دو غزلہ ۔۔۔ مقبول حسین

اک سوز ہے جُدائی کا دل کی پکار میں

شاید تڑپ رہا ہے ترے انتظار میں

 

خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح

ہے کاٹ بھی وُہی ترے کاجل کی دھار میں

 

جو میرے دل میں پیار سے تم نے لگائے ہیں

کیا کھل اٹھیں گے زخم وُہ اب کے بہار میں؟

 

لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب

پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں

 

ملتا ہے تُو رقیب سے لیکن مرے لیے

اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں

 

تارے میں آسمان سے لاؤں گا توڑ کر

ایسے ہی میں نے کہہ دیا ہو گا خمار میں

 

مقبول کیسے گذرے گی یہ رات ہجر کی

مقبول کیسے آئیں گے تارے شمار میں

٭٭٭

 

 

 

 

وُہ بھی عدو نے ڈال دیئے اشتہار میں

الزام جو نہیں تھے مری روبکار میں

 

اترے ہیں خالی ہاتھ سکندر مزار میں

کس بات کا غرور ہے مشتِ غُبار میں

 

اے موت، معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں

مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں

 

میں اپنے سب کیے کا سزا وار ہوں مگر

اک سانس بھی نہیں ہے مرے اختیار میں

 

دل کا یہ ماننا ہے کہ دُنیا میں خوش رہوں

پر دیکھتی ہے عقل بھلائی  فرار میں

 

لینے دے اب تو کھُل کے مجھے سانس آخری

اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں

 

مقبول ہم نہ جیت سکے زندگی کی دوڑ

ہم بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے