تاریخ شاہد ہے کہ کئی شخصیتیں پسِ پردہ رہ کر کارنامے انجام دیتی رہی ہیں۔ نظام سادس میر محبوب علی خان نہایت کم سنی میں تخت پر بٹھائے گئے تھے اور امور سلطنت سالار جنگ اول بہ حیثیت مختار الملک انجام دیا کرتے تھے۔ نظام سادس کے ہوش سنبھالنے کے باوجود ان کی رہنمائی سالار جنگ ہی فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک تجربہ کار سیاسی مدبر تھے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں۔
چندو لعل بھی ایسی ہی ایک سیّاس شخصیت کا نام ہے۔ ان کے بارے میں جاننے کے لیے انہی کی خود نوشت سوانح ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ فارسی سے جس کا اردو ترجمہ ’’فرحت کدۂ آفاق‘‘ کے نام سے راجا راجیشور راؤ نے کیا۔ یہ دونوں کتابیں حیدرآباد ہی میں شائع ہوئیں۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ کا سنہ اشاعت 1234ھ متعین کیا ہے۔ اس کے علاوہ چندو لعل کی زندگی پر روشنی ڈالنے والی کچھ اہم تاریخیں بھی ہیں جن کو کھنگال کر ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے حقائق برآمد کیے ہیں جیسے:
1۔ منشی فیض اللہ کی نایاب تاریخ ’’خزانہ گوہر شاہوار‘‘ مخطوطہ۔ مخزونہ کتب خانۂ آصفیہ 1246ھ 1830 حیدرآباد۔
2۔ غلام حسین خان جوہر کی ’’گلزارِ آصفیہ‘‘ (1260ھ)
3۔ منشی قادر خان بیدری کی تاریخ آصف جاہی۔ 1268ھ (جو 1266ھ میں مکمل ہو چکی تھی)
4۔ غلام امام خان ترین کی تاریخ رشید الدین خائی۔ 1270ھ مطابق 1854
5۔ مانک راؤ وٹھل راؤ کی ’’بستان آصفیہ‘‘
6۔ عبدالجبار خاں ملکا پوری کی ’’محبوب الزمن‘‘
7۔ تذکرۂ شعرائے دکن از سید مراد علی طالع
8۔ میر منشی التفات حسین کی مرتبہ تاریخ نگار ستان آصفی سنہ تصنیف 1231ھ مطابق 1815
9۔ راجا مکھن لعل کی ’’تاریخ یاد گار مکھن لعل‘‘ 1242ھ جو چندو لعل کی زندگی میں لکھی گئی تھی۔
آئیے ’’چند و لعل شاداں‘‘ پر دادِ تحقیق دینے والی معتبر و مستند و ثقہ ہستی ڈاکٹر ثمینہ شوکت کے بارے میں پہلے جاننے کی کوشش کریں۔
پروفیسر ثمینہ شوکت 19 جون 1936 کو گلبرگہ میں پیدا ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی میٹرک کی سند میں ان کا سالِ پیدائش 1934 درج ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم میٹرک تک گلبرگہ ہی میں ہوئی۔ انٹر میڈیٹ انھوں نے خانگی طور پر کامیاب کیا۔ 1952 میں بی۔ اے اور 1954 میں ایم۔ اے (اردو) عثمانیہ یونیورسٹی سے کامیاب کیا۔ 1960 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے ’’مہاراجا چندو لعل حیات اور کارنامے‘‘ کے موضوع پر پروفیسر عبد القادر سروری کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مذکورہ مقالے کے ممتحن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ اس کے زبانی امتحان (viva) کے لیے پروفیسر گیان چند جین حیدرآباد تشریف لائے تھے۔
ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا پی ایچ ڈی کا مذکورہ مقالہ دو حصوں میں شائع ہوا۔ پہلا حصہ ’’مہاراجا چندو لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ 1979 میں منظر عام پر آیا۔ اس مقالے کا دوسرا حصہ ’’مہاراجا چند و لعل شاداں۔ حیات اور کارنامے‘‘ 1983 میں منظر عام پر آیا۔ جس وقت ڈاکٹر ثمینہ شوکت حیدرآباد یونیورسٹی میں ریڈر ہو کر شعبہ اردو میں خدمات انجام دے رہی تھیں، اتفاق سے اسی زمانے میں پروفیسر گیان چند جین کا بھی حیدرآباد یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا تھا۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کے اس مقالے کے پیش لفظ مورخہ 11 اپریل 1979 میں گیان چند جین نے بڑا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ انکشاف فرمایا:
’’انھوں نے (ثمینہ شوکت) نے ’’مثنوی لطف‘‘ ترتیب دے کر شائع کی۔ میں اپنے ڈی لٹ کے مقالے ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘ کو (کذا) اشاعت کے لیے انجمنِ ترقی اردو کو دے چکا تھا۔ مسودہ واپس لے کر میں نے اس میں ’’مثنوی لطف‘‘ کے تعارف کا اضافہ کیا۔ 1965 میں جب میں جموں اردو یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر مقرر ہوا وہاں ایم۔ اے کے نصاب میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا مرتبہ ’’شکار نامۂ گیسو دراز‘‘ شامل تھا۔ برسوں اُسے پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ حسن اتفاق ایسا ہوا کہ مارچ 1979 میں، میں نئی مرکزی حیدرآباد یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر ہو کر آ گیا۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا پہلے ہی یہاں تقرر ہو چکا تھا۔ اس طرح مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کی مسرت حاصل ہوئی۔‘‘ (پیش لفظ)
پی ایچ ڈی کی تکمیل سے پہلے ہی عثمانیہ یونیورسٹی کے ویمنس کالج (کوٹھی) میں ثمینہ شوکت صاحبہ کا تقرر بہ حیثیت اردو لکچرر 1958 میں ہو چکا تھا۔ 1969 میں وہ ریڈر بن کر عثمانیہ یونیورسٹی منتقل ہو گئیں اور پھر 1979 میں چھے زائد تدریجی اضافوں Increments کے ساتھ بطور ریڈر اردو حیدرآباد یونیورسٹی میں تقرر عمل میں آیا جہاں 1984ء میں انھیں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور وہ صدرِ شعبہ بن گئیں۔ 1994 میں وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر سبک دوش ہوئیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے وہ ٹورنٹو کینیڈا منتقل ہو گئیں۔
18؍ فروری 1965 کو ثمینہ شوکت کی شادی جناب سکندر توفیق سے ہوئی جو گورنمنٹ پالی ٹکنک کالج میں انگریزی کے لکچرر تھے اور اردو کے شاعر تھے۔ سکندر توفیق ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’کیا گھر نگر کیا خانقاہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
سکندر توفیق نے دکن کالج پونے سے صوتیات Phonetics میں ڈپلوما بھی کیا تھا۔ ’’اردو کی ترسیلی لسانیات‘‘ میں وہ اپنی شریکِ حیات ثمینہ شوکت کے شریک مصنف (co-writer)بھی رہے۔
سکندر توفیق خلاقانہ تجربے بھی کیا کرتے تھے چنانچہ انھوں نے سات مصرعوں کی نظم کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام ’’سباعی‘‘ رکھا تھا۔ اس کے موجد و خاتم وہی ثابت ہوئے۔ یہ اختراعی ’’سباعی‘‘ ناکام تجربہ ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے اپنے تحقیقی مقالے ’’مہاراجا چندو لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے۔
’’سکندر توفیق کے نام جو میرے رفیق زندگی ہی نہیں رفیقِ قلب و ذہن بھی ہیں‘‘۔ ثمینہ شوکت جون 1979
ڈاکٹر حبیب نثار کی اطلاع کے مطابق پروفیسر ثمینہ شوکت کا انتقال ٹورنٹو کینیڈا میں 2016 میں ہوا۔
ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی تحقیق کا ایک شاہ کار ’’شکار نامہ‘‘ ہے جو گلبرگہ کے حضرت خواجہ گیسو دراز کے اہم اردو رسالوں میں شامل ہے اور جو کئی مخطوطات کے متن کو سامنے رکھ کر 1962 میں مرتب کیا گیا تھا جس کے بارے میں گیان چند جین نے کہا کہ یہ جموں یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ اسے اپنے طلبہ کو پڑھاتے رہے ہیں جب وہ جموں میں اردو کے استاد تھے۔
1959 ہی میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ممکنہ مآخذ کے حوالوں سے مہ لقا بائی چندا کو اردو کی اولین صاحبِ دیوان شاعرہ ثابت کیا تھا۔ مہ لقا بائی ایک حسین طوائف تھیں اور چندو لعل کی بھی منظور نظر تھیں۔ چندو لعل ان پر کافی مہربان تھے۔ دونوں کے مابین کافی بے تکلفی بھی تھی۔ درگا پرشاد نادِر نے ’’تذکرۃ النساء‘‘ میں ایک واقعہ درج کیا ہے جس سے ان دونوں کے ’’تعلقات‘‘ پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
ایک روز راجہ (چندو لعل شاداں) صاحب نے صبح کے وقت اس (مہ لقا) کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
ہے چین کہاں جب سے مری آنکھ لڑی ہے
ملنے کی نجومی تو بتا کون گھڑی ہے
اس شوخ دیدہ و دہن دریدہ حاضر جواب نے فوراً یہ شعر فی البدیہہ موزوں کر کے سنایا:
پہلے ہی سے چِلّا کے مرے دل کو ستا مت
اے مرغِ سحر چپ رہ ابھی رات بڑی ہے
اس سخن گسترانہ انداز سے اس طوائف کی بے باکی اور بے تکلفی ظاہر ہوتی ہے۔
1959 تک مہ لقا بائی چندا ہی کے سر اولین صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا سہرا باندھا جاتا رہا ہے۔ بعد کی تحقیق میں اسد علی خان تمنّا کی بیگم لطف النسا پہلی صاحب دیوان شاعرہ قرار پائیں۔ لطف النساء امتیاز نے اپنے دیوان کے آخر میں اس کے ترتیب پانے کی تاریخ بھی خود موزوں کی ہے۔
چوں از کنیز حضرتِ خاتون دریں زماں
اشعار تازہ جمع تہہ دل شگفتہ شد
از روئے ’’یمن‘‘ سال ہمایون ایں کتاب
’’دیوانِ امتیاز بخوانید‘‘ گفتہ شد
’’دیوانِ امتیاز بخوانید‘‘ کے اعداد 1203 ہوتے ہیں ان میں روے یمن یعنی (ی) کے دس عدد جمع کر لیں تو 1213ھ تاریخ بر آمد ہوتی ہے۔ اس طرح امتیاز کا دیوان 1213ھ میں اور مہ لقا بائی چندا کا دیوان اس کے ایک سال بعد 1214ھ میں منظر عام پر آیا تھا۔
(ملاحظہ ہو عہد ارسطو جاہ۔ علمی ادبی خدمات از ڈاکٹر لئیق صلاح سنہ اشاعت جنوری 1986 نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدر آباد)
1962 ہی میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ’’مثنوی لطف‘‘ اور ’’حیات لطف‘‘ دو کارنامے انجام دیے جن کی اہمیت کا اندازہ پروفیسر گیان چند جین کے اس اعلیٰ ظرفی کے مظاہرے سے ہوتا ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی تحقیق ’’مثنوی لطف‘‘ کو اپنے چھپنے والے ڈی لٹ کے مقالے ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘ کا حصہ بنا لیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی تحقیقی کتاب ’’حیات لطف‘‘ بھی آئی جس میں مرزا علی لطف کے کوائف اور ان کے فکر و فن کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے بڑی عرق ریزی سے تلاش کر کے لطف کی مثنوی اور مخطوطہ دیوان کے ساتھ ساتھ ممکنہ مآخذ سے لطف کا کلام اخذ کر کے لطف کے حیات اور کارناموں پر سیر حاصل مقدمے کے ساتھ کلیاتِ لطف بھی 1962 میں مرتب کیا۔ 1962 میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ’’دیوان لطف‘‘ بھی مدون کیا جس میں مرزا علی لطف کی غزلیات، قصائد اور دیگر اصنافِ کلامِ لطف جمع کر کے کارنامہ انجام دیا۔
مرزا علی لطف کے فکر و فن پر ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی داد تحقیق میں ان کے استاد پروفیسر عبد القادر سروری کے بے پایاں لطف کا یقیناً دخل ہے جس نے سدّ سکندری بھی پار کر لی تھی۔ چندوؔ سے چندا ؔتک یہ بے پایاں لطف بر قرار رہا ہے۔
مرزا علی لطف پر اتنا کچھ مواد حاصل ہونے کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ عثمانیہ یونیورسٹی سے مرزا اکبر علی بیگ نے ’’مرزا علی لطف حیات اور کارنامے‘‘ پر پی ایچ ڈی کر لی۔
مشاہیر نے ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی مرزا علی لطف پر دادِ تحقیق کی کھل کر داد دی اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنے خط مورخہ 20؍ ستمبر 1962 میں فرمایا:
’’آپ کی بھیجی ہوئی کتاب ’’مثنوی لطف‘‘ بہت پسند آئی اور آپ کی محنت کا اندازہ کر کے خوشی ہوئی۔ امید ہے کہ ہر ایک پڑھنے والے کو یہ کتاب پسند آئے گی۔ خدا آپ کو مبارک کرے۔ مخلص ذاکر حسین پروفیسر سعید احمد اکبرآبادی، ڈین شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ایڈیٹر ’’برہان‘‘ دہلی نے یوں تبصرہ فرمایا: ’’مرزا علی لطف کا دیوان اور ان کی مثنویاں گوشۂ گم نامی میں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے حالات کا بھی کچھ ایسا علم نہیں تھا۔ محترمہ ثمینہ شوکت جنھوں نے لطف کے کلیات کو جس میں دیوان بھی ہے اور مثنوی بھی، بڑی محنت سے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مسعود حسین خان صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد فرماتے ہیں:
’’مثنوی لطف کے لیے ادارۂ تحقیقات کا بہت ممنون ہوں۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ذاتی طور پر ’’لطف‘‘ کیا ہے۔ ‘ انھیں تحقیقی کام کرنے کا بہت سلیقہ ہے (بلکہ سگھڑ پن) معلوم ہوتا ہے۔ حالات اور متن کی تدوین بڑے اچھے انداز میں کی گئی ہے۔‘‘
پروفیسر ہارون خان شروانی سابق صدر شعبۂ تاریخ و سیاست (و صدر دہلی کالج دہلی) کی رائے بھی سند کا درجہ رکھتی ہے۔
’’لطف ؔ کے نام اور اس کی مثنوی سے بہت کم لوگ آشنا تھے۔ فاضل مو لفہ نے حیدر آباد کے دو اور علی گڑھ اور رام پور کے ایک ایک نسخے کا تن دہی سے مطالعہ کیا ہے اور ساتھ ہی کم و بیش ایک سو صفحے کی تمہید کے ذریعے اردو پریمیوں کو لطفؔ اور ان کے زمانے کے ماحول سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
پروفیسر اے سی شرما، صدر شعبہ اردو و فارسی جبل پور یونیورسٹی فرماتے ہیں:
’’مثنوی لطف‘‘ موسوم بہ ’’نیرنگ عشق‘‘ اردو ادب اور تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ جدید اضافے نے دیرینہ ادبی و تاریخی کمی کو پورا کیا ہے یہ ادبی قوتِ تخلیق اور ناقدانہ نگاہ پر شاہد ہے۔ میری رائے میں اس مثنوی کا درس گاہوں کے نصاب میں شامل کرنا حق بجانب ہو گا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس مستند نسخے کو اربابِ ذوق و شوق ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔‘‘
محترمہ ڈاکٹر ثمینہ شوکت صاحبہ نے ’’مہاراجا چندو لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ کے عنوان سے جو دادِ تحقیق دی ہے وہ بھی اپنی جگہ دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ چھ سو صفحات پر پھیلی ہوئی ان کی یہ معرکہ آرا کتاب 1979 میں اردو اکاڈمی آندھرا پردیس (موجودہ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی) اور ایچ ای ایچ دی نظامس ٹرسٹ حیدرآباد کے رقمی تعاون سے منظر عام پر آئی۔ سید منظور محی الدین کی کتابت کی مرہون منّت یہ کتاب نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدرآباد کے زیر اہتمام لیتھو پر شائع ہوئی ہے۔ کاغذ بہت معمولی ہے اور اس تحقیقی کتاب کے شایانِ شان نہیں ہے۔ چھ سو صفحے پر مشتمل اس اہم کتاب کی قیمت صرف پینسٹھ روپے پچاس پیسے ہے۔
چندو لعل شاداں کے تعلق سے اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر گیان چند جین نے بڑی بے باکی سے فرمایا:
’’مصنفہ سے خائف ہوئے بغیر میں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ چندو لعل کوئی بڑے شاعر نہ تھے۔ ان کی بنیادی اہمیت ریاستی مدار المہام کی ہے۔ ادب میں ہم انھیں شاعر سے زیادہ شاعروں کے مربی کی حیثیت سے پہچانتے ہیں۔‘‘
اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہم پر روشن ہوا کہ چندو لعل ’’راجا‘‘ تو نہیں تھے مگر بڑے سیاس اور بادشاہ گر تھے۔ چندو لعل شاداں آصف جاہی سلطنت میں اس قدر دخیل تھے کہ جسے چاہے سرفراز کرنے کے جتن کر سکتے تھے اور جسے چاہے معتوب و بے دخل کر دیا کرتے تھے۔ انگریز ذمہ داروں تک بھی ان کی رسائی تھی۔ انگریز بھی ان کے ذریعے اپنا کام نکال لیا کرتے تھے۔ انھیں آلۂ کار بناتے تھے۔ چندو لعل اور انگریز امدادِ باہمی پر عمل پیرا تھے۔ چندو لعل دولتِ آصفیہ میں بظاہر پیش کار تھے مگر در اصل de facto مدار المہام کے فرائض بھی وہ انجام دیا کرتے تھے۔ ناصر الدولہ کو بھی سریر آرائے سلطنت بنانے میں چندو لعل نے اہم حصہ (کردار) ادا کیا نتیجتاً ناصر الدولہ ان کے احسان مند تھے اور ان کی ہر اعتبار سے قدر کیا کرتے تھے۔
چندو لعل شاداں پر لکھتے ہوئے انہی کی خود نوشت ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ کو ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے اصل مآخذ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ اس دور کی دیگر تاریخوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ چند و لعل نے فارسی میں لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ راجا راجیشور راؤ نے کیا تھا۔ عشرت کدۂ آفاق کی تصنیف 1234ھ میں ہوئی۔ چندو لعل نے خود اپنے تعارف میں کہا:
’’ان کا وطنِ مالوف معروف آباد ہے۔ وہ قوم سے کھتری کے فرقہ مہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا سلسلہ اکبر بادشاہ کے نورتن راجا ٹوڈر مل سے ملتا ہے جو خود بھی کھتری قوم کے مہرہ شاخ سے وابستہ تھے۔۔ ۔۔‘‘
اس دور کی دیگر تاریخوں نے بھی اس پر صاد کیا۔ ظاہر ہے چندو لعل کے اثر و رسوخ کے سبب بے چون و چرن تاریخی نسب مان لینے میں ہی عافیت تھی۔
۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ مہاراجا چند و لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا پی ایچ ڈی کا مقالہ، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس۔ چار کمان حیدرآباد۔ مطبوعہ 1979
2۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت حیات و خدمات۔ ڈاکٹر شفیق احمد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ۔ جو کالج آف لنگویجس میں ڈاکٹر فاطمہ آصف کی زیر نگرانی لکھا گیا جس پر عثمانیہ یونیورسٹی نے شفیق احمد کو 2006 میں Ph.D کی ڈگری سے نوازا۔
3۔ عہد ارسطو جاہ۔ علمی و ادبی خدمات۔ ڈاکٹر لئیق صلاح کا پی ایچ ڈی کا مقالہ، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدرآباد۔ مطبوعہ 1986
٭٭٭