موبائل فون کی بیل بجنے پر میں نے ڈسپلے اسکرین پر نام دیکھا
Khalid Ahmed
فون ریسیو کیا۔ آداب خالد بھائی۔
قبلہ و کعبہ عرفان ستار۔ یہ فرمائیں کہ مجھ بے چارے شاعر نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ؟ کیوں میرا پرچہ بند کروانے پر تلے ہو؟
میں نے کہا کیا مطلب خالد بھائی؟ میں نے کیا کیا ہے ؟
تم نے کچھ نہیں کیا؟ تمہاری غزل کی جگہ خود غزل کہہ کر لگاؤں ؟ غزل بھیجو ابھی۔ پرچہ جانا ہے پریس میں۔
اور فون بند ہو گیا۔ میں دیر تک فون تھامے سوچتا رہا۔ کیسا پیار کرنے والا آدمی ہے۔ کس بلا کا شاعر۔ کتنا سینئیر۔ اور کیسی محبت کرتا ہے اپنے بعد آنے والوں سے۔ خالد احمد لاثانی اور بے مثال ہے۔ بیاض ان کی محبت تھی۔ یہ ایک عجیب پرچہ تھا جس کے مخالفین بھی اس میں چھپنے بغیر مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ ملک کے طول و عرض سے نئے لکھنے والوں کو جس تواتر سے بیاض نے پڑھنے والوں تک پہنچایا اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔
خالد احمد سے میری پہلی ملاقات اس ٹیلیفون کال سے کئی سال پہلے ہوئی تھی جب میں لکشمی چوک کے ایک ہوٹل کی میز کے پاس کھڑا کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔
خالد احمد صاحب میرا نام عرفان ستار ہے۔ میں کراچی سے آیا ہوں۔ مجھ سے خواجہ رضی حیدر نے کہا تھا کہ لاہور آؤں تو آپ سے ضرور ملوں۔
خالد احمد کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ ویسی نہیں جیسی رسمی تپاک کا اظہار کرنے کے لیے ہوتی ہے، بلکہ ویسی جس میں پورا وجود مسکراہٹ میں شریک ہوتا ہے۔ لپک کر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے اور میرے درمیان جو ایک اور کرسی پڑی تھی اسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے آگے بڑھے اور مجھے گلے لگاتے ہوئے بہت پیار سے بولے۔ میں منتظر تھا تمہارا۔ خواجہ نے بہت ذکر کیا۔ شعر سنائے۔ بہت خوشی ہوئی کہ تم آئے۔ نجیب سے ملے ہو؟ یہ کہتے ہوئے ایک طرف ہٹے تاکہ میں ان کے سامنے بیٹھے ہوئے نجیب احمد سے مل سکوں جو اب بانہیں پھیلائے کھڑے تھے۔ یہ میری پہلی ملاقات تھی اس مردِ درویش اور شاعرِ بے مثال خالد احمد اور ان کے یارِ دیرینہ اور شاعرِ طرح دار نجیب احمد سے۔
لکشمی چوک کا ایک ہوٹل تھا جہاں میں پوچھتا پاچھتا پہنچا تھا۔ جو پہلا ہوٹل نظر پڑا وہیں ایک بیرے سے پوچھا کہ یہاں کہیں خالد احمد نامی ایک صاحب بیٹھا کرتے ہیں۔ اس نے برابر والے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہوں گے۔ رات کے نو بجے تھے اور اس وقت صرف خالد احمد اور نجیب احمد موجود تھے جبکہ رضی بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ خالد کے پاس نوجوانوں کی ایک بھیڑ لگی رہتی ہے۔ اس سے قبل کہ میں پوچھتا خالد احمد نے کہا، بس ابھی تھوڑی دیر میں رونق لگ جائے گی پھر تم سے شعر سنیں گے۔ ابھی کھانا کھا لیتے ہیں۔ ہم نے بھی نہیں کھایا۔ بیرے کو آواز دے کر چکن کڑاہی کا آرڈر دیا اور پھر مجھ سے کراچی کے شعرا اور میرے بیک گراؤنڈ پر باتیں شروع کر دیں۔ کھانا آنے تک اس میز کی گرد کرسیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ تمام ہی نوجوان تھے۔ خود میں ڈوبے ہوئے۔ سگریٹ کے گہرے کش لگاتے ہوئے۔ آپس میں کسی نظم، غزل، یا افسانے پر گفتگو کرتے ہوئے۔ کھانا ختم ہوا اور چائے آئی تو خالد احمد نے سگریٹ کا ایک کش لیا اور کہا حاضرین توجہ۔ یہ عرفان ستار ہے۔ کراچی سے آیا ہے۔ سنا ہے کہ "قابلِ سُن” شاعر ہے۔ اب جب تک تم سب نیند سے غش نہ کھانے لگو، یہ غزلیں سنائے گا۔ چلو بھئی غزل سناؤ۔ میں نے غزل شروع کی۔ پہلی غزل ختم ہونے تک میں ذہن میں یہ طے کر چکا تھا کہ خالد احمد جیسا سامع میں نے آج تک نہ دیکھا تھا۔ مصرع دہراتے ہوئے وہ اس لفظ پر پورا زور دیتے تھے جو اس شعر کا کلیدی لفظ ہو۔ ادائی میں شعر کا مکمل مزاج ابھار دیتے تھے۔ اور اس والہانہ انداز سے داد دیتے تھے کہ سنانے والا سرشار ہی تو ہو جائے۔ اس رات بہت دیر تک میں نے غزلیں سنائیں اور پھر میری فرمائش پر خالد احمد اور نجیب احمد نے بھی اپنا کلام سنایا۔ اس دن کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ لاہور جاتا تو جتنے دن بھی وہاں رہتا، ہر رات لکشمی چوک پر خالد احمد کی محفل میں حاضری لازمی ہوتی۔ ان دنوں میرا حافظہ بہت تیز تھا اور تقریباً ہر اچھے شاعر کے سینکڑوں اشعار مجھے ازبر تھے۔ خالد احمد اکثر کہتے چلو یار آج انور شعور کے شعر سناؤ۔ آج رسا چغتائی ہو جائیں۔ اور پھر ساتھ ساتھ ان اشعار پر گفتگو کرتے جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مجھ پر مہربان ہوتے گئے اور پھر وہ شاعری سننے اور سنانے کے علاوہ ادب پر گفتگو بھی کرنے لگے اور دیگر متعلقہ امور پر بھی میری رہنمائی کرنے لگے۔ الفاظ کی نشست و برخاست، تلازمہ سازی، علامتوں اور رعایتوں کے معاملات، مصرع کی بنت، کتنے ہی ایسے موضوعات پر میرے علم کا بڑا حصہ خالد احمد کی گفتگو سے کشید کیا ہوا ہے۔ خالد بھائی نے ہی مجھ سے ایک بار کہا تھا کہ تمہیں معلوم ہے تمہاری شاعری کا بنیادی وصف کیا ہے ؟ آہنگ۔ تمہاری شاعری قدرتی طور پر اپنا آہنگ ساتھ لاتی ہے۔ اس بات کی تصدیق بعد میں ان لوگوں نے کی جو موسیقی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
آج میں ماضی کی طرف نگاہ پھیروں تو اگرچہ میری زندگی اور تخلیقی شخصیت پر بہت سے لوگوں کا اثر رہا، مگر اگر میں چند سرِ فہرست ناموں کا ذکر کروں تو جون ایلیا، خواجہ رضی حیدر، اور احمد جاوید کے علاوہ جس شخص کا میرا حوصلہ بڑھانے میں، تعارف کروانے میں، اور میری خود اعتمادی میں اضافہ کرنے میں اہم ترین کردار رہا ہے، وہ یقیناً خالد احمد ہیں۔
خالد بھائی کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ان کی نوجوانوں سے محبت تھی۔ آج ان کے انتقال کی خبر سن کر جب بھائی عباس تابش کے اسٹیٹس پر ان کے کمنٹ دیکھے تو احساس ہوا کہ آج لاہور کے کتنے ہی شاعر خود کو یتیم محسوس کر رہے ہوں گے۔ خالد احمد ایک ایسا چھتنار درخت تھا جس کے سائے میں نئے پودے پھلتے پھولتے تھے۔ وہ کسی کا راستہ نہیں روکتا تھا۔ کسی پر اپنی سوچ مسلّط نہیں کرتا تھا۔ کبھی فضول باتوں میں نہیں الجھاتا تھا۔ اپنی کم سناتا تھا اور دوسروں کی خوب سنتا تھا۔
عصری ادب پر جیسی نگاہ خالد احمد کی تھی وہ کم ہی کسی اور کی دیکھی۔ ایک دن مجھے کہنے لگے یار یہ رسا چغتائی ایک بلا ہے۔ مجھ سے پوچھو تو جس شاعری کی میں خواہش رکھتا ہوں، یہ شخص وہ ساری شاعری کر چکا ہے۔ میں نے پوچھا تو کیا آپ رسا صاحب کو عہدِ حاضر کا سب سے اچھا شاعر سمجھتے ہیں ؟ کہنے لگے یار ایک مسئلہ ہے۔ زندہ شاعر بہت سے موجود ہیں جو نجانے کب بڑی شاعری کر جائیں ؟ اس لیے ابھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وہ شاعر جو زندہ ہے اس کے ساتھ اس کے بڑے شاعر بننے کے امکانات بھی زندہ ہیں۔ مگر رسا بہت لاجواب شاعر ہیں۔
واجد امیر، توقیر عباس، امیر حسین جعفری، منظر حسین جعفری اور ایسے بہت سے دوستوں سے ملاقات خالد بھائی کے طفیل ہی ہوئی۔ عالمی عصری ادب کے بہت سے بڑے ناموں سے انھوں نے ہی مجھے متعارف کروایا۔ جب تک میں پاکستان میں رہا، ان کی محبت کا سلسلہ میرے حق میں دراز ہی رہا۔ بیاض کے ہر شمارے سے پہلے غزل کا تقاضا، شمارہ چھپنے کے بعد ڈاک سے بھیج کر یہ معلوم کرنا کہ ان تمام احباب تک پرچہ پہنچ گیا جس کے لیے انھوں نے تاکید کی تھی یا نہیں۔ اور کبھی کبھی یونہی لکشمی چوک کے ہوٹل سے فون کہ نجیب پوچھ رہا ہے عرفان زندہ ہے یا مرگیا؟ کیا جواب دوں ؟
یوں بھی ہوا کہ اچانک کرسی سے اٹھے اور کہنے لگے۔ قاسمی صاحب سے ملے ہو؟ چلو ملواتا ہوں۔ ذرا سوچئیے۔ مجھ ایسے نوآموز کو خالد احمد متعارف کروائے احمد ندیم قاسمی سے ؟ میں فنون میں چھپنے کے باوجود اتنی ہمت نہ مجتمع کر پایا تھا کہ کبھی خود جا کر قاسمی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکوں۔ یہ خالد بھائی تھے جن کے توسّط سے یہ ممکن ہوا۔ منیر سیفی، شہزاد احمد، ڈاکٹر سلیم اختر اور ایسے کئی جیّد لوگوں سے خالد بھائی نے خود ساتھ لے کر میرا تعارف کروایا۔
خالد احمد ایک ایسا تخلیق کار تھا جس نے تین نسلوں کو متاثر کیا۔ ایسی بات بہت کم لوگوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ خالد احمد جتنا بڑا شاعر تھا، ادبی حلقوں میں انھیں اس طرح نہ سراہا گیا نہ تسلیم کیا گیا۔ اس میں بہت دخل ان کی درویش طبیعت کا بھی تھا، مگر یہ ذمہ داری تخلیق کار کی نہیں بلکہ اس عہد کے ناقدین کی ہوتی ہے کہ وہ اس بڑے تخلیق کار کا اعتراف خود بھی کریں اور دوسروں کو بھی اس کا جواز فراہم کریں۔ غزل ہو یا نظم، خالد احمد کی تخلیقی قوّت ناقابلِ تقلید اور قابلِ رشک تھی۔ مگر خیر یہ معاملاتِ دگر ہیں۔ وقت یہ طے کرے گا کہ خالد احمد کتنا اہم اور کس کینڈے کا شاعر ہے۔ بہت سے ایسے لوگ مضامین اور مقالے لکھیں گے جن کا یہ منصب ہے اور جو خالد احمد کے فن سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ مجھے تو خالد بھائی کو یاد کرنا تھا۔ ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ عباس تابش، سعود عثمانی، واجد امیر، توقیر عباس، آغا نثار، امیر حسین جعفری، اور ایسے بہت سے مدّاحانِ خالد کو پرسہ دینا تھا، اور یہ اعتراف کرنا تھا کہ خالد بھائی۔ میں آپ کا مقروض ہوں اور ہمیشہ آپ کے حق میں صدقِ دل سے دعا کرتا رہوں گا۔ خدا آپ کو جزا دے کہ ایک جمِ غفیر ہے جو آپ کا احسان مند ہے اور آپ کے لیے دعا گو ہے۔
٭٭٭