عقیدت ہے زبانی جمع و خرچ ان خام کاروں کی
حقیقت میں حقیقت کھُل گئی بے روح نعروں کی
بنایا کوزہ گر ہی نے مٹایا کوزہ گر ہی نے
چلو مٹی ٹھکانے لگ گئی ہم خاکساروں کی
کہیں فٹ پاتھ پر ردی کے بھاؤ بکتے دیکھے ہیں
یہی تو رہ گئی ہے قدر اپنے شاہ کاروں کی
وفادارانِ اصلی کو نظر انداز کرتے ہیں
بناتے ہیں وہ جب فہرست اپنے جاں نثاروں کی
ہماری بات تیری ذات پر کیوں کھل نہیں پاتی
نہ کثرت ہے علائم کی نہ شدت استعاروں کی
زمین پاک سے ناپاک تک ظالم مسلط ہیں
دعائیں بد دعائیں رد ہوئیں لاکھوں ہزاروں کی
ہمارا کام بنتا اور بگڑتا رہتا ہے اکثر
ہماری زندگانی خیرؔ زد میں ہے اداروں کی
٭٭٭
مجھ کو بتا رہا تھا وہ ابنِ فلاں حسب نسب
میں نے بھی یار پڑھ دیا تبّت یدا ابی لہب
نا پختہ شیخ و برہمن، ظلم عظیم میں مگن
خلّاقِ دو جہان کو دیتے ہیں دعوتِ غضب
لہو و لعب میں مبتلا، لیت و لعل کا سلسلہ
اِس کے سوا ہے اور کیا نسلِ نوی کے روز و شب
گزری ہے ہر گمان سے، حق الیقیں کی آس میں
حرف غلط کی بے کلی، حرفِ صحیح کی طلب
ہم سے ادا نہ ہو سکا فرض کفایہ ایک بھی
ایسے میں کیا بنیں بھلا حصۂ محفلِ طرب
جس کے لیے لکھا گیا، جس کے لیے کہا گیا
اُس نے مجھے پڑھا ہی کب، اُس نے مجھے سنا ہی کب
نظمِ رؤف خیر سے، نثر رؤف خیر تک
تنقید شر و بے ادب، تائید خیر ِبا ادب
٭٭٭