شاعری ہمیشہ ایک پُراسرار عمل رہا ہے۔ شاعری کی دیوی کسی نٹ کھٹ البیلی نار کی طرح صرف اسی خوش نصیب پر مہربان ہوتی ہے جو پوری استقامت اور سچائی کے ساتھ اس میں مبتلا ہو اور اُس کے مطالبات پورے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ اب جو ایک مدت سے عرفان ستار عمدہ شعر لکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ شاعری کی دیوی ان پر مہربان ہے اور اعلی اشعار کی صورت میں ان پر اپنی محبت نچھاور کر رہی ہے۔ آئیں عرفان کے کچھ اشعار دیکھیں
تیری یاد کی خوشبو نے بانہیں پھیلا کر رقص کیا
کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا
اپنی ویرانی کا سارا رنج بھلا کر صحرا نے
میری دل جوئی کی خاطر خاک اُڑا کر رقص کیا
پہلے میں نے خوابوں میں پھیلائی درد کی تاریکی
پھر اُس میں اک جھلمل روشن یاد سجا کر رقص کیا
دیواروں کے سائے آ کر میری جلو میں ناچ اُٹھے
میں نے اُس پُر ہول گلی میں جب بھی جا کر رقص کیا
اُس کی آنکھوں میں بھی کل شب ایک تلاش مجسم تھی
میں نے بھی کیسے بازو لہرا لہرا کر رقص کیا
اُس کا عالم دیکھنے والا تھا جس دم اک ہُو گونج
یپہلے پہل تو اُس نے کچھ شرما شرما کر رقص کیا
رات گئے جب ستاٹا سرگرم ہُوا تنہائی می
شکریں دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا
دن بھر ضبط کا دامن تھامے رکھا خوش اسلوبی سے
رات کو تنہا ہوتے ہی کیا وجد میں آ کر رقص کیا
مجھ کو دیکھ کے ناچ اُٹھی اک موج بھنور کے حلقے میں
نرم ہوا نے ساحل پر اک نقش بنا کر رقص کیا
بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں
خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا
کل عرفان کا ذکر ہُوا جب محفل میں، تو دیکھو گے
یاروں نے ان مصرعوں کو دہرا دہرا کر رقص کی
غزل کار ہونا تو شاید مشاقی کا مشغلہ ہو لیکن شعر لکھنا بلاشبہ ایک امتیاز اور اعزاز کا معاملہ ہے اور ہمارے عہد میں بہت کم افراد اس اعزاز کے مستحق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان چند افراد میں عرفان ستار ایک نمایاں ترین نام ہے۔ عرفان نے اپنی ادبی شخصیت کی بنت کے لیے کیا راستہ اختیار کیا اس کی تفصیل ذرا آگے چل کر آئے گی لیکن میں نے جو غزل اور شاعری کے حوالے سے بات کی اس بیان سے یہ اشتباہ پیدا ہونے کو احتمال ہے کہ میں غزل اور شاعری کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک کم فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ میں تو محض یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری چیز دیگر است۔ وزن، بحر، ردیف اور قافیہ کے التزام کے ساتھ دو مصرعے موزوں کر لینا شاعری کہلانے کا حق نہیں رکھتے جب تک ان میں کچھ ایسا نہ ہو جو اپنے قاری کو مبہوت کر دے۔ ہاں اس قافیہ پیمائی کو مشاقی کہا جا سکتا ہے۔ معروف شاعر ظفر اقبال نے ابھی حال ہی میں لکھا ہے کہ ہمارے گرد جو غزلیں لکھی جا رہی ہیں ان سے غزلوں کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن شاعری مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ میں ان کے اس بیان سے کلی طور پر متفق نہیں ہوں۔ ہاں یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں کہ ہمارے اکثر جونئیر اور سنئیر شعرا محض غزلیں لکھ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ شاعری سرے سے ناپید ہے، ہمارے بہت سے نوجوان اور پرانے شاعر اب بھی بہت اچھے شعر لکھ رہے ہیں جس کی ایک مثال خود ہمارے عرفان ستار ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اوسطا اچھی شاعری تخلیق کرنے والوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے۔ ظفر اقبال صاحب کا مطالبہ تو یہ بھی ہے کہ محض اچھا شعر کافی نہیں بلکہ اسے بہت اچھا ہوتا چاہئیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مطالبہ نوجوان شعرا کے ساتھ تھوڑی سی زیادتی ہو گی کہ ابھی تو ہمارے بہت سے غزل کاروں کو اچھا شعر لکھنے کا سلیقہ سیکھنا ہے۔ اور جب وہ شعر لکھنے کی استعداد حاصل کر لیں گے تو اچھے شعر بھی کہیں گے۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے ؟ اس کے لیے ہمیں اردو ادب کے کلاسکی شاعری کے اساتذہ کے کلام سے رجوع کرنا ہو گا مثلاً:
میر تقی میر کہتے ہیں :
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے ت
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
مرزا غالب فرماتے ہیں
:کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
یا یگانہ چنگیزی کہتے ہیں :ٰ
یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہئیے کیا بات دھیان میں آئی
اردو کے کلاسیکی ادب میں سے ایسے کتنے ہی زندہ اشعار کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ جس زبان کے ادب کا سرمایہ اتنا شان دار ہو اس کی شاعری اچھا اشعار لکھنے والوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرا موضوع تو عرفان ستار کی شاعری ہے پھر میں یہ کیا بحث کھول بیٹھا؟ اچھا تو پہلے عرفان ستار کہ کچھ اور اشعار دیکھ لیں پھر آگے بات ہو گی۔
رگوں میں رقص کناں موجۂ طرب کیا ہے ؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے ؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے ؟
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے ؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے ؟
بزعمِ عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا
یہ شہرِ کم نظراں، یہ دیارِ بے ہنراں
کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا
حریمِ دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال
سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا
اور میں یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ میری اس مختصر سی گفتگو سے کتنی ہی تیوریاں چڑھ چکی ہوں گی اور آنکھوں کی رنگت تبدیل ہو چکی ہو گی کیوں کہ ہمارے اس بد نصیب دور میں ہمارے تخلیق کاروں میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ وہ کسی کی بات سننے یا سمجھنے کا یارا نہیں رکھتے گویا اب اس خطہ زمیں پر پیدا ہونے والا ہر بچہ عقل کل ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ تلخ حقیقت سے آنکھیں موند لینے سے مسئلے کی پیچیدگی میں اضافہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے اجازت دیں کہ اب شاعری کے موجودہ منظر نامے کا مختصر سا جائزہ لے کر میں عرفان ستار کی طرف رجوع کروں جو رجوع کروں جو اس پریشان کن صورت حال میں ایک تواتر اور تسلسل سے اچھے شعر تخلیق کیے جاتے ہیں اور اب اس معاملے کو کئی دہائیاں گزر گئیں۔ جب وہ کراچی میں تھے اس وقت بھی انہیں ایک معتبر اور منفرد لب و لہجے کے شاعر کی حیثیت سے جاتا جاتا تھا اور آج بھی جب وہ ٹورنٹو میں ہیں ان کی حیثیت برقرار ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں اس دوران ان کے فن نے مزید ترقی کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک نوجوان شاعر شعر لکھنے کا ڈھنگ کیسے سیکھے ؟ہمارے معاشرے سے استاد، شاگرد کا ادارہ ناپید ہو چکا۔ مشاعرے، تربیت گاہ ہونے کے اعزاز سے محروم ہو گئے اور اب وہ محفلیں بھی نہیں رہیں جو نئے لوگوں کی تربیت کے لیے ادارے کی حیثیت رکھتی تھی اور اب نوجوانوں میں سے کچھ سیکھنے کی وہ فریفتگی جاتی رہی ورنہ اگر عزم اور ارادہ دیوانگی کی شکل اختیار کر لے تو راستہ تو نکل ہی آتا ہے۔ اچھا اسے جانے دیں یہ دیکھیں کہ بھائی عرفان ستار نے شعر خوانی کا ہنر سیکھنے کے لیے کیا جوکھم اٹھائے۔ ظاہر ہے یہ کہنا تو ضروری نہیں کہ ان میں شاعری کا فطری جوہر موجود تھا جس کہ بغیر کسی کا شاعر بننا ممکن ہی نہیں اور پھر وہ موزوں طبع بھی تھے۔ عرفان ستار کو ایک وقیع اور اہم شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اہل زبان نہ ہونے کے باوجود عرفان ستاراردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں لفظ کو اس کی ممکنہ معنویت کے ساتھ برتنے پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ یہ وہ ہنر مندی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ آج جو ہم عرفان ستار کی شاعری میں موضوعات کا تنوع، علامات کا معنی خیز استعمال، تشبیہات اوراستعاروں کا حسین برتاؤ دیکھتے ہیں وہ اردو کے معاصر اور کلاسیکی ادب اور کسی حد تک فارسی زبان کی کلاسکس کے دیوانہ وار مطالعے کی دین ہے۔ اس مطالعے کے دوران عرفان نے الفاظ پر سے نظریں ہی نہیں گزاریں انہیں ان کی پورے معنوی حسن کے ساتھ لہو میں گھول لیا۔ عرفان ستار نے اچھا بلکہ بہت اچھا شاعر بننے کی لپک میں اردو ہی نہیں انگریزی زبان کے ادب کو بھی کھنگالا اور حذر جاں بنایا۔ اور خیال رہے کہ اس وظیفہ کے دوران انہوں نے مطالعے میں نظم اور نثر کی تخصیص نہیں رکھی۔ شاید میرے نوجوان دوستوں کو یہ بات کچھ عجب سی لگے کہ یہ بے صبرے تو شاعر کے لیے بس شاعری کو ہی کافی جانتے ہیں۔ اس غلط فہمی کا سبب نثر سے عدم رغبت اورکسی حد تک نثر کی مشقت طلبی ہے۔ میرے ان دوستوں کو جاننا چاہئیے کہ اچھا شاعر بننے کہ لیے شاعری کے ساتھ نثر کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ آپ ایک خاص عمر تک جذبے کے زور پر شعر کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے بعد شعر لکھنے کے لیے آپ کو خام مواد اور تحریک کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ آدمی اپنی جوانی کے تجربات کی معنویت کو تہہ داری گیرائی اسی وقت دے سکتا ہے جب وہ ڈھیروں کتابوں سے گزر چکا ہو اور نثر خصوصیت سے اس لیے کہ نثر کی ہر سطر میں معنویت کا ایک جہان نو رکھتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص اچھی نثر کے مطالعے کے بغیر اپنے ذوق کو کیسے نکھار سکتا ہے۔ عرفان ستار جدید حسیت کے ساتھ دل میں اتر جانے والے اشعار کہنے والے ایک توانا شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقی زرخیزی اور زباں و بیان پر گرفت نے انہیں منفرد لب و لہجے کے اہم شاعر کے درجے پر فائز کر وا دیا ہے۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی گفتگو کی تصدیق کے لیے عرفان ستار کے کچھ اشعار نقل کر رہا ہوں
سر صحرائے یقیں شہر گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شئے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
جس سے اٹھتے ہیں قدم راہ جنوں خیز میں
تیزہم بھی شانے پہ وہی بار گراں چاہتے ہیں
رخ نہ کر جانب دنیا، کہ اسیران نظر تجھ کو
ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں
ایسے گرویدہ کہاں ہیں لب و رخسار کے ہم
ہم تو بس قربت شیریں سخناں چاہتے ہیں
چاہتے ہیں، کہ وہ تا عمر رہے پیش نظر
ایک تصویر سر آب رواں چاہتے ہیں
جس میں سیراب ہیں آنکھیں، جہاں آباد ہیں دل
ہم اسی شہر تخیل میں مکاں چاہتے ہیں
راز ہستی سے جو پردہ نہیں اٹھتا، نہ اٹھے
آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں
شام ہوتے ہی لگاتے ہیں در دل پہ صدا
آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں
دور عرفان رہو ان سے کہ جو اہل ہنر
التفات نگہ کم نظراں چاہتے ہیں
اب ان کی شاعری کی گونج کراچی سے ٹورنٹو تک سنائی دیتی ہے۔ عرفان نے یہ کمال فن حاصل کرنے کے لیے جہاں کتاب کو آنکھ کا سرمہ بنائے رکھا وہیں وہ علم کے نہایت قدیم لیکن بے حد معتبر ذریعے مکالمے سے بھی خوب خوب فیض یاب ہوئے۔ جب وہ یہاں کراچی میں تھے تو وہ ایک تسلسل سے اس وقت کے صاحبان علم و دانش سے رابطے میں رہے۔ ان علماء ادب کی صحبتوں نے عرفان کی ادبی شخصیت کو گنج گراں مایہ سے نواز کر کندن بنا دیا۔ منفرد ترین لب و لہجہ کے معروف شاعر اور زبان پر مکمل دست رس رکھنے والے جناب جون ایلیاسے عرفان مدتوں پیوست رہے۔ جون سے جہاں انہوں نے زبان و بیاں کے رموز سیکھے وہیں ان کی قربت کے باعث عرفان کی شاعری بوجھل ہونے سے محفوظ رہی۔ سب واقف ہیں کہ جون سہل ممتنع میں لکھنے کے عادی تھے۔ ایک جونئیر کی حیثیت سے عرفان نے یقیناً جون کے کلام کی اس خوبی سے استفادہ کیا ہو گا پھر جون عروض کے بھی بہت بڑے شناور مانے جاتے تھے۔ عرفان ستار نے ان کی اس تکنیکی مہارت سے بھی خوب فیض اٹھایا ہو گا۔ جون سے اپنے حصے کا علم حاصل کر کے عرفان آگے بڑھ گئے۔ اگر انسان کی پیاس سچی ہو تواسے کوئی چشمہ ملتے دیر نہیں لگتی۔ یہ عرفان کی خوش نصیبی کہ اس زمانے کے ایک اور عالم بے مثل جناب احمد جاوید کی محافل دامن کشادہ کیے ان کا خیرمقدم کرنے کی منتظر تھیں۔ جناب احمد جاوید ایک ہمہ صفت شخصیت کے مالک ہیں دینی اسکالر اور علم سے لبالب چھلکتے ہوئے۔ بلا کے مکالمے ساز اور غضب کے شاعر۔ عرفان ستار کو ان کی صحبت خوب راس آئی۔ میرے خیال میں احمد جاوید صاحب کی محفلوں میں عرفان نے شاعری کی کہنہ روایت کے علاوہ کلاسیکی اردو شاعری کے اساتذہ کے کلام کے ذریعہ بڑی شاعری کے محاسن سے آگاہی حاصل کی ہو گی اور اس سے نہ صرف عرفان کے ذوق میں نکھار آیا بلکہ وہ ایک تربیت یافتہ ذوق کے مالک بن گئے۔ اور اسی دور سے ان کی شاعری کا الگ لہجہ استوار ہونا شروع ہوا۔ جن احباب نے عرفان کی کتاب تکرار ساعت دیکھ رکھی ہے وہ گواہی دیں گے کہ وہ ایک صاحب طرز شاعر کی کتاب ہے۔ اس ساری گفتگو سے میری منشا یہ بتانا ہے کہ ایک عمدہ شاعر اپنی ادبی شخصیت کی پرداخت اور تعمیر کے دوران کن مراحل سے گزرتا ہے۔ عرفان کی شاعری میں ان کا امتیاز ان کی طویل بحر میں کہی گئی نظمیں ہیں اور کون نہیں جانتا کہ طویل بحر ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں چھوٹی بحر کے جادو سے انکاری نہیں اس کی دل کشی اپنی جگہ ہے آخر میر تقی میر بھی تو چھوٹی بحر میں ہی اپنا جادو جگاتے رہے یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن میرا خیال ہے کہ طویل بحر زیادہ کٹھن مطالبات رکھتی ہے۔ اس بحر میں خامہ فرسائی کہ لیے ضروری ہے کہ آپ زبان و بیان پر پوری قدرت رکھتے ہوں اور اس اہلیت کے مالک ہوں کہ اپنے تجربے کو تفصیلات کے ساتھ سلیقے سے شعر کے قالب میں ڈھال سکیں۔ اس بحر میں لکھتے ہوئے ہمیشہ یہ خدشہ دامن گیر رہتا ہے کہ ایک حرف کی الٹ پھیرسے سارا کیا دھرا خاک ہوسکتا ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ ان تمام قباحتوں کے باوجود عرفان ستا ر ایک زمانے سے طویل بحر میں اعلی درجے کی غزلیں لکھ رہے ہیں تو کیا وہ ہماری اور آپ کی تحسین کے مستحق نہیں ہیں ؟عرفان ستار ایک بانکے شاعر ہیں اور جس ہنر مندی سے وہ شعر لکھ رہے ہیں اس پر بجا طور پر وہ ہماری تحسین اور اپنے اعتراف فن کے مستحق ہیں۔ عرفان ستار دلدادگان شاعری کی توصیف قبول فرمائیں۔ ٰٰٰ ٰٰ
٭٭٭
ممتاز رفیق کا مضمون ۔۔۔۔۔۔متاثر نہین کر سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔