عرفان ستار سے میرا تعارف اُن کے پہلے مجموعہ کلام تکرار ساعت کے ذریعہ ہُوا۔ تکرارِ ساعت اگرچہ میرے ذوق کو حیرت میں ڈالنے والی کتاب نہ تھی مگر اس میں پٹی ہوئی مُبتدیانہ شاعری سے پرے سفر کرتے شاعر کا عکس نمایاں تھا۔ اسی مجموعے میں ایک غزل اِس شاعر کے شعری سفر میں نئے راستے کھولنے کی علامت کے طور پر مُجھے یاد رہی۔۔۔۔۔
یہاں تکرار ِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب اُن کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
عرفان ستار چونکہ کراچی میں رہے تو کراچی کے نمائندہ شُعرا کی ہم عصری نے ضرور اُن کی شاعری کا مزاج متعین کرنے میں حصہ لیا ہے۔۔۔جون ایلیا کی صحبتوں کے باوجود انہوں نے تکرارِ ساعت اور اُس کے بعد کے شعری سفر میں جون ایلیا کا سایہ بہت کم اپنے اسلوب پر پڑنے دیا ہے۔۔۔اگر ایک فقرے میں ان کی شاعری کا مزاج بیان کرنا ہو تو وُہ زبان کے شاعر ہیں اور الفاظ کی نشست و برخاست سے شعر کہتے ہیں۔پچھلے پانچ برسوں میں ان کی شاعری اب اپنا ایک خاص رنگ اوڑھنے کی کوشش میں قدرے کامیاب ہو گئی ہے۔۔۔
تعلق کو نبھانے کے بہت دکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
اس شعر میں الفاظ کی نشست و برخاست، اور دوسرے مصرعے کی عام بول کی طرح کی روانی قابلِ ذکر ہے۔۔۔مضمون آفرینی ان کے ہاں بلند بانگ نہیں ہے۔۔۔یعنی لکھنوی تہذیب جیسے رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا، ترے اعتبار میں بجھ گیا
جنھیں روشنی کا لحاظ تھا، جنھیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں انہی کی صف میں جلا کیا، میں اُسی قطار میں بجھ گیا
قطع نظر اس مشقتِ سخن کے جو لمبی بحر میں ان کی مہارت کی پہچان ہے، مضمون کی نُدرت دھماکہ خیزی کی بجائے آہستہ سے خنجر کی طرح فکر میں داخل ہوتی ہے۔۔اور یہی وُہ اسلوب ہے جسے میں نے پہلے ایک ہی جُملے میں بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وُہ زبان کے شاعر ہیں اور الفاظ کی نشست و برخاست سے شعر کہتے ہیں۔
زیر نظر اشعار ان کی بصیرت و بصارت کا بیان ہے۔۔۔۔۔
یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خاک ِ رہگزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگان ِ شہر کہاں جا کے مر گئے
سکون ِ خانۂ دل کے لیے کچھ گفتگو کر
عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے
تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟
میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اِس وارفتگی سے
اس آخری شعر کی نُدرت دل چھو لینے والی ہے۔۔
عرفان ستار کا خیال ہے کہ شاعری ، خواص کی چیز ہے عوام کی نہیں۔۔۔اِسی لئے عرفان ستار کی شاعری میں خواص کے لہجے کی کھنک نمایاں ہے۔۔۔۔ ان کے اس خیال سے مَیں بوجوہ اتفاق نہیں کرتا اور ہم دونوں ببانگِ دُہل ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا جو کہ ادب کی ترویج کا تیز ترین اور وسیع ترین ذریعہ ہے اُس سے عرفان ستار کو بھی مُستفید ہونے کا موقع مِلا، وُہ کبھی رنجیدہ و مایوس ہو کر مُجھے کہتے ہیں کہ دیکھو شعر میں ارادی تجربے کو لوگ غلطی کہنے کی عادت ڈال بیٹھے ہیں۔مگر عرفان ستار یہ بات اُن لوگوں سے خود نہیں کہتے۔۔یہ رویہ عرفان ستار کی صلح جُو طبیعت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کا اسلوب بھی بناتا ہے۔۔۔
اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو
میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟
میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں
یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے
تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاؤ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے
میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟
نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
مَیں نے جب بغور عرفان ستار کی شاعری کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ ان اسلوبِ شاعری کی دو شاخیں ہیں۔۔
ایک میں اُردو قدما کے زبان و بیان و تراکیب کے سہارے اپنے خیالات کی عکاسی ہے۔۔۔۔تو دُوسرے اسلوب میں جدید حسیت معنوی سطح پر تو نمایاں ہے مگر خارجی طور پر اُنکی شاعری قدامت یا کلاسیک کا پیرہن ہی پہنے رکھتی ہے۔۔۔وُہ بیان کے تجربات پر تو متفق ہیں مگر الفاظ کی شکست و ریخت سے دامن بچائے جاتے ہیں۔۔
فکری سطح پر وُہ جو انتشار پیدا کرتے ہیں وُہ نہایت دھیما ہے۔۔۔کسی کسی جگہ ان کا لہجہ اپنی عام روش سے پرے ذرا زور دار ہُوا ہے مگر تخاطب کی حد تک۔۔۔۔۔۔جیسے
اب اس پہلے شعر میں شاعر کا لہجہ درشتگی سے پُر ہے۔۔
تیرے لہجے میں تیرا جِہلِ درُوں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے
مگر دُوسرے شعر میں وُہ واپس اپنے ادب آداب میں لوٹ آتے ہوئے اعتراض تو جاری رکھتا ہے مگر آہنگ دھیما کر لیتا ہے۔۔
تیرا اندازِ تخاطب ، ترا لہجہ ، ترے لفظ
وُہ جسے خوفِ خدا ہوتا ہے یُوں بولتا ہے
عرفان ستار نے بعض اشعار منظر کشی سے عبارت کئے ہیں اس کا یہ شعر مُجھے بہت بھلا لگتا ہے۔۔۔۔
وُہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھں ، رِہا ہوتے ہوئے بھی
گویا ساری زندگی کا مرکز ایک روزنِ قفس تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ خیال کی گہرائی کا کمال ہے۔۔۔جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔۔۔۔
عرفان ستار ایک قادر الکلام شاعر ہیں انہوں نے مختصر ترین براوں کے علاوہ طویل ترین بحروں مین بہت رواں اشعار کہے ہںن جن میں حیرت انگیز طور پر بعض اوقات ان کے عام بحروں والے اشعار سے زیادہ روانی ہے۔۔۔۔شاید اسکی وجہ اُن کی ارادی محنت ہو۔۔۔
سوشل میڈیا کی آسانیوں نے جہاں شُعرا کے آُس کے رابطوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بےشمار خرابیاں بھی در آئی ہیں۔۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کونسے شاعر کی کونسی روش ہے کونسا اسلوب ہے۔۔۔۔۔؟ مِلے جُلے الفاظ۔۔۔و مضامین ، ملی جُلی ترکیبات اور درآمدہ و مُستعار تراکیب و استعارے شُعرائے اردو نے بے دریغ لُوٹ کھسوٹ کے ذریعے بٹورنا شروع کئے ہیں۔ عرفان ستار نے کافی حد تک اس سے دامن بچایا ہے۔۔۔مگر ایک غزل نظر سے گزری جس میں عرفان ستار بھی اِسی بہتے دھارے میں بہہ گئے۔۔۔۔
اپنی خبر نہیں، نہ اُسکا پتہ ہے ، یہ عشق ہے
جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے یہ عشق ہے
میں ضرور کہوں گا کہ اِس روش سے شاعر کو بچنے کی ضرورت ہے۔۔۔کُوزہ گر۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔دیا۔۔شمع ۔۔۔۔۔پروانہ۔۔۔۔۔اس قدر پِٹ گئے ہوئے الفاظ و مضامین ہیں جن کو اچھے شُعرا کو ترک کر دینا چاہئیے۔۔۔۔اور اگر کبھی باندھیں تو ان الفاظ کے کوئی نئے معانی مرتب کرتے اسلوب میں باندھیں۔۔۔۔
اب یہ شعر جون ایلیا کے انداز کی یاد دلاتا ہے۔۔۔
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
اگرچہ یہ دُوسرا شعر نُدرت بھرا مضمون لئے ہے مگر اسلوب میں جون ایلیا کا سایہ آنے سے ذرا کدورت ہوئی۔۔۔۔
اب مَیں ہر بات بھول جاتا ہے
ایسی عادت نہ تھی ، کہ تھی میری؟۔۔
ایلیٹ بھی ایزرا پاونڈ کی طرح استعارہ کو شاعری کا اصل جوہر قرار دیتا ہت اور اس کے مطابق شاعر کا کام شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ فنکاری ہے شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں چاہے خارجی ہو یا داخلی بالکل واضح رہے اور اس کو استعاروں اور تمثیل کے ذریعے واضح کرے اور اس کا خیال ہے کہ اشعار میں استعارے اور تمثیل محض تزئین و آرائش کا کام نہیں کرتے بلکہ شاعر کے وجدان کا مظہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عرفان ستار کے کلام میں استعارے کی کمی محسوس ہوئی۔۔۔عرفان ستار زبان کے تموج سے شعریت پیدا کرتے ہیں مگر استعارے یا تمثیل دونوں سے مفارقت برتتے ہیں۔۔
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جا گزیں
وُہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا۔۔
اب اس شعر میں استعارے کے استعمال کا بہترین موقع تھا مگر شاعر کی طبیعت زبان کی چاشنی میں مستغرق ہے۔۔۔۔۔
نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تُم سے
مَیں ٹھیک ٹھاک ہُوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
اگر عرفان ستار اسی انداز میں بول چال والے ڈھنگ پر اشعار کہتے رہیں تو بڑے لُطف کی بات ہے۔۔۔مگر وُہ بسا اوقات معانی کی تلاش میں ثقالت کا خطرہ مول لیتے ہیں جس سے مَیں ذاتی طور پر مین اسلئے اجتناب کرتا ہوں کہ شاعری عوام و خواص دونوں کی چیز ہے۔۔۔۔مگر عرفان ستار کے خیال میں شاعری صرف خواص کی چیز ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اگر شاعری خواص کی ہی چیز ہے تو خسرو کی شاعری عوام میں کیوں مقبول ہوئی؟۔۔بلھے شاہ کو کیوں بلند مقام عوام میں مِلا۔۔۔۔؟
ہو سکتا ہے کبھی یہ خواص کی چیز ہو مگر اب نہیں ۔۔اب یہ عوام و خواص کی چیز ہے۔۔۔اس لئے دونوں طبقات کی دلچسپی شاعر کو ملحوظ رہے۔۔۔یُوں بھی شاعری خود بیانی کا ایک فن ہے۔۔۔اور بیان کرنے والے کو زیادہ سامعین میسر آئیں تو کیا قباحت ہے؟۔۔
شعر کی زمین یعنی بحر پر اگرچہ شاعر کی گرفت بے پناہ ہے مگر۔۔۔بعض جگہ جب وُہ سادگی کو قربان کرتے ہیں تو عجب لگتا ہے۔۔۔
ایک آواز پڑی تھی، کہ کوئی سائلِ ہجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا مَیں
اس شعر کے پہلے مصرع کو سوالیہ نشان کی ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔
ایک آواز نے پُوچھا ، ہے کوئی سائلِ ہجر
ایسا لکھنے میں کیا حرج تھا؟۔۔۔دراصل شاعر اپنی زباندانی کا لُطف خود لے رہا ہے۔۔۔۔ایک آواز پڑی کا لُطف۔۔۔۔۔۔اور اس تلذذ میں مصرع کی قربانی دے دی۔۔۔۔۔
اور اُس کی وجہ شاید عرفان ستار کا یہ ماٹو ہے کہ۔
فرماں روائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جُنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رَہ
عرفان ستار الفاظ کی مشاطگی ، میں ثقالت کو روک نہیں سمجھتے۔۔۔ان کا یہ شعر نہایت خوبصورت شعر ہے۔۔۔مگر صرف خواص کے لئے۔۔۔
تابِ یک لحظہ کہاں ، حُسنِ جُنوں کے پیش
سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ہے
عرفان ستار کے ہاں موجود و غیر موجود اور موجود کی موجودگی کے اسباب اور غیر موجود کی غیر موجودگی کے اسباب پر بے شمار اشعار مِلتے ہیں جو ان کی فلسفیاتی اُپج کے آئینہ دار ہیں۔
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآل ِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
وُہ اساطیر اور مذہب سے کُھل کر اختلاف کی جرات نہیں رکھتے اس لئے خفیف پیرایہِ اظہار کی آڑ لیتے ہیں۔۔۔یہ ان کا اسلوب بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔اور مصلحت کا تقاضہ بھی ،،،۔۔۔
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
قصوں کو سچ ماننے والے، دیکھ لیا انجام؟
پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا
نہ پُوچھئیے وُہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
ہمارے یہاں پچھلی کئی دہائیوں سے شُعرا کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے یا تو زمین و آسمان کے قلابے مِلائے جاتے ہیں یا کاپی پیسٹ قسم کے تبصرہ جات لکھ دئیے جاتے ہیں۔ تعمیری تنقید کا اردو مین دُور دُور تک کوئی نشان نہیں۔۔ابھی حال ہی میں ظفر اقبال نے اپنے ایک کالم میں رفیق خیال کی کتاب میں عروضی غلطیاں کی نشاندہی کی اور اس کتاب کے مضمون نگاروں میں گوپی چند نارنگ، محمد علی صدیقی اور عباس تابش بھی شامل ہیں۔۔عرفان ستار کے ہاں عروض پر جو دسترس دیکھنے میں آتی ہے وُہ اہم بات ہے۔۔کیونکہ ان کی نصابی تعلیم دُوسرے موضوعات کے حوالے سے ہے،، وُہ پُوری گرفت سے اشعار کہتے ہیں۔۔اسی لئے ایک بار حلقہ ارباِب ذوق کی نشست میں افضال نوید کے بے وزن اشعار پر بات کئے بغیر وُہ نہ رہ سکے۔۔عرفان ستار اچھے شعر کے اہم پارکھ ہیں۔۔۔اس حوالے سے انہیں سینکڑوں اشعار ازبر ہیں۔
جدید حسیت کے حوالے سے مَیں پہلے بیان کر چُکا ہُوں وُہ خارجی اعتبار سے تو نہیں مگر داخلی اعتبار سے شعر میں بیان کرنے کے قائل ہیں۔۔
ان کے اشعار ۔۔۔۔مختصر اہلِ سخن کی نشستوں میں بہت لُطف دیتے ہیں۔۔۔جہاں صاحب فکر بیٹھے ہوں۔۔وہاں ایسے اشعار کا مزہ لیا جاتا ہے۔۔
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پس ِ پردۂ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابل ِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی سائبان نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لامکاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جان ِ جاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکر ِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہ پارینہ ہُوا
رونق ِ محفل ِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردید ِ صف ِ کجکلہاں تھے ہم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان ستار سے جدید حسیت پر مبنی اشعار کی طلب کی جانی ضروری ہو گئی ہے۔۔اگرچہ ان کی زنبیلِ سخن میں ابھی بےشمار اشعار موجود ہں۔ جو فکری سطح پر تحرک لاتے ہیں۔۔اور اچھی شاعری کی پہچان یہ ہے کہ فکری تحرک لائے ورنہ شاعری کسی کو سنانا بے مین ہو جاتا ہے۔۔جو امثال مَںا نے اوپر درج کی ہیں ان کی روشنی میں عرفان ستار ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔۔۔اور دن بدن ان کے کلام میں فلسفیانہ تفکر کی گُونج بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔جو وقت کی ضرورت ہے۔۔
ابھی اس عمومی تجزئیے پر اکتفا ہے کسی اور نشست میں ان کے ہاں کی تراکیب و تماثیل اور موضوعات پر الگ سے گفتگو کروں گا۔۔۔تب تک طویل ترین بحر میں عرفان ستار کا کمال دیکھئے۔۔
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تو بھی ہو جائے گا رائیگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابان دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگذر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دست فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہل ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہ اسیران کذب و ریا، بندگان درم، بندگان انا
ہم فقط اہل دل، یہ فقط اہل زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بسر، کچھ سخن چاہیئے درمیاں یا اخی
٭٭٭