ہماری سوچوں میں رہتا ہے لفظ تشنہ لبی
ہماری ذات کا حصّہ ہے لفظ تشنہ لبی
جو پھیل جائے تو تفسیرِ کربلا ہے یہی
سمٹ کے ظلم کا نوحہ ہے لفظ تشنہ لبی
ستم کا تیر تبسّم پہ جس نے روک لیا
اسی کی یاد دلاتا ہے لفظ تشنہ لبی
شبیہ مرسلِ اعظم کے چوڑے سینے پر
یہ کس نے برچھی سے لکّھا ہے لفظ تشنہ لبی
یہ سچ ہے خشکی و صحرا بھی فہم ہے اس کا
ہمیں تو خون کا دریا ہے لفظ تشنہ لبی
عطش عطش کی صدائیں ڈھلے ڈھلے اجسام
بتائیں کیسے کہ کیا کیا ہے لفظ تشنہ لبی
اسی سبب سے تو اتنا اداس ہے شارب
کہ دل میں ٹیس اٹھاتا ہے لفظ تشنہ لبی
٭٭٭