کھلے گا تم پہ بھی رازِ حیات صد آہنگ
سنو سنو مری بکھری ہوئی صداؤں کو
۱۹۶۶ کے اطراف جب ہم شاعری کے بحر میں نئے نئے شاعری کے جزیروں سے شناسا ہو رہے تھے، یکایک ہماری کھوج کا سفینہ خلیل الرحمن اعظمی مرحوم کی شاعری کے ساحل پر آ رکا تھا۔ یہ ان دنوں ان شاعروں میں اہم ترین تھے جن کو دیکھ کر ہم اردو میں شاعری کرتے تھے۔ جن کا کلام ہم میں شعریت کو ابھارتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی صاحب کی معتبر آواز اپنی نرم آہنگی کے ساتھ اشعار میں ہمارے ذوق کے معیار کو بلند کرتی ہے۔ کتنے ہی رسائل تو میں نے صرف ان کی کسی غزل کو دیکھ کر اپنے ذاتی کتب خانے میں جمع کیے تھے اور اگر ان کی کوئی غزل اب بھی شائع ہو تو ایسا کروں گا لیکن وہ منبع جہاں سے اشعار کے سکے رائج ہوتے تھے، وہ نور جس سے یہ نور ریزے ہم تک پہنچے تھے وہ دریا جس سے ہمارے سامعہ اور باصرہ کو تراوٹ پہنچتی تھی۔ فردوس مکاں ہو گیا۔ کاش حقیقت اتنی دل آزار نہ ہوتی۔
اعظمی صاحب کے اشعار کسی نہ کسی طرح میرے لا شعور سے مناسبت رکھتے ہیں اور ان کی بازگشت میرے ذہن میں ہوتی ہی رہتی ہے۔ جب بھی ان کی غزل پڑھتا ہوں وہ میرے ذہن میں جا بستی ہے اور رہ رہ کر سر ابھارتی ہے۔
اعظمی صاحب کی شاعری واحد متکلم کی شاعری ہے۔ وہ شاعری کی ذات پر مرکوز اپنی انفرادیت کا احساس، زندگی کی تہی دستی کا گلہ، حال و مستقبل کی یکسانیت ایک سنجیدہ سی مایوسی، تلاشِ راہِ نجات اور وہ بھی اس مفروضہ پر مبنی کہ کچھ حاصل نہ ہو گا اور ایسے ہی موضوعات ان کی شاعری کے تانے بانے ہیں۔
اعظمی صاحب کی شاعری نہ جانے کیوں ’’بجھے بجھے تبسم‘‘ کی طرح لگتی ہے اور یہ ’’ بجھا بجھا تبسم‘‘ سارے منظر پر محیط ہے۔ ہماری اور ہمارے احساسات سے اتنا قریب تر ہے کہ ہمیں ان کا شعر اپنے جذبات کی تفسیر لگتا ہے۔ ان کے کلام کا لب و لہجہ سنجیدہ اور متوازن ہے۔ جو یہ صاف صاف اعلان کرتا ہے کہ شاعر تجربے کرنے کے لیے مشقِ سخن نہیں کرتا بلکہ اس کے پاس جو کچھ کہنے کو ہے وہ اپنی ذات کے احساسات سے سراسر طور پر مطابق ہے۔ یہ سنجیدگی قاری کو الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے ان جذبات تک پہنچنے پر متوجہ کرتی ہے۔ جو شعر کا مقصود ہیں۔ وہ ان تشنہ تشنہ باتوں کا کرب محسوس کر سکتا ہے۔
اعظمی صاحب کا کلام لگاتار چبھنے والی شاعری سے مختلف تھا، ان کی ہر غزل دوسری غزل سے ممتاز طور پر جداگانہ ہے۔ ہر غزل کا ہر شعر کچھ نہ کچھ ذکر کرنا چاہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی نوکیلی بات غیر جذباتی لب و لہجے میں کہنا چاہتا ہے۔ اعظمی صاحب کی غزلیں عموماً ۶ تا ۸ اشعار پر مشتمل ہوتیں۔ نہ ان میں طوالت کہ ردیف و قافیہ سے کھیلنے کا گماں ہوتا، نہ اتنی مختصر کہ نامکملیت کا احساس ہوتا۔ ’’بجھے بجھے تبسم‘‘ کی علامت ان غزلوں کے ہلکے ہلکے سلگنے کو واضح کرتی ہے۔
اعظمی صاحب غزلوں میں جس زندگی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ایک طویل سفر ہے اور اس کی مدت لمحہ لمحہ کٹتی جا رہی ہے۔ جس میں کوئی مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہوتا۔ کئی الجھنیں ہیں جو سلجھتی ہی نہیں، صرف تسکینِ ذات کے لیے منطق استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی غزلوں میں جو فکری آہنگ ہے، وہی ان کی نظموں میں بھی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں جو واحد متکلم ہے وہ ایک ایسا خواب دیکھنے والا ہے جو خواب کی تعبیر سے گریزاں ہے۔ شاید اس لیے کہ اسے سفر میں خوابوں کی فصلوں کو کچلنا ہی پڑتا اور وہ بھی کس برتے پر۔
کئی برسوں قبل ان کی ایک غزل ’’شاعر‘‘ بمبئی میں شائع ہوئی تھی۔ خاص غزل تھی۔ اس کے چند اشعار سنیے۔
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سونا ہوں کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردشِ وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
اس غزل میں جو آواز صاف ابھرتی ہے وہ شاعر کی آواز ہے۔ ہر شعر میں شاعر کا کرب ہی واضح ہے۔ وہ زندگی کی سنسان اور بے اماں رہ گزر پر تنہا کھڑا ہے۔ کھڑا اس لیے کہ منزل کا کوئی تعین نہیں، سمت کی کوئی شناخت نہیں اور ہر طرف دھوپ ہی دھوپ ہے۔ کسی جانب جانے میں کوئی نجات نہیں۔ اس لمحے میں سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ سائے کو آواز دے، سایہ امان ہے اور سایہ ہے غالباً اس کی منزل۔ اس طرح شاعر بد ذوق اور نا شناس لوگوں سے بلکہ دنیا سے ایک پھیکے سے لہجے میں کہتا ہے کہ حقیقت اور اصلیت میں ایک قسم کا سونا ہوں قیمتی اور گراں ہوں لیکن آہ یہ نا قدر دنیا کہ میں اجنبیت اور بے حسی کی مٹی میں دبا ہوا پڑا رہ گیا اور میری ہستی گردشِ وقت کی طرح کج رو ہے اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ٹوٹے ہوئے آئینے کی طرح ہے اور غالباً اسی وجہ سے ازل تا ابد اس خواب دیکھنے والے سے سب ناراض ہیں۔
میں نے اس غزل کو مطالعے کے لیے اس وجہ سے منتخب کیا کہ اس میں چند باتیں نوٹ کرنے کی ہیں۔
( ۱ ) موضوعات، جو ان کی شاعری میں پائے جاتے ہیں مثلاً بے سمت اور بے سہارا سفر اپنی انفرادیت کا احساس اور زمانے کی ناقدری کا گلہ، وقت کی کج روی کا شکوہ اور سخن ور کی نمائندگی۔
( ۲ ) پوری غزل میں لب و لہجے کی وحدت اور اظہار میں تسلسل، غزل کا غزلِ مسلسل جیسا ماحول۔
( ۳ ) الفاظ جو نہ چونکانے والے، نہ کسی طرح انوکھے۔
ان نکات پر اگر آپ غور کریں تو ایک خاص شعری رویے کی وضاحت ہوتی ہے اور یہ شعری رویہ خلیل صاحب کی نظموں اور غزلوں دونوں ہی میں یوں ہی موجود ہے۔
ہمارا عہد خوابوں کا عہد ہے۔ نئی شاعری میں خوابوں کا ذکر بار بار آیا ہے، خواب جو راہ فرار ہیں، ایک لمحے کے لیے راہِ نجات بھی ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی صاحب کی شاعری میں خواب ایک غیر حقیقی تصویر کے مطابق ہے۔ اس تصویر کی طرح جس کی نہ کوئی اصل ہے نہ کوئی تعبیری حیثیت، یہ خواب یوں ہی رسماً دیکھے جاتے ہیں اور زندگی کی مصروف اور مجبور دوڑ میں روند دیے جاتے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟
ہمارے عہد سے منسوب کیوں ہوئے آخر
کچھ ایسے خواب کہ جن کا نہیں ہے کوئی وطن
اور خوابوں کی تعبیر مانگنا ایک سعیِ لا حاصل ہے خوابوں سے امید لگانا ایک لا یعنی فعل۔ اس لیے شاعر کہتا ہے۔
پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اُداسی کا سبب
خواب جو دیکھے، وہ خوابوں کی حقیقت مانگے
اور مصلحت یہی ہے کہ صورتِ حال کی اس خار زار دوڑ میں اس ہجوم میں جو مسائل اور کلفتوں سے بھرا ہوا بلکہ لدا ہوا ہے۔ اپنے ذاتی جذبات، آرزوؤں اور خوابوں کو پامال کر دیا جائے۔ ضرور اس مصلحت کا کوئی گھناؤنا راز ہو گا:
کوئی تو بات ہو گی جو کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال
اور ان مسائل اور کشاکش میں جب شاعر اپنے سفر کو شروع کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ کبھی نہ کبھی گیان اسے ضرور ملے گا۔ کبھی نہ کبھی اس الجھاوے، اس کرب اور اس بے اصل زندگی کا کوئی نہ کوئی حل، کوئی نہ کوئی راستہ، کوئی نہ کوئی سمت ضرور منکشف ہوں گے۔ وہ بھی گوتم بدھ کی طرح حیات کو سمجھنے کے لیے بے چین ہے اسے معلوم ہے کہ اس کی تلاش و جہد میں گوتم بدھ کی تلاش جیسی جویائی اور الوہیت کا پرتو نہیں لیکن۔
میں گوتم نہیں ہوں
مگر میں بھی جب گھر سے نکلا تھا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے ہی آپ کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں
کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اس دن مجھے گیان ہو گا
(میں گوتم نہیں ہوں)
اور اس تلاش میں جو شاید خود کہیں نہ کہیں ختم ہو گئی، ایک ایسی منزل بھی آئی کہ زندگی کی رسوم و قیوم نے ظرفِ وجود کو خالی کر دیا۔ وجود کی حیثیت اس کے علاوہ کچھ نہ رہی کہ وہ ایک بدن اور اس پر لگے چہرے کا نام ہو کر رہ گیا۔ وجود کے اندر جلی ہوئی وہ شمع جو روغن طلب سے روشن تھی، بجھ سی گئی۔ پیکر کی اہمیت ہستی سے بڑھ گئی بلکہ پیکر نے ہستی کو اس طرح اسیر کر لیا کہ اصل شاعر اصل روح کہیں گم ہو گئی۔ شاعر خود اپنے وجود کے بارے میں مشتبہ ہو گیا۔ کیا اس کی کوئی پہچان ہے؟ کیا اس کی کوئی حقیقت ہے؟ اس کے علاوہ کہ اپنے عہد، اپنے فن اور متعلقات سے پہچانا جائے۔ کیا اس کی بھی کوئی ہستی ہے؟ گویا اس کی تلاش و جستجو کی سمت بیرونِ ہستی سے خود ہی اپنی ہستی کی طرف آ جاتی ہے اور جستجو اب وہ خلش نہیں رکھتی، اب اس میں ایک قسم کی خود سپردگی ہے۔ عجیب سی گم گشتگی ہے وہ بار بار کہتے ہیں۔
یہ تمنا نہیں اب دادِ ہنر دے کوئی
آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
راستہ پُر پیچ ہے اور ہم سفر کوئی نہیں
سب مرے ہم شکل ہیں، مجھ سا مگر کوئی نہیں
اس جہاں میں میرے ہونے کی گواہی کون دے
اک ہجوم اور اس میں چشمِ معتبر کوئی نہیں
ہر گھڑی عمرِ فرومایہ کی قیمت مانگے
مجھ سے آئینہ مرا میری ہی صورت مانگے
اور کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ شاعر اب محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ایک روندی ہوئی رہ گذر پر ایک دہرائی ہوئی ہستی کی طرح گزر رہا ہے۔ وہ علامتیں جو اس رہ گذر کے اطراف اسے نظر آتی ہیں، وہ شباہتیں وہ مناظر، وہ اشخاص اور وہ مسائل جو اسے ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسے یہ غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ جیسے روز و شب، ماہ و سال کی اس مسافت میں وہ ایک ’’دہرائی ہوئی‘‘ شخصیت ہے۔ یہ اس کا کوئی نیا جنم ہے اور ہر لمحۂ تبدیلی میں اس کا جنم بدلتا جاتا ہے۔ وہی علامتیں نئی شناخت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، انھیں کی پہچان جو ہستی کی حیثیت کو بدلتی ہے۔ گویا جامد اشیا بدلتی ہیں یا بدلی بدلی دکھائی دیتی ہیں تو مسافر کو خود اپنے میں تبدیلی لگتی ہے، ہر لحظہ، ایک نیا جنم لیتا ہے اور:
میں پھر سوچتا ہوں
۔۔ ۔ کہ میں کون ہو گا؟
کیوں کہ میں پچھلے لمحے میں جو کچھ تھا اور وہ نہیں ہوں
تو کیا میں ہر اک لمحہ ایسی کتھائیں سناتا ہوں
جو پچھلے جنموں سے منسوب ہیں
(پچھلے جنم کی کتھائیں)
ایسے ہی سوالات ابھرتے ہی رہتے ہیں۔ جو اس کے ذہن میں خلش کرتے ہیں۔ لیکن گویا یہ سوالات جامد ہیں، لاینحل ہیں، پتھر کے مجسموں کی طرح صدیوں سے انسان کو خوف زدہ بلکہ وہم زدہ کرتے آ رہے ہیں، وقت گزرتا ہی جا رہا ہے:
آتے ہیں اور گذرتے ہیں کتنے ہی ماہ و سال
صدیوں سے راستے میں کھڑے ہیں کئی سوال
تو کیا ہوا؟ یہ ناقدری کیسی ہے؟ جو مٹی میں دبے ہوئے سونے کی تلاش نہیں کرتی! یہ فلسفے کیسے ہیں؟ جو انسان کو اس کے اصلی مقام سے دور کرتے ہیں، یہ فلسفے کیسے ہیں جنھوں نے زمینِ چمن کو انسانی جذبات کے لہو سے لالہ زار کر دیا ہے، یہ دانش کیسی ہے۔ جو جذبات بھڑکاتی ہے اور شاعر میں احساسِ نامرادی کو اکساتی ہے تہی دستی کو عیاں کرتی ہے۔ یہ دل کا درد کیسا ہے کہ انبساط کا ایک مختصر سا لمحہ بھی وجہِ اطمینان لگتا ہے۔ یہ لٹنے کا احساس کیسا ہے، یہ دل کی بستی کے اجڑنے کا سماں کیا ہے۔ شاعر خود یہ سوالات نہ اٹھاتا ہے، نہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تو صرف اپنے محسوسات کو سادہ لب و لہجے میں درد انگیز طور پر بیان کرتا ہے۔ اس کے محسوسات میں اس کی اپنی خشک لبی پا شکستگی، دل گرفتگی اور گرسنہ مزاجی نمایاں ہیں۔ شاعر کا اندازِ بیاں اس کے جذبات کی ترسیل کا بیشتر عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ اندازِ بیاں ہی اعظمی صاحب کو اپنے عہد کے غزل گویوں میں ایک جداگانہ مقام دلاتا ہے اور جدید شاعر دعوے کے ساتھ ان کو نیا شاعر قرار دیتے ہیں کہ ان کی شاعری مرکوز بر ذات اور اظہارِ خالص کی عمدہ مثال ہے۔ کیوں نہ پھر اعظمی صاحب کے کچھ اشعار سنا دوں:
یہ اور بات ہمارے لہو کی پیاسی ہے
مگر زمینِ چمن پھر بھی ہے زمینِ چمن
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
ہوا کے جھونکے جو آئیں تو ان سے کچھ نہ کہو
جو آگ خود ہی لگائی ہے اس میں جلتے رہو
یہ دل کا درد تو ساتھی تمام عمر کا ہے
خوشی کا ایک بھی لمحہ ملے تو اس سے ملو!
آہ! ان اشعار کو پڑھتے پڑھتے نہ جانے ایسا کیوں لگتا ہے کہ اعظمی صاحب یہیں کہیں موجود ہیں اور ان کے اشعار کا دفتر کھلا ہے، جس میں سے اشعار کی تتلیاں اڑ اڑ کر ہر طرف رنگ بکھر رہی ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی کے انتقال سے اردو ادب میں ایک قد آور شاعر کا خلا پیدا ہوا ہے، وہ ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے نثری، تنقیدی اور شعری تخلیقات کا ایک گراں بہا سرمایہ چھوڑا ہے۔ ماہ نامہ ’’کتاب نما‘‘ کا خاص نمبر، نئی نظم کا سفر، ان کی تنقیدی نظر اور انتخابِ سخن کی صلاحیت کی دلیل ہے۔ جس کا پیش لفظ اردو کی نئی شاعری کی سمت مقرر کرنے میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا اسلوب تحریر محققانہ اور مہذب تھا۔ اس خوش روی اور فنّی بصیرت نے انھیں نئے ادب کا ایک فردِ فرید بنا دیا۔
ہم سا کوئی ملے تو کہیں اس سے حالِ دل
ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال
اربابِ ادب کو اعظمی صاحب کے اشعار ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
٭٭٭