صلیب پر لٹکے ہوئے لوگ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی

کیا یہی انصاف ہے اور انصاف کی مجھے امید بھی کیوں کرنی چاہیے ۔۔۔  ۔۔۔  انصاف ۔۔۔  ۔۔۔  اور ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ وہ بھی کس سے؟ ۔۔۔  ۔۔۔  نہیں غلطی تو میری ہی ہے۔۔ میں نے اپنے باپ دادا کا کہا نہ مانا ۔۔۔  باپ دادا ہی کیوں ۔۔۔  ان سے بھی عظیم ہستیوں کے قول پر توجہ نہیں دی ۔۔۔  ۔۔۔  یہاں تک کہ اس عظیم دوست کی بات بھی نہیں سنی جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔  تو ۔۔۔  ۔۔۔   پھر تو یہ ہونا ہی تھا۔۔  لیکن کیا یہی میرا قصور ہے؟

سوچتے سوچتے مسلم کا گلا رندھ گیا ۔۔۔ ۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ تبھی دروازہ پر ہو ئی دستک نے اسے چونکا دیا۔

’’کون ہو سکتا ہے ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ؟ ؟ ؟ ؟ تذبذب میں مبتلا مسلم نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ دروازہ پر علاقہ کا مشہور غنڈہ سیم کھڑا تھا۔

’’یہ میرے دروازہ پر ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ یا خدا ۔۔۔  رحم کر۔ ‘‘

مسلم دل ہی دل میں ہول رہا تھا کہ سیم نے اسے گھورتے ہوئے کہا:

’’کیا اندر آنے کو نہیں کہو گے میاں؟ ‘‘

’’جی ۔۔۔ ۔ جی ۔۔۔ ۔ کیوں نہیں۔۔ تشریف لائیے۔ ‘‘ مسلم نے اپنی بیٹھک کے اندر پڑے بوسیدہ سے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ سیم پہلے تو بوسیدہ صوفے پر بیٹھنے میں جھجکا پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔

’’میں نے سنا ہے کہ تمہاری زمین کا جھگڑا چل رہا ہے۔ ‘‘

’’اوہ ۔۔۔ ۔ تو یہ بات ہے ُ‘‘ مسلم قدرے سنبھل کر بیٹھ گیا۔  ’’اس جھگڑے کو شروع ہوئے تو زمانہ گزر گیا ۔۔۔ ۔۔ کتنا خون بہہ چکا۔۔ اور آپ کو تو سب معلوم ہی ہو گا۔ ‘‘

’’ہاں بھئی ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  لیکن اب یہ خون خرابہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔ ‘‘

’’جناب خون خرابہ تو آپ کا روز کا شغل ہے۔  پھر آپ کو ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ‘‘ مسلم بڑے بے باک انداز میں گویا ہوا۔

’’مگر تمہارا شغل تو نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔ اور پھر مجھے تم سے ہمدردی بھی ہے۔ ‘‘

مسلم کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو گئی۔

’’اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔  ۔۔۔  ‘‘ مسلم نے سوال کیا۔

’’میں تم دونوں کے درمیان صلح کرا دیتا ہوں۔ ‘‘

’’صلح ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ !!!‘‘

’’ہاں تاکہ تم دونوں اچھے دوستوں کی طرح سکون سے زندگی گزار سکو۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں کہ آپ چاہیں گے تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا، لیکن ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ‘‘

’’لیکن کیا؟ ‘‘ سیم نے مسلم کے چہرے پر آنکھیں جما دیں۔

’’بھروسہ تو ہو کہ انصاف ہو گا ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘

’’کیا مطلب ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ تم مجھ پر شک کر رہے ہو۔ ‘‘ سیم کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔

مسلم نے سیم کے لال ہوتے چہرے کو دیکھ کر بات گھمانے کی کوشش کی۔  ’’صلح کس شرط پر ہو گی؟ ‘‘

’’شرط کچھ نہیں ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ تم اگر تیار ہو جاؤ تو ہم تمھیں تمام دوسری سہولتیں بھی مہیا کرائیں گے۔ ‘‘

’’کیسی سہولتیں؟ ‘‘ مسلم نے حیرانی سے سیم کی طرف دیکھا۔

’’جو تم چاہو‘‘ سیم نے بائیں آنکھ دبا کر اوباش قسم کی ہنسی کے ساتھ کہا۔ مسلم کو اس مخصوص اشارے سے گھبراہٹ محسوس ہوئی۔

’’ہم دونوں کے درمیان زمین تقسیم کیے دیتے ہیں کچھ حصہ پر تم قابض ہو جاؤ گے باقی اس کے پاس رہنے دینا ۔۔۔ ۔۔ تم فکر نہ کرو اسے ہم تیار کر لیں گے۔  وہ ہماری بات نہیں ٹالے گا۔ ‘‘

’’اور ہماری قدیمی عبادت گاہ ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ !!!‘‘

’’تمہارے پاس تو نئی موجود ہے ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ‘‘

’’لیکن یہ توسراسر ۔۔۔  ۔۔۔  ‘‘

’’بدلے میں ہم تم کو دولت، خوبصورت حوریں، ہتھیار یا جو تم چاہو تمہیں دیں گے۔ ‘‘ سیم کی فریبی چال اب مسلم کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔

’’لیکن یہ ہماری پشتینی زمین ہے جس پر وہ زبردستی قابض ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن یہ اس کی بھی تو پشتینی زمین ہے کہ اس کے پاک صحیفے میں اس زمین کا ذکر ہے۔ ‘‘

’’لیکن جغرافیائی اعتبار سے یہ زمین ہماری ہے ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں۔ ‘‘

’’بھول جاؤ ان باتوں کو ۔۔۔ ۔ ان باتوں میں اب کچھ نہیں رکھا۔۔ ماضی نہیں حال اور مستقبل کی فکر کرو۔ ‘‘ سیم کی آواز تیز ہونے لگی تھی۔  مسلم کے بھی دانت بھنچ گئے۔

’’تو کیا میں ان خونریزیوں کو بھی بھول جاؤں جن کے سبب میرے عزیز ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ‘‘

’’ہاں تمہیں بھولنا ہو گا۔ ‘‘ سیم جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔  ’’سنو! ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ تم سوچ لو ۔۔۔  ۔۔۔   دو دن ۔۔۔ ۔ چار دن ۔۔۔ ۔ اس درمیان تمہارے گھروں پر آگ بھی نہیں برسے گی ۔۔۔  ۔۔۔  اب یہ تمہارے فیصلے پر منحصر ہے کہ آگ برسنا ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ ‘‘

مسلم، سیم کی دھمکی سے سکتے کی حالت میں بیٹھا رہ گیا۔  اس کا دماغ سن ہو چکا تھا۔  سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت جیسے ماؤف ہو گئی تھی۔  مسلم نے اہل خانہ کو جمع کر کے سیم کی تجویز اور دھمکی بیان کی تو نوجوانوں کا خون کھول اٹھا مگر بزرگوں نے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

مسلم کے بڑے بیٹے نے کہنا شروع کیا۔  ’’یہ زمین محض پشتینی زمین ہی نہیں بلکہ عظیم تاریخ کا حصہ ہے۔  ہمارے بزرگوں کی عظمتوں کی نشانی ہے ہم کسی بھی قیمت پر اس کا سودا نہیں کر سکتے۔  ہماری لڑائی بر حق ہے اور یہ جاری رہے گی۔ ‘‘

’’نہیں بڑے بھائی ۔۔۔ ۔۔ بہت ہو چکا ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ کب تک ہم زمین کے اس ٹکڑے کو پاک بتا کر خون میں نہاتے رہیں گے۔  اب اور نہیں ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ وہ خود ہمارے سامنے جھک کر آئے ہیں تو ہمیں بھی تقسیم کر لینی چاہیے۔  ہماری زندگیاں تو کٹ چکیں مگر ان نونہالوں کو تو دیکھئے ۔۔۔ ۔۔ ان کے معصوم چہرے دہشت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔  یہ کب تک سہم سہم کر زندگی جینے کو مجبور رہیں گے۔ ‘‘ مسلم کے چھوٹے بیٹے کے ضبط کا باندھ ٹوٹ رہا تھا۔  اس اختلاف پر مسلم چیخ اٹھا۔

’’ہماری صفوں میں اتحاد نہیں ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔ اس لیے ہم آج مصیبتوں میں گھرے ہیں۔  کاش کہ ہم متحد ہوتے !!!‘‘

’’اب منجھلے بیٹے نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی۔  ’’ابا حضور ! اس وقت اگر تھوڑا حصہ لے کر اس پر قابض ہو جائیں تو بعد میں بقیہ زمین کی آزادی کے لیے بھی کوشش کر سکتے ہیں۔  رہی بات معاہدہ کی، وہ تو ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔ ‘‘ مسلم بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر بیٹے سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔

آخر کار چھوٹے نے سیم سے مل کر معاہدہ کر لیا جس کا غم مسلم اور اہل خانہ مناتے ہی رہ گئے۔  چھوٹا کامیابی کا جشن مناتا اپنی منکوحہ گوری چٹی میم کے ہمراہ مسلم کے سامنے پہنچا تو مسلم کو بہت افسوس ہوا۔  وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔  ’’افسوس کہ تم باطل کی فریبی چال نہ سمجھ سکے۔ ‘‘

’’ہم مل کر باطل کو شکست دیں گے ابا حضور۔ ‘‘ چھوٹے کی منکوحہ گولڈی نے پر عزم لہجے میں کہا۔

’’کاش ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  !!!‘‘ مسلم نے ٹھنڈی آہ بھری۔

شادی اور اقتدار کے سرور میں ڈوبے چھوٹے کو اچانک بقیہ زمین کو واپس حاصل کرنے کا مشن یاد آیا تو اس نے محاذ آرائی کا ارادہ گولڈی پر ظاہر کر دیا۔  گولڈی سوچ میں ڈوب گئی اس نے چھوٹے کو اس کے مقصد سے غافل کرنے کی تمام تدبیریں کیں لیکن ناکام رہی۔  وہ اسے سمجھا رہی تھی۔  ’’تمہیں تمہارا حصہ تو مل چکا ہے پھر کیوں جھگڑا کرنا چاہتے ہو۔  وہ تمہیں مار ڈالیں گے۔ ‘‘

’’حصہ ۔۔۔ ۔۔ کون سا حصہ مل گیا؟ ۔۔۔ ۔۔ سیم نے مکمل خود مختاری کا وعدہ کیا تھا۔ کیا ایسا ہوا؟ ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ہم اب بھی مجبور کے مجبور ہیں ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ وہ جب چاہتے ہیں ہمیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں ۔۔۔ ۔ ایسے میں ان کا مقابلہ تو کرنا ہی ہو گا ۔۔۔  ۔۔۔  ہمیں اپنا حق چاہئیے۔ ‘‘ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر زبان سے بے حد مضبوطی کے ساتھ الفاظ ادا ہوئے تھے۔

’’اف ! ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  تم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے خواہ تم سب قتل کر دیے جاؤ۔ ‘‘ گولڈی کے جملے نے چھوٹے کو آگ بگولا کر دیا۔

’’ہاں ہاں !!! ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  ہم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ‘‘

گولڈی چھوٹے کی دہکتی آنکھیں دیکھ کر خوفزدہ تو ہوئی مگر ہمت کر کے اس نے آخری حربہ استعمال کر ہی لیا۔  ’’کیا تمہاری نظر میں اس عظیم المرتبت شہید کی مثال کی بھی کوئی اہمیت نہیں، جو انسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے خود اپنے حق سے دست بردار ہو گئے تھے۔ ‘‘

گولڈی کی بات پر چھوٹا جھنجھلا گیا۔  ’’نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ تم مجھے کمزور بنانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ‘‘ چھوٹے کے لا شعوری جملے سے گولڈی بری طرح بوکھلا گئی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔

’’میں ۔۔۔ ۔ نہیں تو ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ بھلا میں کیوں؟ ‘‘

چھوٹے نے مسلم کے سامنے پہنچ کر اپنے ارادے ظاہر کیے تو مسلم نے اسے گلے لگا لیا۔  دونوں محاذ آرائی کے لیے حکمت عملی تیار کرنے میں منہمک ہو گئے۔  ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اچانک ان کے گھروں پر آگ کی بارش شروع ہو گئی۔  اس اچانک حملے سے مسلم اور اہل خانہ حیران و پریشان ہو گئے۔  مشورہ کے بعد طے کیا گیا کہ فی الحال مقابلہ کرتے ہوئے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوا جائے اور جب طاقت بڑھ جائے تب واپس لوٹ کر مقابلہ کیا جائے۔  برستی آگ اور گھپ اندھیرے میں مسلم کا قافلہ اونچے اونچے عجوبہ روزگار مقبروں والی بستی کی طرف نکل پڑا۔ دشمن برابر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔  تاریک راہوں کو پار کرتے ہوئے ایک زور دار چیخ سن کر قافلہ ٹھٹھک گیا۔

’’چھوٹے ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔ ‘‘ مسلم کی کانپتی آواز نے جیسے قافلہ پر بم پھوڑ دیا تھا۔  مسلم نے چھوٹے کے جسم سے بہتے خون کو دیکھا اور اسے اپنے گھوڑے پر کھینچ لیا۔

’’چلو تیزی سے چلو ۔۔۔ ۔ دشمن قریب ہے ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔ وقت برباد نہ کرو ۔۔۔ ۔۔ آگے بڑھو۔ ‘‘

مسلم نے قافلے کو آگے بڑھنے کی ہدایت کی۔ مسلم کی آواز گونجی تو سبھی نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے۔  دوڑتے دوڑتے اب وہ اس قدر دور نکل آئے تھے کہ دشمن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اب انھیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔  دشمن نے یا تو ان کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا تھا یا پھر وہ بھٹک گئے تھے۔  ممکن ہے کہ زمین پر دوبارہ قابض ہونے کے جشن میں ڈوب گئے ہوں۔

مسلم نے آخری سانس لیتے چھوٹے کے بدبدانے کی آواز سنی۔  ’’گو ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔ لڈ ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ی ۔۔۔  ۔۔۔  ‘‘

تب مسلم نے قافلے کی طرف نگاہ دوڑائی۔  اسے گولڈی کہیں دکھائی نہیں دی۔  تو کیا وہ رات کی تاریکی میں ان سے الگ ہو گئی تھی۔  کہیں وہ کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گئی ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ یا پھر ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔  یا پھر ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔  وہ بھی جشن میں شریک ہونے تو نہیں چلی گئی؟ مسلم کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ بیٹے کو کیا جواب دے۔  اسے یاد آ رہا تھا کہ اس نے چھوٹے کو کتنا سمجھایا تھا کہ وہ دشمن کی چال میں نہ پھنسے ۔۔۔ ۔۔ مگر ۔۔۔  ۔۔۔ ۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔

قافلہ اب ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا۔  مسلم کے حکم پر یہیں خیمے نصب کر دیے گئے۔  چھوٹے کی ہلاکت نے قافلے کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا تھا۔  ان کی زمین ان سے چھینی جا چکی تھی۔  انھیں بے گھر کیا جا چکا تھا۔  یہاں تک کہ ان کے عزیزوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔  مسلم نے اہل خانہ کو رات کی تاریکی میں قندیلیں روشن کرتے دیکھا۔  مسلم کو لگا کہ انھیں ابھی شکست نہیں ہوئی ہے۔  قندیل کی روشنی میں اہل خانہ کے چہرے دمک رہے تھے۔  اسے بڑی تقویت حاصل ہوئی۔

مسلم نے ان کے درمیان پہنچ کر مشورہ طلب کیا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے۔  دشمن نے ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کیا اور اس کا حشر سامنے تھا۔  سیم کی غنڈہ گردی اور دشمن کی قبضے سے زمین کی آزادی کے لیے، کیا حکمت عملی تیار کی جائے۔ وہ مسلسل غور و فکر کر رہے تھے لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔  تبھی سہمے ہوئے نونہالوں کے گروہ سے مسلم کے پوتے نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا۔

’’وہ زمین ہمارا پشتینی حق ہے ہم نے اس کے لیے بڑی قربانیاں دیں ہیں اور ہم اب بھی اس کے لیے ہر قربانی پیش کرنے کو تیار ہیں۔ ‘‘

’’تیار ہیں ۔۔۔  ۔۔۔  تیار ہیں ۔۔۔  ۔۔۔  ہم تیار ہیں۔ ‘‘ تمام نو نہال ایک سر میں نعرے لگا رہے تھے دیکھتے دیکھتے سارا قافلہ ایک آواز میں بول اٹھا۔  مسلم نے حکم دیا۔

’’ٹھیک ہے تو ہم واپس اپنی مٹی پر لوٹیں گے جہاں ہم پیدا ہوئے اور ہم ہی کیا ہمارے باپ دادا بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔ قافلہ واپس لوٹ رہا تھا اور مسلم سوچ رہا تھا۔  ’’تو دنیا گول ہے اور شاید ابھی تک ہم اس کے پیرا میٹر پر ہی رقص کر رہے ہیں لیکن ایک دن آئے گا جب کشش ثقل کی قوت ہمیں مرکز میں لے کر آئے گی۔  اور وہ دن ضرور آئے گا۔ ‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے