غزلیں ۔۔۔ شاہد شاہنواز

لگا ہے داغ جو دل پر وہ صاف کرنا ہے

ہوا ہے جرم، ہمیں اعتراف کرنا ہے

 

یہ کیسا وقت ہے یا رب! کہ اپنے ہاتھ میں ہے

وہ فیصلہ جو ہمارے خلاف کرنا ہے

 

زمانہ ایک طرف ہے، وہ دوسری جانب

روایتوں سے جسے انحراف کرنا ہے

 

روش ہے جس کی، وہ ظلم و ستم کرے تو کرے

مرے قبیلے کی عادت معاف کرنا ہے

 

میں کہہ رہا ہوں کہ اے دل! تُو اتفاق سے چل

وہ کہہ رہا ہے مجھے اختلاف کرنا ہے

 

وہ چپ ہے جس کو ہے خواہش کہ راز راز رہے

وہ بولتا ہے جسے انکشاف کرنا ہے

 

عقب میں آگیا فرعون حضرتِ موسیٰ ؑ

عصا سے چیرئیے دریا، شگاف کرنا ہے

 

خدا کی راہ پہ شاہدؔ جو لوگ چلتے ہیں

جہاں جہاں سے وہ گزریں، طواف کرنا ہے

٭٭٭

 

 

 

میرے ذہن کی ہر اک سوچ پہ اس کی یاد کا پہرہ تھا

اس کا پیار آسیب تھا جس کا میرے دل پر سایہ تھا

 

میں اپنے گھر میں بے گانہ، میں اپنوں میں غیر ہوا

مجھ سے کوسوں دور کھڑا تھا جو میرا ہمسایہ تھا

 

میرا دل وہ کانچ تھا جس کو اس نے ہاتھوں سے توڑا

جب وہ زخمی ہو کے رویا، میں بھی ساتھ ہی رویا تھا

 

جب سے غم کی چادر اوڑھی، ساری دنیا گنگ ہوئی

جو بھی میرے حال پہ ہنستا، دل میں رونے لگتا تھا

 

چاہت کی سب باتیں دھوکہ، سارے وعدے جھوٹے تھے

اس نے یہ الفاظ کہے تھے، جب آنکھوں میں دیکھا تھا

 

دیکھو تم انسان نہیں ہو، تم پتھر کی مورت ہو

جب اس نے یہ بات کہی، میں اِک لمحے کو چونکا تھا

1

میں نے سوچا بات کروں یا آنے والے کو دیکھوں؟

اتنی مدت بعد وہ آخر کن باتوں میں اُلجھا تھا؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے