رمزی آثم کی شاعری ۔۔۔ عرفان ستّار

رمزی آثم ایک اچھا شاعر ہے اور یہ بات اس کے ہم عصر اور سینئیرز سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر رمزی ابھی اپنے تخلیقی سفر کے جس دور سے گزر رہا ہے اُس میں مآلِ سفر کا تعین کرنے سے زیادہ منزل تک رسائی کے لیے درست راستے کا طے کیا جانا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی پُر امکان شاعر کو نئے نئے فارمولے سکھانے کی فضول کوشش کی بجائے اس کی تخلیقی اپج اور وجدان کے تحت تشکیل پاتے ہوئے رجحانات کا جائزہ لے کر امکانات کی نشاندہی کرنا زیادہ فطری اور تخلیقی طور پر بار آور عمل ہے۔ اس تحریر کے ذریعے میری یہی کوشش ہو گی کہ رمزی کی شاعری میں موجود محاسن کی نشاندہی کی جائے تاکہ وہ اس راستے پر اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھے، اور کہیں اگر کوئی کمزوری ہو تو اس کی طرف بھی اشارہ ہو جائے تاکہ مستقبل میں وہ اگر مناسب سمجھے تو اس سے بچنے کی کوشش کرسکے۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ کسی بھی نئے تخلیق کار کے لیے بہت مشکل دور ہے۔ ہمیں وہ صاحبانِ نظر کم کم میّسر ہیں جو اپنے بعد آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہوتے ہیں۔ اس پر ستم ٹیکنالوجی کے سہارے ابھرنے والی بزعمِ خود نقادوں کی ایک فوجِ ظفر موج ہے جو فیصلے صادر کرنے اور نوجوانوں کو بھٹکانے میں سرگرمِ عمل ہے۔ شاعری، شعریت، جدیدیت، ہر باب میں ایسی ایسی احمقانہ باتیں پڑھنے میں آتی ہیں کہ خدا کی پناہ! ایسے میں شاعری پر سنجیدہ تبادلۂ خیال کی ضرورت اور افادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
رمزی کی شاعری پر بات کرنا ٹھہری تو کیوں نہ اس بہانے ذرا بارے جدیدیت کے کچھ بیان ہو جائے۔ سینئیر شعرا کی ایک کھیپ ہے جس نے جدیدیت "نام” کی ایک خوبی اپنی شاعری میں پیدا کرنے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ جدیدیت یا جدید طرزِ اظہار کا قطعاً کوئی تعلق نئے الفاظ یا تراکیب کے استعمال سے نہیں ہے۔ شاعر جدید اپنی لفظیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے طرزِ احساس کی بنا پر ہوتا ہے۔ ہر و ہ تخلیقی اظہاریہ جو آج کے بدلتے ہوئے انسانی تعلقات، رویّوں، پریشانیوں، تنہائی، اور سماجی تار و پود کی عکاسی کرتا ہو، اپنی اصل میں جدید ہے۔ اساتذہ کے بے شمار اشعار آج بھی اتنے ہی جدید ہیں جتنے سو سال پہلے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اشعار کے مضامین ایسے ہیں جو وقت کے ساتھ پرانے نہیں پڑے، اور ان کی زبان ایسی ہے جو آج تک متروک نہیں ہوئی۔ جو شعرا اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان الفاظ سے پرہیز کیا جائے جو اساتذہ کے کلام میں ملتے ہیں، وہ خود اپنے لیے امکانات کا دائرہ تنگ کر رہے ہیں۔ زبان جتنی وسیع ہو گی اتنے زیادہ امکانات کی حامل ہو گی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ الفاظ کے لغوی معنی کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ممکنہ استعاراتی جہات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو ہماری ڈھائی سو سالہ شعری روایت نے پیدا کیا ہے۔ مجھے وصل، ہجر، لمس، چراغ، شب، سحر، حجرہ، دیوار، دریچہ، دستک، دہلیز، خرد، جنوں اور بام کے استعاراتی پہلو نظرانداز کرتے ہوئے جدید الفاظ ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اسی طرح شاعری کو عام فہم بنانے کی کوششیں بھی بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں۔ شاعری ہمیشہ خواص کی چیز رہی ہے اور معاشرے کا با شعور اور تعلیم یافتہ طبقہ ہی اس سے حظ اٹھاتا ہے۔ جسے دلچسپی ہو گی وہ اپنی استعداد کو بہتر بنائے گا۔ آپ کو اس کے لیے اپنا معیار گرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ادب کا ایک اور منصب زبان کو اس کی خالص ترین شکل میں محفوظ کرنا بھی ہے۔ زبان ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے، مگر یہ عمل کسی مہم جوئی کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس ارتقا میں بھی اصل کردار اساتذہ اور لسانیات کے ماہرین کا ہوتا ہے، نہ کہ ان شاعروں کا جو کبھی بول چال کے نام پر، کبھی علاقائی لہجوں کی دلیل لا کر، اور کبھی محض تن آسانی کے سبب زبان کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ ہے شعریت کی تعریف۔ ایسا کیا ہو شعر میں جو اسے شعریت کا حامل بنائے۔ شعریت کسی ٹھوس چیز کا نام نہیں۔ شعریت وہ لطیف احساس ہے جو کسی شعر کو سن کر یا پڑھ کر آپ کے اندرون میں ایک پُر لطف ہیجان برپا کرتا ہے۔ آپ کو بے اختیار واہ کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ پیدا کیسے ہوتا ہے ؟ مضمون سے ہرگز نہیں ہوتا۔ مضمون کے ابلاغ اور اثر پذیری کا تعلق سراسر عقل سے ہی، احساس سے نہیں۔ احساس سے تعلق شعر کی صوتیات کا ہے، لفظوں کی نشست و برخاست کا ہے، اس کیفیت کا ہے جو شعر کے تار و پود میں بُنی گئی ہے، اس "ان کہی” کا ہے جسے ہم رمزیت اور ایمائیت کہتے ہیں، اور اس تصویر کا ہے جو شعر سن کر سامع کے ذہن میں ابھرتی ہے۔ ان سب عوامل کا مجموعی تاثر جتنا طاقتور ہو گا، شعر اتنی ہی گہری شعریت کا حامل ہو گا۔ کلامِ موزوں اور شعر کے درمیان فرق سمجھنا ہو تو ان عوامل کا ادراک ضروری ہے جو میں نے اوپر درج کیے ہیں۔
جدیدیت اور شعریت کے ضمن میں اس گفتگو کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی شاعر میرے نزدیک اس وقت تک شاعر کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے کلام میں شعریت کا عنصر موجود نہ ہو۔ اور کوئی شاعر اس وقت تک اہم شاعر نہیں جب تک کہ اس کا کلام اس کے عہد اور عصری آگہی کا آئینہ دار نہ ہو۔ اس حوالے سے ان عوامل کی وضاحت میری دانست میں ضروری تھی۔
رمزی آثم ان نوجوان شعرا میں شامل ہے جن سے بڑی توقعات بجا طور پر وابستہ ہیں۔ رمزی بنیادی طور پر تفہیمِ ذات کا شاعر ہے۔ اس کی شاعری کا بنیادی تار و پود انسان کے اندرون اور اس کی بیرونی دنیا سے تعلق کے گرد بنا گیا ہے۔ وہ آج کے انسان کی تنہائی کو محسوس کرتا ہے، اس کے دکھ کو سمجھتا ہے، تبدیل ہوتے ہوئے انسانی تعلقات اور روز و شب کی کشاکش میں آج کے مصروف انسان کا غم اٹھاتا ہے، اس کے اطراف ٹوٹتی پھوٹتی ہوئی اقدار کا زخم سہتا ہے، اور اس نفسانفسی میں ایک ایسی دنیا تخلیق کرتا ہے جو کیف آگیں اور سرور بخش ہے۔ وہ خواب دیکھتا ہے اور دوسروں کو اپنے خوابوں کا عکس دکھاتا ہے۔ شاعری یوں بھی واقعات کو نظم کرنے کا نام نہیں، نہ ہی بیان بازی سے اس کا کوئی علاقہ ہے۔ شاعری تو ہے ہی انفرادی احساس کو اجتماعی شعور سے جوڑنے کا سلسلہ۔ اس اعتبار سے رمزی بہت خوش نصیب ہے کہ اس کی شاعری کی بنیاد استوار ہی اچھی شاعری کی بنیادی قدر پر ہوئی ہے۔ رمزی کے یہاں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بھی بہت خوش آئیند ہی۔ وہ لفظوں کو ان کے استعاراتی معنوں میں برتنے کی کامیاب کوششیں جابجا کرتا نظر آتا ہے۔ شعریت اس کے یہاں اس سے ذرا پہلے کے خوبصورت شاعر اجمل سراج کی طرح شاعری کے بنیادی اسلوب کا حصہ ہے۔ وہ خوبصورت امیجز تخلیق کرتا ہی، اور اس کے اشعار کی صوتیات عموماً میٹھی اور ملائم ہوتی ہیں۔ آج کا انسانی شعور اور حسّیت اس کی شاعری میں واضح طور پر کارفرما ہے۔ وہ مضامین کو خوبصورتی کے ساتھ اپنے متحرک احساس سے جوڑ کر ان کیفیات کا بھرپور اظہار کرتا ہے جو آج کے انسان کی کیفیات ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار میری کہی ہوئی باتوں کی دلیل کے طور پر پیش ہیں اور ان امکانات کی وضاحت سے نشاندہی کرتے ہیں جو رمزی آنے والوں وقت میں بروئے کار لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کچھ دنوں سے نہیں ملے خود سی
ہم اچانک کہاں چلے گئے ہیں

کوئی آیا نہ دیکھنے کے لیی
ہم یونہی رائگاں چلے گئے ہیں

اس شجر کے قریب مت جانا
اس میں حیرت اتار دی گئی ہے

خوب رویا میں لپٹ کر خود سے
رنج ایسا تھا چھپایا نہ گیا

میں اکیلا ہی گیا غم کی طرف
کوئی اس دشت میں آیا نہ گیا

زندگی کھل نہیں رہی مجھ پر
کیا کسی راز سے بنی ہوئی ہے

اک تحیّر سے آشنائی مری
مرے آغاز سے بنی ہوئی ہے

تمہارے ساتھ کئی رنج بانٹنے ہیں مجھے
سو کچھ دنوں کے لیے کام سے اجازت لو

وہ بند اپنے مکانوں کی کھڑکیاں کر لیں
ہوا کے جھونکے جنھیں سوگوار کرتے ہیں

کھلا رکھتا ہوں گریبان ہمیشہ اپنا
زخم دیتے ہوئے احباب کو مشکل نہ پڑے

ابھی وہ ہاتھ بڑھا کر مجھے بچا لے گا
ذرا سی دیر کو آیا تھا دھیان گرتے ہوئے

رنج تصویر میں نظر آئے
ایسا منظر بنائیے تو سہی

میں اپنی ذات کے اندر بھی جھانک لیتا ہوں
کہ حیرتوں سے بھر ا اک جہان ہے یہ بھی

شام آتی ہے تو اُس گھر کی طرف
عادتاً اپنے قدم جاتے ہیں

ہاتھ اٹھتا نہیں دستک کے لیے
پاؤں دہلیز پہ جم جاتے ہیں

کیسی ویراں ہے تعلق کی سڑک
آپ آتے ہیں نہ ہم جاتے ہیں

اب تو ملنے کے لیے وقت نہیں ملتا ہے
ورنہ ہم کتنی سہولت سے ملا کرتے تھے

یہ اشعار کسی بھی شاعر کے امکانات کا پُر زور اعلان ہیں بلکہ ان میں سے کچھ اشعار کسی بھی اچھے شاعر کے لیے فخر کا موجب ہوسکتے ہیں۔ رمزی نے یہ سب اپنے پہلے ہی مجموعے میں کر دکھایا، یہ ایک غیر معمولی صلاحیت پر دلیل ہے۔
اب کچھ ایسی باتوں کی طرف آتا ہوں جو شاید رمزی کے نئے شعری افق کی طرف سفر کے دوران معاون ثابت ہوں۔ سب سے پہلی کاوش جو رمزی کو کرنا ہو گی وہ "فارم” کی یکسانیت سے بچنے کی ہے۔ اسے مختلف بحروں میں طبع آزمائی کرنا ہو گی۔ جن چھوٹی بحروں میں رمزی شعر کہتا ہے اور جس طرح کی لفظیاتی وہ قدرتی طور پر استعمال کرتا ہے وہ اسے رسا چغتائی کے بہت قریب لے جاتی ہیں۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ رمزی رسا صاحب کے رنگ میں شعر کہتا ہے۔ بالکل نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ رسا صاحب کی چھاپ اس طرزِ اظہار پر اتنی گہری ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا لہجہ گونجنے لگتا ہے۔ اپنے مکمل امکانات کی رسائی کے لیے رمزی کو لمبی اور متوسط بحور میں زیادہ غزلیں کہنی چاہئیں۔ چونکہ رمزی فنّی طور پر مضبوط شاعر ہے اس لیے اس کے لیے کسی بھی بحر میں شعر کہنا کوئی مشکل نہیں۔ دوسری اہم بات ردیفوں کا تعّین ہی۔ رمزی کی بیشتر ردیفیں "فعلیت” کی حامل ہوتی ہیں۔ کرتے تھی، کیا جائے گا، جاتے ہیں، رستہ مانگا، بدل سکتا ہوں، کرتے ہوئے، رکھنا ہے، مشکل نہ پڑے، کرتے ہیں، اجازت لو، باندھ لیا، بنی ہوئی ہے، دی گئی ہے، چلے گئے ہیں، یہ چودہ ردیفیں ان بیس غزلوں میں استعمال ہوئی ہیں جو مجھے فراہم کی گئی ہیں۔ اس طرح کی ردیفیں کیفیت اور مضمون دونوں پر ایک روک لگا دیتی ہیں جس کیے سبب شاعر کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ شاعر کی اپنی ترجیحات، اپنا مزاج، اور اپنا شعری رجحان اس کا طرزِ اظہار متعیّن کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر چونکہ میں "شاعری نصف پیغمبری” کا قائل نہیں ہوں اور شاعری کو فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف کی طرح سمجھتا ہوں جن میں فنکار محنت، ریاضت، اور شعوری کوشش کے ساتھ اپنے فن کو جلا بخشتا ہے، اس لیے میں نوجوان دوستوں سے توقع کرتا ہوں کہ وہ "شاعری اترتی ہے ” کے چکّر میں نہ پڑیں اور اپنا لہجہ ساخت کرنے اور اپنے طرزِ اظہار کو "پالش” کرنے کے لیے محنت کریں۔ آخر میں ایک اہم بات۔ شاعری پڑھ کر اپنی شاعری کا تخلیقی افق وسیع نہیں کیا جا سکتا۔ اچھی شاعری پڑھ کر فنّی رموز سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ مضامین اور خیال میں توسیع کے لیے ناول، افسانہ، تنقید، ڈرامہ سب کا مطالعہ ضروری ہے۔ ریاضت سے فن کو جلا ملتی ہے اور نثر پڑھنے سے ذہنی افق وسیع ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان سارا وقت شاعری کرنے، شاعری پڑھنے، اور شاعری سننے سنانے میں صرف کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رویّہ ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے۔ دن کا کچھ وقت سنجیدہ مطالعے کے لیے وقف کرنا بے حد اہم ہی۔ میں یہ بھی سنتا ہوں کہ جی میں نے میر کو پڑھا ہے۔ بھائی میر اور دیگر اساتذہ "پڑھ لیے جانے ” والے شاعر نہیں ہیں۔ یہ تو ہر نئی پڑھت میں نئی دنیاؤں کا پتہ دینے والے شاعر ہیں، سو ان سے رابطہ بنائے رکھئیے۔ ادبی رسالوں میں اپنی غزل پڑھ کر اور یہ دیکھ کر کہ کون کہاں اور کتنا چھپا ہے، رسالہ رکھ دینا بھی اچھی بات نہیں۔ دیکھئیے کہ آپ کے ساتھ کے لوگ کیا لکھ رہے ہیں۔ عالمی ادب کا مطالعہ کیجئیے۔ فلسفہ اور تاریخ میں کچھ درک پیدا کیجئیے۔ شاعری کو فن کی اعلٰی ترین شکل اسی لیے قرار دیا جاتا ہے کہ اس میں دیگر تمام فنون کا لطف پنہاں ہے۔ شاعر موسیقار، مصوّر، مجسمہ ساز سبھی کچھ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر کسی کے شعر کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں ایک خوبصورت امیج اور کانوں میں ایک مترنم نغمے کا سا احساس نہ گونجے تو آپ نے اچھا شعر نہیں پڑھا۔
مجھے رمزی سے مستقبل میں بہت عمدہ شاعری کی توقعات ہیں اور اس کی علم کے لیے لگن، اور ترقی کے لیے تگ و دو کے پیشِ نظر مجھے اپنی توقعات کی تکمیل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے