اداس ہونے لگے ہیں اب انتظار کے رنگ
اتر نہ جائیں کہیں دل سے اعتبار کے رنگ
وہ خوش خرام اب آتا نہیں ہے سیر کو کیا
کہ زرد ہونے لگے سبز مرغزار کے رنگ
نہیں اے قوسِ قزح! تجھ میں بھی وہ رنگ نہیں
دمک رہے ہیں کہیں پر جو گلعذار کے رنگ
اب اس کے رنگ کی تمثیل کیا بتاؤں میں
کہ چاندنی میں ملے ہیں ذرا شرار کے رنگ
وہ نیم باز تھیں آنکھیں کہ کوئی جام و سبو
نگاہِ شوق سے جاتے نہیں خمار کے رنگ
مہ و نجوم ! عبث ہی چمک دکھاتے ہو
کبھی تو دیکھو! ذرا آ کے میرے یار کے رنگ
بلاؤ بادِ صبا! تم ذرا بلاؤ اسے
کہ اب خزاں میں نظر آئیں کچھ بہار کے رنگ
٭٭٭
اداس ہونے لگے ہیں اب انتظار کے رنگ
اتر نہ جائیں کہیں دل سے اعتبار کے رنگ
وہ خوش خرام اب آتا نہیں ہے سیر کو کیا
کہ زرد ہونے لگے سبز مرغزار کے رنگ
واااااااہ ، عالم خورشید صاحب ، ہمیشہ کی عمدہ کلام