مَیں تنگنائے حیات کی بے بضا عتی کا شِکار بیزار جی رہا ہوں
ہُمَک نہ دل میں وفور باقی
نہ ذہن میں نُور ، زندگی میں سرُور باقی
بَس ایک لذّت سو وہ بھی اَب ذائقے سے خالی
نظام تَن کا مشین جیسے پُرانی ، تصویر ِ خستہ حالی
وہ دَر جو مجھ پر کبھی کھُلے تھے
مَیں جن سے آفاق اور انفاس کے رموز ِ بطون و ظاہر میں جھانکتا تھا
وہ زمزمہ ہائے فکر جِن سے مِرے تصوّر کے پَر ڈھلے تھے
مَیں جِن سے سارے جہاں کی سیرابی چاہتا تھا
وہ عہد جو مَیں نے خود سے اور اپنے بے بہا ساتھ سے کئے تھے
مَیں جِن کو اپنے لہو کی ، اپنی نمو کی معراج جانتا تھا
تمام نیلام ہو چُکے ہیں
تمام سوزن بلب ، تہی جاں ،
مِرے جنوں کے اُجاڑ بَن میں پڑے مِرا منہ چِڑا رہے ہیں
مِری اساس ِ وجود کی خاک اُڑا رہے ہیں
مَیں اِن کے غم ،
اِن کو کھونے کے خود فگار احساس میں گرفتار جی رہا ہوں
حیات پیالہ ہے زہر کا
دِل اِسے شب و روز بھر رہا ، مَیں اِسے شب و روز پی رہا ہوں
٭٭٭
سوری کہ نظم کی پہلی سطر میں ہی ایک لفظ غلط لکھ دیا تھا ، ”بیکار” ، دراصل وہاں ”بیزار” ہے، سو وہ پلیز ٹھیک کر کے پڑھیئے گا۔ شکریہ
درست کر دیا ہے کم از کم ویب میں
Thanx janaab. Just now opened it and will read the issue. The contents are v good..
Salaam
Best regards.