پھر بادلوں کو زخم لگا ہے ہواؤں سے
پھر خوں برس رہا ہے زمیں پر گھٹاؤں سے
طوفان کے اسیر بھی ہیں کتنے بے وقوف
ساحل کی بھیک مانگتے ہیں ناخداؤں سے
کچھ مشورے بھی روح شکن تھے طبیب کے
کم عمر ہو گیا ہے بدن بھی دواؤں سے
گل عدل کا تو دیتے نہیں منصفین شہر
خوش بوئے ظلم مانگتے ہیں التجاؤں سے
شعروں کے پیرَہن میں طلب کر نہ مصلحت
تیزی نہ مانگ دھوپ کی پیڑوں کی چھاؤں سے
لیا نام دو گے سوچ لو ان کی جفاؤں کو
بو ُ بے رُخی کی آتی ہے جن کی وفَاؤں سے
اذہانِ جُرم جیل میں پاتے ہیں پرورش
اب انسدادِ جُرم نہ ہو گا سزاؤں سے
شہروں میں ایک رتّی مُروّت نہیں رہی
کیا سوچ کے خلیلؔ چلے آئے گاؤں سے
٭٭٭