لِز کو مرے ہوئے پورے دو ماہ ہو گئے ہیں لیکن اس کی لاش ابھی تک بے گور و کفن ہے۔ اسپتال والے کہتے ہیں اگر کسی نے لاش کو دفنانے کا بندوبست نہیں کیا تو مجبوراً اسے جلانا پڑے گا۔ لیکن اس کے لئے بھی دفنانے کی نسبت کم سہی، رقم تو درکار ہے۔ وہ کون ادا کرے؟ جب تک اس کے لواحقین کا اتا پتا نہیں ملتا، جو دفنانے کا خرچ اٹھانے کے لئے بھی تیار ہوں یا کوئی سرکاری یا فلاحی ادارہ یہ فنڈز نہیں دیتا، لِز کی لاش یونہی سرد خانے میں پڑی رہے گی۔ گویا مرنے کے بعد بھی لز کا انتظار جاری رہے گا۔ ویسے لِز کو سرد خانے کی تنہائی میں یہ انتظار اتنا بھی گراں نہیں گزر رہا ہو گا۔ کیونکہ اس نے زندگی کا ایک بڑا حصہ انتظار میں ہی گزارا تھا۔ وہ انتظار کا عادی تھا۔ لِز کو برسوں سے موت کا انتظار تھا۔ اب جو موت آئی تو زمین میں جانے کا انتظار شروع ہو گیا۔ لِز کے اس انتظار کا سلسلہ نہ جانے کب ختم ہو گا۔
اس نے پچھلے تیس سال سے ہاؤسنگ کمیشن (بوڑھوں اور ناداروں کے لئے سرکاری رہائش گاہ) کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ان کا انتظار کیا جنہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے۔ زندہ بھی ہے یا مر کھپ چکا ہے۔ لِز تیس سال سے اپنی تنہائی، اپنے انتظار اور اپنے دکھوں کو بغیر کسی گلے شکوے کے سہہ رہا تھا۔ اس نے کبھی کسی کو اپنے دکھوں کا شریک نہیں بنایا۔ مجھے بھی نہیں جو اس کا پڑوسی بھی تھا، دوست بھی تھا اور حسبِ استطاعت اس کا خیال بھی رکھتا تھا۔
پچھلے چار پانچ سال سے لِز بستر کا ہو کر رہ گیا تھا۔ ایسے میں اس کی شاپنگ کرانا، اس کے بل ادا کرنا، اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا، اس کے کمرے کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر اس کی ماضی کی یادیں سننا اور اس سے انگریزی کے محاوروں اور مشکل الفاظ کا مطلب سمجھنا میرے مشاغل میں شامل تھا۔ میرا گھر لز کی ان پانچ چھوٹے چھوٹے فلیٹوں پر مشتمل عمارت کے ملحق واقع تھا۔ اکثر میں اپنے گھر کے عقبی صحن کی دیوار کے پاس کھڑے ہو کر لز سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ جس میں کئی دفعہ ملحقہ کمروں والے دوسرے بوڑھے بھی شامل ہو جاتے تھے۔
لِز نے ’’اپنوں‘‘ کے بارے میں بروس کو بھی کچھ نہیں بتایا جس نے آخری وقتوں میں لز کا بیٹوں اور بھائیوں کی طرح خیال رکھا۔ بروس ہاؤسنگ کمیشن کی اس عمارت میں لِز کا پڑوسی تھا۔ وہ خود بھی بہت اکیلا ہے۔ اس کی بیوی مر چکی ہے۔ ایک بیٹی نیوزی لینڈ میں رہتی ہے۔ سال میں ایک آدھ مرتبہ باپ کو فون کر لیتی ہے۔ اسے ملنے آج تک نہیں آئی۔ حالانکہ ائر ہوسٹس ہونے کی وجہ سے اکثر سڈنی آتی رہتی ہے۔ کوئی دو سال قبل ان باپ بیٹی کی سڈنی ائر پورٹ پر مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ باپ نے بیٹی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ بیٹی نے کہا میں تمہارے پاس نہیں آ سکتی۔ ہاں ائر پورٹ پر آ جاؤ تو ایک مختصر ملاقات ہو سکتی ہے۔ دس سال کے بعد باپ بیٹی ائر پورٹ کی کافی شاپ میں ملے۔ پندرہ منٹ کی اس ملاقات کو بروس آج تک یاد کرتا ہے۔ اس مختصر ملاقات میں بیٹی سے ہونے والی گفتگو کو وہ سیکڑوں مرتبہ دہرا چکا ہے۔ بروس کا ایک جوان بیٹا بھی ہے۔ بروس اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے۔ کیونکہ اس نے باپ سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ بروس بیٹے اور بیٹی کو یاد کرتا ہو گا لیکن کسی کے سامنے اپنے دکھوں کا اظہار نہیں کرتا۔ وہ باغبانی کر کے، اپنی عمارت کو سجا اور سنوار کر اور پڑوسیوں کی مدد کر کے اپنا وقت گزار لیتا ہے۔ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر کی باغبانی بھی وہی کرتا ہے۔ اس سے اس کی تھوڑی سی اضافی آمدنی ہو جاتی ہے۔ اور اس کا باغبانی کا شوق بھی پورا ہو جاتا ہے۔
لِز تو یہ بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ پچھلے دس سال سے چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ نہ جانے کون کون سی بیماریوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔ بستر سے اُٹھ کر دروازے تک آتا تو اس کی سانس بے قابو ہو جاتی، گلا پھول جاتا، ٹانگیں جواب دے جاتیں۔ جب کھڑا ہونا کارِ دارد ہو جاتا تو وہ بستر پر ڈھے جاتا اور ناک پر آلہ تنفس چڑھا لیتا۔ لیکن کیا کیا جائے گھر کے ضروری کام تو پھر بھی اسے کرنے ہی پڑتے تھے۔ اسی حالت میں اپنے لئے کھانا بنانا پڑتا، صفائی ستھرائی اور شاپنگ کرنی پڑتی کہ ’’زندہ‘‘ رہنے کے لئے یہ ناگزیر تھا۔ سال میں کئی مرتبہ لِز اتنا شدید بیمار ہو جاتا کہ اسے اسپتال میں داخل کرانا پڑتا۔ ایسے میں اس کے بچنے کی امید نظر نہ آتی۔ لیکن لِز سخت جان تھا، پھر بچ نکلتا۔ چند دن اسپتال میں رہ کر جونہی اس کی طبیعت خطرے کی حدود سے باہر نکلتی وہ اسپتال سے بھاگ نکلتا۔ ایک دن اگر اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں ہوتا تو اگلے دن گھر کے دروازے پر کھڑا کھانس رہا ہوتا۔ لِز کو اسپتال اور نرسنگ ہوم ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آخر تک نرسنگ ہوم میں داخل نہیں ہوا اور مرا بھی اسپتال کی بجائے اپنے گھر میں۔ یہی وہ چاہتا تھا۔ اس مرتبہ شدید بیمار ہونے کے باوجود اس نے اسپتال جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس معاملے میں اس نے ہم سب کی ایک نہ سنی۔
اِس کے علاوہ میری ایک اور بات بھی اس نے آخر تک نہ مانی۔ اس معاملے میں میری کیا بروس اور کسی اور کی بھی اس نے نہ سنی۔ ایک دفعہ جب وہ شدید بیمار تھا تو میں نے اس سے پوچھا ’’لِز اگر تم اپنی بیوی، بیٹے اور بیٹی کا نمبر دے دو تو میں انہیں اطلاع کر دیتا ہوں‘‘
لِز جس کا منہ اور گلا سوج کر کپُا بنا ہوا تھا، بڑی مشکل سے رک رک کر بولا ’’نہیں! کسی کو نہیں بلانا! میں آرام سے مرنا چاہتا ہوں‘‘
اس کے بعد بھی کئی مرتبہ میں نے لِز سے اس کے گھر والوں کے بارے میں جاننا چاہا۔ لیکن لِز نے ہر مرتبہ ٹال دیا۔
آج سے ٹھیک دو ماہ پہلے ایک سرد اور تاریک رات میں اپنے کمرے کی تنہائی میں لز ان مشکلات سے نجات پا گیا۔ رات آٹھ بجے لِز کے پڑوسی بروس نے اسے دلیہ بنا کر دیا۔ ان دنوں لز کا دوپہر اور شام کا کھانا یہی دلیہ تھا۔ کوئی اور چیز اسے ہضم نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت لز ٹی وی کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔ بروس نے کھانا اس کے سامنے رکھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اگلی صبح سات بجے بروس نے اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھل گیا۔ لزِ ابھی تک اسی کرسی پر بیٹھا تھا۔ رات کا کھانا اس کے سامنے ویسے ہی دھرا ہوا تھا۔ ٹی وی بھی آن تھا۔ لیکن لِز کا سر ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا اور جسم سرد ہو چکا تھا۔ رات کے نہ جانے کس پہر لِز کی روح پرواز کر گئی تھی۔
اتوار کی صبح تھی۔ میں ہفتے میں ایک دن دیر تک سونے کی نادر عیاشی کر رہا تھا کہ آسٹریلیا کی مصروف زندگی ایسے لمحے کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی اور میرے خوابوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
دروازے پر جا کر دیکھا تو بروس کھڑا تھا۔ اس نے لِز کی رحلت کی خبر دی۔ اگرچہ یہ خبر میرے لئے خلافِ توقع نہیں تھی پھر دِل میں ایک درد سا جاگا۔ میں نے آسمان کی طرف نظر دوڑائی تو سورج ہر روز کی طرح جلوہ افروز تھا۔ سنہری روپہلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میرے فرنٹ یارڈ میں درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ گھاس پر شبنم کے موتی چمک رہے تھے۔ سڑک پر اتوار کی صبح کا سناٹا تھا۔ سب کچھ ویسے ہی تھا جو روز ہوتا ہے لیکن میرے اندر جیسے کچھ خلا سا تھا۔ دماغ میں سائیں سائیں سی ہو رہی تھی۔ دکھ کی ایک لہر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دکھ کیوں نہ ہوتا۔ موت نے آج پھر زندگی پر فتح حاصل کر لی تھی۔ موت کے سامنے زندگی کی حقیقت ہے۔ ایک مشتِ غبار جسے موت کا ایک جھونکا اڑا کر لے جاتا ہے۔ آج اس کا شکار میرا دوست بنا تھا۔ ہمارا دس سال کا ساتھ تھا۔ کتنا وقت ہم نے اکٹھے گزارا تھا۔ آج یہ ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا تھا۔
اس کے بعد پولیس، ایمبولنس، اسپتال اور سنٹر لنک جیسے اداروں سے رابطے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ سب سے رابطہ ہو گیا۔ پولیس کی مدد سے لِز کی لاش سرد خانے میں ’’محفوظ‘‘ ہو گئی۔ لیکن لز کے لواحقین سے رابطہ نہ ہو سکا۔ رابطہ ہوتا بھی کیسے۔ لز کے کمرے سے ہمیں اور پولیس کو اس کے لواحقین کا کوئی اتا پتا ہی نہ مل سکا۔ بالآخر دس دن کی تگ و دو کے بعد پولیس نے لِز کے بیٹے اور بیٹی کو ڈھونڈھ نکالا۔ وہ دونوں بھی یہیں سڈنی میں ہی رہتے تھے۔ لز کی بیوی نے تیس سال پہلے لز سے طلاق لے لی تھی۔ بعد میں اس نے کسی اور سے شادی کر لی اور امریکہ چلی گئی۔ لڑکا اور لڑکی جوان تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی راہیں لیں۔ باپ سے الگ ہونے کے بعد تیس سال گزر گئے۔ لیکن انہوں نے پلٹ کر باپ کی خبر تک نہیں لی۔ انہوں نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ باپ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ باپ ہاوئسنگ کمیشن کے چھوٹے سے کمرے میں تنہائی اور کسمپرسی کی زندگی گزارتا رہا اور بیٹا لاکھوں میں کھیلتا رہا۔ اس کی رہائش نارتھ سڈنی کے ایک انتہائی مہنگے مکان میں تھی۔ بیٹی بھی مینلی بیچ کے انتہائی مہنگے علاقے میں رہائش پذیر تھی۔ تیس سال کے بعد جب باپ مر گیا تو وہ اس کے گھر آئے، یہ دیکھنے کے لئے کہ اس نے کتنا بنک بیلنس چھوڑا ہے۔ انہوں نے باپ کا اکاؤنٹ دیکھا، اس کی وصیت دیکھی، گھر کا ٹوٹا پھوٹا سامان دیکھا اور واپس چلے گئے۔ انہوں نے اسپتال جا کر باپ کی لاش بھی نہ دیکھی۔
لز کا بیٹا اور بیٹی تو مل گئے لیکن لز کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں نے باپ کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس باپ کی لاش دفنانے کے لئے کوئی فالتو رقم نہیں ہے۔ اسے اپنا بندوبست کر کے مرنا چاہئے تھا۔
بروس اور میں نے مختلف اداروں سے رابطہ کیا کہ کوئی تو یہ ذمہ داری نبھانے کے لئے تیار ہو۔ لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنے کفن دفن کی ذمہ داری خود مرنے والے کی ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگ اپنی لاش کی تجہیز و تکفین کی انشورنس کراتے ہیں اور جب تک زندہ رہتے ہیں بیمہ کمپنیوں کو ایک مخصوص رقم ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے مختلف چرچز سے رابطہ کیا لیکن کہیں سے مثبت جواب نہیں ملا۔ لز نے جوانی میں آرمی میں بھی کام کیا تھا اور آر ایس ایل کا کا مدتوں ممبر رہا تھا۔ ہم نے آر ایس ایل سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی جواب دے دیا۔ ہم نے لز کی ڈائری سے نمبر دیکھ کر اس کے دوستوں سے مدد کی اپیل کی۔ اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ایک مرے ہوئے شخص کے لئے کچھ کرے۔ اس سے بھلا انہیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
لِز کی لاش ابھی تک سرد خانے میں پڑی دو گز زمین کا انتظار کر رہی ہے۔ نہ جانے اس انتظار سے اسے کب نجات ملے گی۔ ایک جلا وطن شہنشاہ نے دیارِ غیر میں مرتے وقت شکوہ کیا تھا کہ
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہادر شاہ ظفرؔ اگر آج زندہ ہوتا تو اپنا شکوہ واپس لے لیتا۔ کیونکہ یہاں لز جیسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے لئے کوئے یار تو درکنار روئے زمین پر یہ دو گز زمین نہیں ہے۔
٭٭٭