب، ترے خواب
٭٭٭