عورت ۔۔۔محمّد اسد اللہ

 

’ اس کا شوہر آٹو رکشا ڈرائیور تھا، اچانک ایک حادثہ کا شکار ہو کر چل بسا۔ شوہر کی کمائی کے علاوہ اور کو ئی ذریعہ روزگار نہ تھا۔ بچّوں کی پرورش اور تعلیم کا مسئلہ منہ پھاڑے کھڑا تھا۔ جب کئی دن تنگی اور پریشانی کے گذرے تو اس نے یہ عجیب و غریب ارادہ کر لیا۔ ٹوٹے پھوٹے آ ٹو کی مرمّت کر وائی اور اس طرح وہ اس شہر کی پہلی خا تون آ ٹو رکشا ڈرائیور بن گئی۔ آج جو سبق ہم پڑھنے جا رہے ہیں اسی خا تون کے متعلق ہے ‘۔، یہ کہہ کر میں نے کتاب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کلاس کی ذہین ترین طالبہ نغمہ بول پڑی۔

’سر عورت کیسے آٹو رکشا ڈرائیو ربن سکتی ہے ؟‘کلاس میں موجود طالبات کے چہروں پر بھی وہی سوال لکھا ہوا تھا۔

بالکل بن سکتی ہے، ہمارے شہر میں بھی چند عورتیں آ ٹو چلاتی ہیں۔ یہ چیز ابھی عام نہیں ہو ئی ہے۔ میں نے طالبات کو سمجھانا شروع کیا۔ لیکن جس شہر کی یہ کہانی ہے۔ وہاں پہلے کبھی کسی عورت کو آٹو چلاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تھا۔ حالات انسان سے کیانہیں کر واتے۔ پہلے تو اس پیشے میں مو جود مرد ڈرائیوروں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ فقرے کسے، لیکن وہ عورت بھی دھن کی پکّی نکلی۔ زندگی کی جو جنگ اس نے لڑی وہ آج آپ کے لئے ایک سبق بن گئی ہے۔

’سر آپ کے لئے فون ہے۔ ‘ چپراسی دروازے پر کھڑا تھا۔

میں نے ان بچّوں کو سبق پڑھنے کے لئے کہا اور آ فس کی طرف چل دیا۔ ’ہلو بھائی سائب ! میں کب سے کانٹیک کر ریا ہوں فونیچ نئی لگ را ‘۔ فون پر ببلو تھا۔ اپنے مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ۔

’ہاں، میرا فون دو دن سے خراب ہے، سب ٹھیک تو ہے ؟‘

’ نئی بھا ئی ساب۔ ایک بری خبر ہے، ایک کیا دو بری خبر ہے۔ صائیمہ باجی کا انتقال ہو گیا۔ ‘

’اوہ! انّا للٰہ و انّا الیہِ راجعون۔ ‘

’آپ کو فون کئے تھے مگر نئی لگا۔ پھر اشرف ماسٹر سے اسکول کا نمبر لے کر لگایا، اور جب باجی کو قبرستان لے کر گئے اور واپس آئے تو نانی جان کا بھی انتقال ہو گیا۔ آج مغرب میں ملائیں گے آپ آ رئے نا؟ ‘

میرا سرگھومنے لگا۔ باہر تیزی سے بھاگتے مناظر کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ماضی کے سارے واقعات کسی فلم کے اسکرین کی طرح میرے ذہن کے پر دے پر ابھرنے لگے۔ صائمہ باجی ہمارے پڑوس میں رہا کرتی تھیں۔ بچپن ہی سے میں انھیں خا لہ کہاکرتا تھا۔ دبلی، پتلی، شیرین لہجہ اپنائیت سے لبریز، ایسا محسوس ہوتا جیسے سر تا پا شفقت میں ڈوبی ہو ئی ہوں۔ ایک چھوٹے سے مکان میں وہ رہا کر تی تھیں، پھر جب جمیل بیگ سے ان کی شادی ہو گئی تو ہمارے پڑوس میں آ کر رہنے لگیں۔ ان کی والدہ جنھیں ہم نانی کہا کر تے تھے، وہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اسی ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے مدنا پور میں ان کی پر ورش ہو ئی تھی، وہیں تعلیم حاصل کی اور پھر ہمارے گاؤں کے ایک پرائمری اسکول میں ان کا تقرر ہو گیا۔ ایک محنتی، ذہین اورشریف استانی کی حیثیت سے انھوں نے بچّوں اور بستی والوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ مجھے کسی نے ان کے متعلق بتا یا تھا کہ مدنا پور میں ان کے والد محنت مزدوری کر کے گذر بسر کیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی کھیت میں بارش کے دوران پیڑ کے نیچے کھڑے تھے کہ اچانک اس پیڑ پر بجلی گر پڑی اور وہیں ختم ہو گئے۔ پھر حالات کی نہ جانے کتنی بجلیاں ان کے پس ماند گان پر گریں۔ نانی جان نے بڑے صبر کے ساتھ خالہ جان اور ان کے بھائی عرفان کو پال پوس کر بڑا کیا۔ ایک غریب بیوہ کے راستے میں جو مصیبت کے پہاڑ آ سکتے ہیں وہ سب انھوں نے ہمّت کے ساتھ طے کئے۔

وقت کے ساتھ عرفان کمانے کے لائق ہوا تو انھوں نے اسے ایسے دیکھنا شروع کیا جیسے وہ آنگن میں لگے بور سے لدے مہکتے ہوئے آم کے پیڑکو دیکھا کر تی تھیں جس میں اس بار پہلی مر تبہ پھل آ نے والے تھے۔۔ عرفان کی شادی ہو ئی اور چاند سی دلہن گھر آ ئی۔ ان ہی دنوں ایک رات کچھ ایسی زبر دست ہوا چلی کہ آم کا سارا بور زمین پر بچھ گیا۔ شادی کے چند دنوں بعد ہی بہو نے اس گھر میں ماں بیٹی کا رہنا دشوار کر دیا۔ عرفان کی بیوی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ دونوں عرفان کی محدود کمائی پر بوجھ ہیں۔

چند ماہ گذرے ہوں گے کہ بیوہ کی دعاؤں اور آ نسوؤں نے ایک نیا راستہ کھول دیا۔ ہمارے گاؤں میں صائمہ خالہ کا تقرر ایک پرائمری اسکول میں ہو گیا۔ وہاں ایک کرائے کا مکان لے کر وہ دونوں ماں بیٹی رہنے لگے۔ ملازمت کر تے ہوئے دو تین برس گذرے ہوں گے کہ ہمارے پڑوس میں رہنے والے مرزا جمیل بیگ سے صائمہ خالہ کا نکاح ہو گیا۔ ہم مرزا صاحب کو کسی حد تک جانتے تھے اس لئے اس خبر سے ہمیں کو ئی خو شی نہیں ہوئی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، شادی کے بعد مرزا صاحب نے پر پر زے نکالنے شروع کر دئے۔ انھوں نے تو صائمہ خالہ کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھ کر نکاح کیا تھا۔ ہمارے سماج میں اب سروس والی بیوی سے شادی کرنا بھی تلاشِ روز گار کی ایک مقبول قسم ہے۔

بیوی کی کمائی ہاتھ لگی تو مرزا صاحب کا ہاتھ کھل گیا۔ چند ہی مہینوں میں انھوں نے شراب اور بازاری عورتوں کے چکّر میں پھنس کر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانا شروع کر دیا۔ صائمہ خالہ خاموشی سے وہ سارے مظالم سہتی رہیں۔ ان کی بے بسی اور خاموشی نے بیگ صاحب کے حوصلے بڑھا دئے۔ نانی نے ان کی حرکتوں کے خلاف آواز اٹھا ئی مگر ان کی آواز میں وہ طاقت کہاں تھی کہ بیگ صاحب کا ہاتھ روک لیتی۔ وہ بذاتِ خود داماد کے گھر میں پناہ گزیں تھیں۔ بیٹے کے گھر کی دہلیز پھلانگ کر آ ئی تھیں، اس طرف کا راستہ بند تھا۔ لے دے کر بیٹی کی تنخواہ کا ایک سہارا تھا اور وہی اس گھر میں ان کے رہنے کا جواز بھی تھا۔ بیگ صاحب بھی اس بات کو خوب جانتے تھے کہ نانی کو الگ کر دینے سے وہ لکڑی ٹوٹ جائے گی جس پر انھوں نے اپنے عیش و عشرت کا آشیانہ بنایا تھا۔ صائمہ خالہ زندگی بھر ایک لدی ہو ئی شاخ کی طرح جھکی رہیں۔

میرے آب و دانے نے مجھے اس زمین سے کسی پو دے کی طرح اکھاڑ کر شہر کا حصّہ بنا دیا تھا۔ گاہے بگاہے ان لو گوں کی خبریں مجھ تک پہنچتی رہتی تھیں۔ ببلو کبھی کبھار شہر آ تا تو میرے گھر بھی چلا آ تا۔ اسی کے ذریعے ایک دن مجھے پتہ چلا کہ بیگ صاحب نے دوسری شادی کر لی اور ایک ایک نیا گھر بنا کر نئی بیوی کو اس وہاں رکھ چھوڑا ہے۔ پھر ایک سال بعد خبر ملی کہ صائمہ خالہ کو بلڈ کینسر ہو گیا۔ بوڑھی نانی کے مقدّر میں نہ جانے اور کیا کیا لکھا تھا۔ ذہنی طور پر سبھی اس خبر کے لئے تیّار تھے کہ صائمہ خالہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔

اپنی مٹّی سے دور ہونے کی ایک جان لیوا کسک جو شہر کے ہنگاموں میں ایسے چھپ جاتی ہے جیسے بارش کی پہلی بوچھار سے گاؤں کی کچّی سڑکوں پر اڑتی دھول دب جاتی ہے، اب پھر ابھر آ ئی تھی۔ بس دھیرے دھیرے اس بستی کے جانے پہچانے راستوں پر رینگ رہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہو گویا میں اپنے ماضی کے شہر میں داخل ہو رہا ہوں۔ گاؤں کے راستے اب بھی ویسے ہی تھے، دھول اڑاتے ہوئے۔ لو گوں کو چہروں پر وقت اپنے سفر کے نشان چھوڑ گیا تھا۔ بس دھیرے دھیرے آ گے بڑھ رہی تھی۔ اسٹیشن قریب آ یا تو میں نے اپنا بیگ اور خود کو سنبھال اور بس رکتے ہی نیچے اتر آیا۔ پہلے یہی قصبہ صائمہ خالہ اور نانی جان کے وجود سے کیسا بھرا بھرا لگتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دونوں اپنے ساتھ اس قصبے کی ساری رونقیں سمیٹ کر لے گئے۔

صائمہ خالہ کے گھر پہنچا تو نانی جان کو غسل دیا جا چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ جنازہ لے کر قبرستان کی طرف چلنے لگے۔ صائمہ خالہ کے پہلو ہی میں انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اسی دوران مجھے پتہ چلا کہ جب صائمہ خالہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو نانی جان لڑکھڑاتی ہوئی دروازہ تک آئیں اور اشکبار نظروں سے بیٹی کے جنازہ کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ جب لوگ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو ایک چیخ مار کر یہ کہا، بیٹی صائمہ ! اب میں اس گھر میں کس منہ سے رہوں گی ؟ اور پھر وہ ایک کمزور مکان کی طرح وہیں ڈھ گئیں۔ انھیں اٹھا کر وہیں بستر پر لٹا دیا گیا اس کے بعد وہ ہوش میں نہیں آئیں۔

دوسرے دن مجھے اپنے شہر روانہ ہو نا تھا۔ میں جب بس اسٹاپ پر پہنچا تو دیکھا اس چھوٹی سی بستی میں بڑی بڑی عمارتیں سر اٹھا نے لگی تھیں۔ اب اس گاؤں کے اندر سے ابھرتے ہوئے عفریت جیسے شہر نے اس بستی کو نگلنا شروع کر دیا تھا۔ میرے قریب سے ایک آٹو رکشا گذرا جسے ایک عورت چلا رہی تھی۔ شہر کی طرح یہ مجبوریاں اب قصبوں میں داخل ہو چکی تھیں۔ مگر یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

مجھے حیرت سے اس منظر کو دیکھتے ہوئے ببلو نے کہا۔ ’بھائی جان ! عورتاں آجکل بھوت ترقّی کر لیاں، ادھر گاؤں گاؤں میں عورتاں آ ٹو چلانے لگ گیاں۔ ‘

میری آنکھوں کے آ گے صائمہ خالہ کا چہرہ آ گیا جو ملازمت ملنے کے بعد اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی تھیں۔ پھر لڑکھڑاتا ہوا نانی جان کا ہیولہ ابھرا اور گر کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

’ببلو! عورت چاہے آ ٹو چلائے یا ہوائی جہاز، دنیا والے عورت کی ترقّی کے کتنے ہی افسانے بنا ڈالیں حقیقت یہ ہے کہ عورت آج بھی اتنی ہی بے بس اور لا چار ہے جتنی کل تھی۔ ‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے