(شہر یار کی ۷۰ ویں سالگرہ کے موقع پر یہ مضمون ۳/ جولائی ۲۰۰۶ء کو ایوانِ اردو، ادارۂ ادبیات اردو میں پڑھا گیا)
شہر یار کی شاعری کا آغاز ۱۹۵۸ء میں ہوا اور قاضی سلیم کے خیال میں ’’ٹائمنگ فٹ‘‘ ہوئی۔ خود شہر یار کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں خوش قسمت ہیں کہ اُن کی شاعری کے ابتدائی زمانے ہی میں اُن کا کلام بڑے اہم رسالوں ’’سویرا‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘، ’’صبا‘‘، ’’ادب لطیف‘‘ وغیرہ میں شائع ہونے لگا۔ ’’صبا‘‘ میں اُن کا گوشہ بھی شائع ہوا جب کہ یہ ان کی شاعری کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میں اس بات سے متفق نہیں کہ شہر یار کو جو اتنی جلد اتنی شہرت حاصل ہوئی اس کا سبب ان کی خوش قسمتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ان کا تخلیقی وصف ہے کہ اُس دور میں اُن اہم رسائل میں اُن کا کلام شائع ہو سکا کیوں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب اہم ادبی رسائل میں بار پانا اتنا آسان نہیں تھا۔ جب تخلیق کار سے زیادہ تخلیق کی قدر ہوتی تھی۔ شہر یار سے خاصے سینئر اور معروف شاعر اُن رسائل میں چھپنا اپنے لیے باعث امتیاز سمجھتے تھے۔ شہر یار کی شاعری نے اگر اہل نظر نقاد اور رسائل کے مدیران کو چونکا دیا تو اس کا سبب ان کا تخلیقی جوہر تھا اور یہی وجہ ہے کہ خلیل الرحمٰن اعظمی سے لے کر آج تک ہر اہم نقاد نے ان کی شاعری کو موضوع بنایا اور اس کی مناسب قدر کی۔
جہاں تک شہر یار کی خوش قسمتی کا سوال ہے اگر اس میں شائبہ خوبی تقدیر ہے بھی تو بس اس قدر کہ شہر یار نے شاعری کے کوچے میں صحیح وقت پر قدم رکھا اور اگر بقول قاضی سلیم ’’ٹائمنگ فٹ‘‘ ہوئی تو ان معنوں میں شہر یار ہی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ آنے والے اُن کے ہم عمر سبھی شاعر خوش نصیب ہیں کہ یہ ’’وقت‘‘ تھا ’’شگفتن گل ہائے ناز کا‘‘۔ وہ یوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک اپنا رول ادا کر چکی تھی مقبول شعری روایات سے انحراف جو ترقی پسندوں کی دین ہے اور اُس سے بھی زیادہ اہم رویئے کی تبدیلی جو میرا جی اور راشد کی دین ہے وجود میں آ چکی تھی۔ سچّے شخصی تجربات اور محسوسات نئے اسالیب اور نئے اظہارات کے جِلو میں اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ اقبال اور جوش کی تقلید، سستی رجائیت، اوپر سے لادی ہوئی بلند آہنگی، اکہری رومانیت اور غزل بیزارگی، یہ سارے عناصر اپنا اثر تیزی سے کھو رہے تھے۔ شہر یار کی آمد سے قبل ہی ایک نئی نسل اپنے پیش رَو شعراء کے اثر سے آزاد رہ کر اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آ رہی تھی۔ ان میں ناصر کاظمی، عزیز حامد مدنی، ابن انشاء، خلیل الرحمٰن اعظمی، شاذ تمکنت‘‘ قاضی سلیم، احمد مشتاق، شفیق فاطمہ شعریٰ، بلراج کومل، سلیمان اریب، باقر مہدی، عمیق حنفی، خورشید احمد جامی، منظر سلیم، مغنی تبسم، وحید اختر، زبیر رضوی، عزیز قیسی اور انور معظم کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اور بھی کئی نام ہیں۔ یوں ایک نئے شاعر کے لئے اپنی شاعری کے پودے کی آبیاری کے لیے موسم خوشگوار اور زمین زرخیز تھی۔ لیکن بدلتے ہوئے موسم اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ سر سبز و شاداب رہنا اُن ہی پودوں کے نصیب میں ہوتا ہے جن کی جڑیں زمین میں گہری اور دور تک پھیلی ہوئی ہوں۔ اگر شہر یار آج بھی اُسی تخلیقی وفور اور انہماک سے شعر کہہ رہے ہیں تو اس کا سبب یہی ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس پودے کو مرجھانے نہیں دیا بلکہ ایسے شجر میں بدل دیا جو سایہ بھی دے اور ثمر آور بھی ہو۔
شہر یار ہمارے دور کے نمائندہ شاعر ہیں۔ وہ اگر اہم شاعر ہیں تو اس لیئے کہ انہوں نے بہت جلد اپنی راہ نکال لی اور اپنی تخلیقی انفرادیت کو پا لیا۔ جدید احساس اور میلان رکھنے والے شاعروں کے قافلے میں شامل رہتے ہوئے بھی وہ سب سے الگ رہے۔ انہوں نے اپنا علاحدہ تشخص قائم کیا اور اپنے دور کے غالب اسالیب جو بعد میں کلیشے بلکہ شور شرابا بن گئے ان سے خود کو بیگانہ رکھا اور ایک جداگانہ سطح پر خود سے ہمکلام ہوتے رہے۔
خود کلامی کا یہ انداز شہر یار کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ شہر یار کی شاعری جذبے اور احساس کی ایسی شدست سے عبارت ہے کہ اگر وہ اس آگ کو اپنے لہو میں ٹھنڈا کرنے اور اس شعلے کو مدھم کرنے کا ہنر نہ جانتے تو اُن کی شاعری اپنی موجودہ ارفع سطح حاصل نہ کر پاتی۔ وہ اپنے اندر کی آگ کو بھڑکنے نہیں دیتے بلکہ اپنے غیر معمولی ضبط، خود نگری اور گہری سوچ کے فانوس میں اس شعلے کو اس طرح قید کر لیتے ہیں کہ درد کا خیمہ روشن ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی ذات اور کائنات کے درمیان رشتہ ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں ؎
شب کی ساری صراحیاں خالی
ہو چکیں جب تو صبح کا سورج
میرے ہونٹوں کے پاس آیا، کہا
رات کو قطرہ قطرہ پینے سے
پیاس بجھتی نہیں ہے بڑھتی ہے
ثبت کر ہونٹ میرے ہونٹوں پر
اور اس پیاس سے رہائی پا
(نظم۔ ’’پیاس سے رہائی‘‘)
رویئے کی تبدیلی کی ابھی کچھ دیر پہلے بات ہوئی تھی۔ اس کی ایک مثال دیکھئے: فیض کی نظم کے کیا خوبصورت مصرعے ہیں ؎
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(نظم۔ ’’صبح آزادی‘‘۔ اگست ۱۹۴۷ء)
اب شہر یار کے یہ مصرعے دیکھیے ؎
ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے
ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے
ابھی نہیں ابھی در باز ہے اُمیدوں کا
ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے
(نظم۔ ’’موت‘‘)
وہی شکست خواب کی بات ہے، لیکن یہاں ایک شخصی تجربہ ہے یہ وہ خواب نہیں جسے وقت کی ابروؤں تلے ہزاروں آنکھوں نے بہ یک وقت دیکھا ہو، اُمید کی ایک موہوم کرن یہاں بھی ہے لیکن یہاں ضبط کی اندرونی کیفیت اور تنہائی اور بے بسی کا احساس ایک شخصی آشوب کا آفریدہ ہے۔
شہریار کی شاعری میں نا محسوس احساسات اور بے جسم سائے کبھی اپنی تجسیم کر لیتے ہیں تو کبھی اپنی ایک چھب دکھا کر فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ جو بات وہ نہیں کہتے، اکثر یہ ’ اَن کہی ‘ کہے ہوئے لفظ سے زیادہ پُر اثر ہوتی ہے۔ ان کی غزل اور نظم میں کسی قسم کی تفریق مشکل ہے اگر ہے تو بس اس قدر کہ غزل میں انہوں نے کلاسیکی روایات کو زیادہ ملحوظ رکھا ہے اور اس کی شعریات میں کسی شکست و ریخت، تعمیر یا انہدام کو قبول نہیں کیا۔ غزل اور نظم دونوں ہی میں ایک طرح کی خود نگری، خود احتسابی اُنہیں جذبے کے بے مُحابا اظہار اور طوالت بیان سے روکتی رہی۔ کفایت لفظی، اختصار اور نظم کی ہئیتی ترکیب کا فن غالباً اُنہوں نے اپنے پیش رو حلقے کے شاعروں سے سیکھا۔ ان کی ایک نظم ہے۔ نظم کا عنوان بھی یہی ہے یعنی ’’نظم‘‘۔ اس نظم میں جسم کا تذکرہ ہے اور اس طرح کہ صرف ایک درمیانی مصرعہ یہ راز کھولتا ہے اور پھر بات محض جسم تک نہیں رہ جاتی، روح تک میں ارتعاش پیدا کر دیتی ہے نظم دیکھیے ؎
بارش تھمنے والی ہے
بادل اپنے پروں کو سمیٹ رہے ہیں
ہوش میں آؤ
سانسوں میں ہمواری پیدا کرو
وہ مختصر لمحہ جا چکا ہے
اور طویل و بے حس دن
اُس کی جگہ لینے والا ہے ( ’’نظم‘‘)
اس نظم کے ابتدائی مصرعے نظم کی فضا تعمیر کرتے ہیں۔ چوتھا مصرعہ ’’سانسوں میں ہمواری پیدا کرو‘‘ موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اچانک فضا روشن ہو جاتی ہے شہر یار کی کئی نظموں میں ہمیں اظہار کو یہی طریقِ کار ملتا ہے اور ہم احساس و فکر کی ایسی ہی ملی جلی کیفیات سے دو چار ہوتے ہیں۔
شہر یار دھیمے لہجے میں بہت مختصر بات کہتے ہیں جو طویل، پُر شور آوازوں کے درمیان بھی بہ آسانی سُنی جا سکتی ہے۔ ان کی شاعری خواب اور حقیقت کے تصادم، رات کی تاریکی میں ٹوٹتے ہوئے تارے کی خاموش صدا، بے خودی اور استعجاب کی ملی جلی کیفیات اور حزن میں ڈوبی ہوئی سوچ کے عناصر سے تشکیل پائی ہے۔ وہ پہاڑ کاٹ کر کوئی چٹان نہیں لڑھکاتے، سمندر کی پر شور لہروں کی طرح ہمارے قدسم ساحل سے نہیں اکھاڑتے بلکہ ہمیں کسی جھیل کے کنارے بٹھا کر خاموش پانی میں اس طرح کنکری پھینکتے ہیں کہ ہمارا عکس ہی نہیں ہمارا سارا وجود منتشر ہو جاتا ہے۔
آخر میں، مَیں شہر یار کی نظموں غزلوں سے چند اشعار نقل کرنا چاہوں گا۔
یہ بستر تنہائی۔،
جی میں ہے لپیٹوں میں
اے رات وجود اپنا
کہہ دے تو سمیٹوں میں
اس آدھے بدن والی
پرچھائیں کو دکھلا دے
میں آگ میں جلتا ہوں
تو اوس میں نہلا دے (نظم۔ ’’امارات‘‘)
_________
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
_________
نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں
دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آ گیا
_________
یا ترے علاوہ بھی کسی شئے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسہ نہیں ہم کو
_________
ڈھل کے نغموں میں اڑی رات تری یاد مگر
دے کے دستک در ناہید پہ لوٹ آئی ہے
_________
شبِ غم کیا کریں کیسے گزاریں
کسے آواز دیں، کس کو پکاریں
_________
سرِ نام تمنا کچھ نہیں ہے
کسے آنکھوں سے اب دل میں اُتاریں
___________
مری نگاہ کے حصار میں یوں ہی کھڑی رہو
میں تم سے اور دور ہو رہا ہوں، مجھ سے مت ڈرو
اِن انگلیوں پہ اوس کے نشان تھے، جو مٹ گئے
لبوں پہ ایک اجنبی کا نام تھا، جو بجھ گیا
ہرن کی آنکھ خوف کی چمک سے بھی تہی سوئی
درندے جنگلوں کو چھوڑ کر کہیں چلے گئے
کھڑی رہو
اسی جگہ، اسی طرح کھڑی رہو
(نظم۔ ’’واماندگیِ شوق‘‘)
شہر یار کی شاعری یقیناً ہمارے عہد کی ایک منفرد اور معتبر آواز ہے۔
___________
( ’’شعر و حکمت‘‘، حیدرآباد)
٭٭٭
Swaneh